عالمی تبلیغی اجتماع رائے ونڈ

ہفتہ 13 نومبر 2021

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

پاکستان میں ان دنوں رائے ونڈکاسالانہ عالمی تبلیغی اجتماع شروع ہے حج بیت اللہ کے بعد یہ دوسرابڑااجتماع ہے جس میں ناصرف پاکستان بلکہ پوری دنیاسے ہرسال لاکھوں کی تعدادمیں مسلمان شرکت کرتے ہیں ،یہ بات حقیقت ہے کہ دین اوردین کی محنت پرکسی مخصوص قوم اورعلاقہ کی اجارہ داری نہیں بعثت نبوی ﷺکے بعدخلفائے راشدین اورخیرالقرون تک اہل عرب نے دین اسلام کی دعوت وتبلیغ کا خوب کام کیاعربوں کی لازوال قربانیوں کے بعد عجم دین اسلام سے متعارف ہوکرحلقہ بگوش اسلام ہوئے ،مگررفتہ رفتہ عربوں میں دنیاپرستی ودین بیزاری نے رواج پکڑااوروہ دعوت دین کے عظیم مشن سے محروم ہوگئے چنانچہ عربوں کی زبوں حالی کے بعدترک قوم نے دینِ اسلام کے پرچم کومضبوطی سے تھام لیاخلافت عثمانیہ کاسنہری دوراسی سلسة الذہب کی ایک کڑی تھی ،ترکوں نے ایک مرتبہ پھرپوری دنیامیں اسلام کے پرچم کوبلندکیا،مگراپنوں کی ستم ظریفی وبغاوت اورخودترکوں کے اندرونی اختلافات ودین سے دوری کے سبب خلافت عثمانیہ کاتابناک دورتاریکی میں بدل گیا،اس عظیم سانحہ کے بعد برسہابرس تاریکی چھائی رہی یہاں تک کہ دین ِاسلام کے علمبردار مسلمان خود دین ِاسلام سے نا آشناہوگئے ،لیکن خدائے بزرگ وبرتر کا یہ وعدہ ہے کہ اسلام دنیامیں بلندہوکررہے گا،چنانچہ تقدیرایزدی نے برصغیرکی سوئی ہوئی تقدیرکوجگایااورمولانامحمدالیاس کاندہلوی رحمہ اللہ علیہ کی صورت میں امت مسلمہ کوایک مجددومفکرعطاکیاجس نے رحمت للعالمین ﷺ کے غم وفکرکواپنا غم وفکربنایا،وہ شب وروزماہی بے آب کی طرح تڑپتااورمچلتا،امت کے غم میں نکلنے والی اس کی آہ و بکاسے پتھردل بھی پگھل جاتا،اللہ تعالی نے اس مردِدرویش کے رگ وپے میں احیائے دین کاایساجذبہ موجزن کیاکہ اس نے مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کے ہرپیروجوان کومقصدبعثت نبوی ﷺپرکھڑا کردیا،بانی تبلیغی جماعت حضرت جی مولانا الیاس کاندہلوی رحمہ اللہ علیہکے والد ماجد حضرت مولانا اسماعیل رحمہ اللہ علیہاپنے زمانہ کے مسلمانوں کی دین سے دوری پر بہت رنجیدہ اور کڑتے رہتے تھے ،کاندھلہ سے بستی نظام الدین بنگلہ والی مسجد ہجرت میں بھی ان کے پیش نظر اپنی سہولت نا تھی بلکہ وہاں کے میواتیوں کو دین کی طرف راغب کرنے کے مواقع کی دستیابی تھی۔

(جاری ہے)

اس زمانہ میں بستی نظام الدین کے قرب و جوار میں جنگل ہی جنگل تھایہاں ایک قدیم بنگلہ تھا جس کے نزدیک چھوٹی سی پختہ مسجد موجود تھی اسی بنگلہ کی مناسبت سے اسے بنگلہ والی مسجد کہاجاتا تھا مسجد کے ساتھ ایک حجرہ اورچھوٹی سی درسگاہ تھی جہاں چند میواتی اور نادار طالب علم رہتے تھے آپ ان طالب علموں کو روایتی انداز سے ہٹ کر اپنے مخصوص انداز میں اسباق پڑھاتے۔


دہلی کے جنوب میں برسہا برس سے میواتی قوم آباد تھی جس کے بارے انگریزمورخین کا خیال ہے کہ میو آرین نسل کی بجائے ہندوستان کی قدیم غیر آرین نسل سے تعلق رکھتے ہیں اس طرح ان کی تاریخ آرین نسل کے راجپوت خاندانوں سے زیادہ قدیم ہے میوات کے خان زادوں کے متعلق ان کا بیان ہے کہ وہ نسلا راجپوت ہیں فارسی تاریخوں میں میواتی کا لفظ یہاں آتا ہے اس سے مراد یہی خان زادے ہیں۔


آئین اکبری سے معلوم ہوتا ہے کہ جادو راجپوت مسلمان ہونے کے بعد میواتی کہلائے۔میجر پاؤلٹ 1878میں شائع کردہ الور کے گزیٹر میں میو قوم کی حالت زار کے بارے میں لکھتا ہے کہ میو اب تمام تر مسلمان ہیں مگر برائے نام ، ان کے گاؤں کے دیوتا وہی ہیں جو ہندو زمینداروں کے ہیں وہ ہندؤوں کئی ایک تہوار مناتے ہیں ، ہولی میواتیوں میں مذاق اور کْھل کھیلنے کا زمانہ ہے اور اتنا ہی اہم اور ضروری تہوار سمجھا جاتا ہے جتنا محرم،عید اورشب برات۔

اسی طرح وہ جنم ،اشٹمی ،دسہرا اور دیوالی بھی مناتے ہیں۔ان کے ہاں ” پیلی چھٹی “ لکھنے کے لیے یا شادی کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے برہمن پنڈت بھی ہوتے ہیں۔ایک رام کے لفظ کو چھوڑ کر وہ ہندوانہ نام بھی رکھتے ہیں اگرچہ خان جتنا ان کے نام کے آخر میں ہوتا ہے اتنا نہیں لیکن پھر بھی بکثرت سنگھ ان کے ناموں کا اخیر جز ہوتا ہے۔
ایک دوسرے مقام پر لکھا کہ میو اپنی عادات میں آدھے ہندو ہیں ان کے گاؤں میں شاذ و نادر ہی مسجدیں ہوتی ہیں تحصیل تجارہ میں میوؤں کے باون۵۲ گاؤں میں سے صرف آٹھ میں مساجد ہیں۔

البتہ مندرں کو چھوڑ کر میوؤں کی عبادت کی جگہیں ویسی ہی بنی ہوتی ہیں جیسی ان کی ہمسایہ ہندوؤں کے ہاں ہوتی ہیں مثلاپانچ بھیرا بھینسا،چاہنڈچاہنڈیا کھیڑا دیو مہا دیوی کے نام ہوتے ہیں جس پر قربانیاں چڑھائی جاتی ہیں شب برات میں سید سالارمسعودغازی کا جھنڈا بھی ہرمیوگانوں میں پوجا جاتا ہے۔مولانا الیاس رحمہ اللہ علیہکی دینی دعوت کا آغاز :آپ نے 1926 میں دعوت کی محنت کا آغاز بستی نظام الدین میں واقع بنگلہ والی مسجد سے کیا جہاں ان سے قبل ان کے والد ماجد حضرت مولانا اسماعیل رحمہ اللہ علیہمقدور بھر اس فریضہ کو سرانجام دے رہے تھے۔


۔زمین و جاگیر کی قربانی :حضرت جی مولانا الیاس رحمہ اللہ علیہ کو وراثت میں کافی رقبہ ملا تھا تاہم وہ دعوت الی اللہ میں کچھ اس طرح سے فنا تھے کہ جائیداد اور زمینوں کے معاملات نمٹانے کی انہیں فرصت تک نہ تھی چنانچہ ان کی بہت ساری زمین پر لوگوں نے قبضہ جمالیا کچھ لوگوں نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ حضرت لوگ آپ کی زمینوں اور مکانوں پرناجائز قبضہ جماکر اپنی ملکیت بنا رہے ہیں لہذا آپ جھنجھانہ میں موجود اپنے رقبہ کی نگرانی کا مناسب بندوبست فرمائیں حضرت جی ان لوگوں کی بات سن کر فرماتے ” اگر لکھوا لیا تو خدا اسے ہی دے دے اور اس کے بدلے جنت میں ہمیں مکان دے دے“ حضرت حاجی عبدالوہاب صاحب رحمہ اللہ علیہکے خادم خاص مولانا فہیم صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت حاجی صاحب نے اس حوالہ سے اپنا چشم دید واقعہ سنایا کہ
میں مولانا الیاس رحمہ اللہ علیہکی خدمت میں موجود تھا کہ ایک صاحب جن کا نام ظہیرالدین تھا اور رشتے میں مولاناالیاس رحمہ اللہ علیہکے بھانجھے لگتے تھے حاضر خدمت ہوئے اور آکر عرض کیا کہ : میں نے مجسٹریٹ سے بات کر لی ہے آپ صرف ایک دفعہ مجسٹریٹ کے سامنے حاضر ہوجائیں۔

میں مجسٹریٹ سے کہ دوں گا کہ یہ مولوی اسماعیل کے بیٹے ہیں۔باقی ساراکام میرا ہے میں خود آپ کی جائیداد چھڑوالوں گا اور اس کی دیکھ بھال بھی کرتا رہوں گا اور اس کی آمدنی آپ کوآتی رہے گی اورآپ نے آمدن کو اپنی ذات پر کون سا خرچ کرناہے آپ تو تبلیغ پر ہی خرچ خرچ کریں گے اس پر مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ علیہنے فرمایاکہ :
” میاں ظہیر میری مثال چوراہے کے سپاہی کی سی ہے چوراہے چوراہیکا سپاہی اگر اپنا کام چھوڑ کر کسی اور اورکو راستہ بتلانے چلاجائے توساری سواریوں کی آپس میں ٹکر ہوجائے گی اگر میں نے اپنی سوچ فکر اور صلاحیت کا ایک ذرہ بھی اس کام کے علاوہ کسی کام میں لگا دیا تو دین دین کے سارے شعبوں میں ٹکراؤ ہو جائے گا میں تو ایک ذرہ بھی اس کام کے علاوہ کسی کو نہیں دوں گا“
تو اس پر حاجی صاحب نے فرمایا کہ بات میرے دل پر ایسی لگی کہ میں نے بھی فورا اپنے دل میں یہ طے کیا کہ ” عبدالوہاب تو نے بھی اپنی سوچ و فکر اورصلاحیت کا ایک ذرہ بھی اس کام کے علاوہ کسی اور جگہ نہیں لگانا۔

مولاناالیاس رحمہ اللہ علیہ تبلیغی محنت کا تاریخی پس منظر : مجدد دعوت وتبلیغ حضرت جی مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ علیہکے توسط سے 1962 میں اللہ رب العزت نے ہندوستان کے دومعروف شہروں میوات و دہلی سے دعوت و تبلیغ کی محنت کو زندہ فرمایا۔حضرت جی مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ علیہکے والد ماجد حضرت مولانا اسماعیل صاحب رحمہ اللہ علیہکی اصلاح امت کے لیے سچی لگن وتڑپ اور گرم آنسوؤں نے میوات و دہلی کی سخت زمین کو بہت حد تک نرم و زرخیز بنادیا تھا جس پر بعدازاں حضرت جی مولانا الیاس صاحب رحمہ اللہ علیہنے بھرپور فکر وسعی سے پنیری کاشت کرنا شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک تناآوردرخت کی شکل اختیار کر گئی میوات اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ان پڑھ و دین بیزار مسلمانوں کی اکثریت تھی جس پر محنت سے دینداری کا رنگ چڑھنا شروع ہوا۔

دعوت وتبلیغ کی محنت کے آغاز ہی سے حضرت جی مولانا الیاس صاحب کو یہ فکر دامن گیر تھی کہ اس دور کے نامور و محقق علماے کرام بھی اس محنت کی تائید و توثیق فرمادیں شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب رحمہ اللہ علیہکے نام ایک خط میں آپ نے انہیں لکھا کہ ’ عرصہ سے میرااپنا خیال ہے کہ جب تک علمی طبقہ کے حضرات اشاعت دین کے لیے خود جاکر عوام کے دروازوں کا نہ کھٹکھٹائیں اور عوام کی طرح یہ بھی گاؤں گاؤں شہر شہراس کام کے لیے گشت نہ کریں اس وقت تک یہ کام درجہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتاکیونکہ عوام پر جو اثر اہل علم کے عمل و حرکت سے ہوگاوہ ان کی دھواں دھار تقریروں سے نہیں ہو سکتا اپنے اسلاف کی زندگی سے بھی یہی نمایاں ہیجو کہ آپ حضرات اہل پر بخوبی روشن ہے “ شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نے مدارس و خانقاہی نظام سے وابستہ اہل علم کو دعوت و تبلیغ کی محنت کی طرف متوجہ کرنے کے طریقہ کار بارے ایک خط میں لکھا کہ۔

۔
” میری ایک پرانی تمنا ہے کہ خاص اصول کے تحت مشائخ طریقت کے یہاں یہ جماعتیں آداب خانقاہ کی بجاآوری کرتے ہوئے خانقاہوں میں فیض اندوز ہوں اور جس میں باضابطہ خاص وقتوں میں حوالی (قرب وجوار) کے گاؤں میں تبلیغ بھی جاری رہیاس بارے میں ان آنے والوں سے مشاورت کر کے کوئی طرززمقررفرما رکھیں یہ بندہ ناچیز بھی اس ہفتہ میں بہت زیادہ اغلب ہے کہ چندروئساکے ساتھ حاضر ہودیوبند اور تھانہ بھون کا بھی خیال ہے “ چنانچہ مندرجہ بالااصولوں کی پابندی سے جماعتوں کی نقل و حرکت نے
چنانچہ آپ نے اپنی فراست سے اس کا یہ طریقہ کار منتخب کیا کہ سہارنپور ، تھانہ بھون ، رائے پور اور کاندھلہ جو علم و سلوک کے اس زمانہ میں بڑے مراکز تھے ان کے قرب و جوار میں تبلیغی جماعتیں بھیجنا شروع کیں اور انہیں سختی سے تائید کی کہ وہ ان اکابر علماے کرام کی خدمت میں صرف دعا کیلیے حاضر ہوں اور جتنی بات وہ پوچھیں صرف اتنا ہی جواب دیا جایے۔

چنانچہ ان جماعتوں کی کارگزاریاں جب ان مراکز کے بزرگ علمائے کرام حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ،حضرت مولانا عبدالقادرراے پوری صاحب،حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ،حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب،تک پہنچیں تو ان حضرات نے بذات خود ان جماعتوں کے تبلیغی طریقہ کار کا نا صرف جائزہ لیا بلکہ ان کی تعریف و تائیدبھی فرمادی۔چنانچہ ایک موقع پر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے فرمایا کہ ”دلائل کی ضرورت نہیں دلائل توکسی چیز کے ثبوت اورصداقت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں میرا تواطمینان عمل سے ہوچکاہے،اب کسی اوردلیل کی ضرورت نہیں آپ نے توماشاء اللہ یاس کوآس سے بدل دیا“
حضرت جی مولانا الیاس صاحب کی دینی دعوت کا آغاز چونکہ متحدہ ہندوستان کے زمانہ میں ہوا تھا اس لیے آپ کی اس تبلیغی محنت کی بازگشت اور چرچا کراچی اور پشاور تک بھی پہنچا اور حضرت جی کی زندگی ہی میں پشاور و کراچی کے علاوہ چند دیگر بڑے شہروں میں جماعتوں کی آمدورفت کا آغاز ہو گیا تھا۔

پاکستان میں دعوت و تبلیغ کا آغاز : قیام پاکستان کے بعد راے ونڈ شہر کو تبلیغ کا مرکز بنایا گیا۔
بھائی شفیع قریشی صاحب کو 1950میں پہلا امیر نامزد کیا گیا ، 1971 میں آپ کی وفات ہوئی اس کے بعد مولانااحسان الحق صاحب کے والد بھائی بشیر صاحب کو دوسرا امیر نامزد کیا گیا آپ 1992 میں انتقال فرماگئے۔بعدازاں حاجی عبدالوہاب صاحب کو امیر نامزد کیا گیارائے ونڈ مرکز :قیام پاکستان کے بعدتبلیغ سے وابستہ چیدہ چیدہ شخصیات کے لیے سب سے توجہ طلب امر یہ تھا کہ جماعت کا مرکز کس مقام کو بنایا جائے۔

حضرت جی مولانا یوسف صاحب رحمہ اللہ علیہکی پاکستان میں جماعت کے مرکز کے حوالہ سے رائے۔پاکستان میں متحرک جماعتی حضرات میں سے میاں جی عبداللہ صاحب رحمہ اللہ علیہکا نام سرفہرست تھا چنانچہ مولانا یوسف صاحب نے انہی کو ایک چلہ کی جماعت کا امیر بناتے ہوئے تاکید فرمائی کہ آپ حضرات کی جماعت دس دن مشرق، دس دن مغرب ، دس دن شمال اور دس دن جنوب کی جانب اپنا چلہ مکمل کرے۔


تقسیم کے بعد چونکہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے میواتیوں کی ایک بہت بڑی تعداد رائے ونڈ شہر اور مضافات میں قیام پذیر ہوئی تھی چنانچہ 4دسمبر 1950 کو راے ونڈ شہر کو پاکستان میں تبلیغی جماعت کا مرکزاور محترم شفیع قریشی صاحب کو مرکزی امیر نامزد کر دیا گیا۔لاہور بیگم پورہ میں واقع مدرسة ضیا القرآن میں 1948 کو پہلا تبلیغی اجتماع منعقد ہوا۔


سندھ میں تبلیغی اجتماع : میں سندھ میں تبلیغی اجتماع منعقد ہوا جس میں نظام الدین سے بھی بزرگ شخصیات نے شرکت کی ان میں محترم ادریس قریشی صاحب محترم عبدالخالق صاحب محترم تنویرصاحب، محترم یاسین صاحب شامل تھے۔رائے ونڈ کا پہلا تبلیغی اجتماع اور موت پر بیعت :10 اپریل 1954 کو راے ونڈ ہی کے مقام پرپاکستان کا پہلا تبلیغی اجتماع منعقد ہوا جس میں حضرت جی مولانا یوسف صاحب تشریف لائے، اجتماع کے اختتام پر ذمہ دار حضرات سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا” دیکھو بھائی ! آج کے بعد یہ جگہ تمہاری جماعت کا مرکز ہے تم نے اسے سرسبز وشاداب بناناہے اور اسی جگہ کو دین کی محنت سے آباد کرنا ہے اس لیے تنگی آئے یا وسعت ،بھوک آئے یا پیاس ،بیماری آئے یاموت تم نے دنیا کے کسی کام میں نہیں لگنا بلکہ اسی کمائی کے کام میں لگنا ہے اور اپنے آپ کویہاں مٹا دینا ہے تو جو تیار ہو وہ اٹھے اور میرے ہاتھ پر موت کی بیعت کرے۔

مزید فرمایا کہ کوئی کسی کو ترغیب بھی نہ دے جس نے کھڑا ہونا ہے اپنی ذمہ داری پر کھڑا ہو “ کہتے ہیں کہ مجمع میں سب سے پہلے حضرت حاجی عبدالوہاب کھڑے ہوئے اس کے بعد حافظ سلیمان پھر میاں جی عبداللہ ، میاں جی عبدالرحمن ، حافظ نورمحمد ، اور پھر میاں جی اسماعیل کھڑے ہوئے،حضرت جی مولانا یوسف نے ان تمام حضرات سے عہد لیا کہ ” آج کے بعد میں اشاعت اسلام، خدمت دین اور مرکز کی آبادی کے علاوہ دنیا کے کسی کام میں نہیں لگوں گا اس راستہ میں اگر مجھے بھوک آئی تو برداشت کروں گا پیاس آئی تو برداشت کروں گا بیماری آئی تو برداشت کروں گا لیکن کسی کسی دوسرے کام میں ہرگز نہیں لگوں گا “۔


اسی مجلس میں میاں جی محراب صاحب حاجی محمدمشتاق صاحب کو ترغیب دے رہے تھے مولانا یوسف رحمہ اللہ علیہکی جونہی نظر پڑی تو سختی سے ڈانٹتے ہوئے فرمایا:
” میں نے پہلے ہی نہیں کہا تھ کہ کوئی کسی کو تیار نہ کرے ورنہ کل جب بھوک پیاس آئے گی تو پھر یہ تمہیں گالیاں دے گا کہ مجھے اس نے پھنسایاتھا، اس لیے کوئی کسی کو تیار نہ کرے “
کچھ دیر توقف کے بعد حاجی محمد مشتاق صاحب نے بھی بخوشی آمادگی کا اظہار کردیا۔

مدرسہ عربیہ رائے ونڈ کا قیام۔مرکز کے قیام کے ساتھ ہی مدرسہ عربیہ رائے ونڈ کی بنیاد بھی رکھ دی گئی جہاں ابتدا شعبہ حفظ کی بنیاد رکھی گئی حافظ نورمحمد صاحب اور میاں جی اسماعیل صاحب حفظ کے ابتدائی مدرسین تھے۔رائے ونڈ مرکز کے امام۔میاں جی عبداللہ نے حافظ محمد سلیمان صاحب کو وصول کرتے وقت رائے ونڈ مرکز کی امامت کا منصب پیش کیا تھا چنانچہ 1953 سے لے کر 1994 تک آپ رائیونڈ مرکز کے امام رہے۔

مرکز کے ابتدائی جانثاران ومقیمین :حافظ نورمحمد صاحب ،میاں جی محمد اسماعیل صاحب ،حافظ محمدسلیمان صاحب ،میاں جی عبدالرشید صاحب ،میاں جی محمد عبداللہ صاحب،حاجی محمدمشتاق صاحب مرکز کی تعمیر کی گئی ،مرکزکے لیے جگہ کا حصول :رائے ونڈ مرکز کے لیے مناسب جگہ حاصل کرنے سے قبل ان حضرات نے درج ذیل جگہوں پر پڑاؤکیا۔چھوٹے رائے ونڈ،بڑے رائے ونڈ ،چھوٹی سی مسجد،رائے ونڈ اسٹیشن کی مسجدقبرستان دوبارہ اسٹیشن والی مسجد موجودہ مقام۔

رائے ونڈ مرکز کی موجودہ جگہ کے حصول و الاٹمنٹ کے لیے محترم شفیع قریشی صاحب نے اپنے ایک دیرینہ قریبی دوست ملک دین محمد صاحب سے بات کی انہوں نے ملک غلام محمد صاحب ( سیکنڈ گورنرجنرل پاکستان) سے درخواست کی جنہوں نے آمادگی کا اظہار کرنے کے بعدرائے ونڈ کے حضرات کے مشورہ سے میاں جی عبداللہ کے نام جگہ الاٹ کر دی۔اور پھر اس جگہ پر باقاعدہ مرکزقائم کیاگیا،آج رائے ونڈمرکزکایہ فیض پورے عالم کومنورکیے ہوئے ہے یہ پاکستان کے لیے یقینا بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ پوری دنیاسے مسلمان دعوت وتبلیغ کی محنت کوسیکھنے کے لیے رائے ونڈمرکز آتے ہیں ،یہاں کاہرفیض یافتہ پوری دنیاکے لیے امن ومحبت کاپیغام بربن کرنکلتاہے ،امام مالک رحمہ اللہ علیہ کامشہورقول ہے کہ اس امت کے آخری طبقہ کی اصلاح وہدایت بھی اسی طریقہ پرہوگی جس طریقہ پراس امت کے پہلے طبقہ کی ہوئی تھی ،چنانچہ پوری امت مسلمہ کااس بات پراتفاق ہے کہ وہ طریقہ دعوت وتبلیغ ہی کاتھا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :