خونِ حُسین رضی اللہ عنہ دراصل خونِ رسول ﷺ ہے

پیر 23 اگست 2021

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی  لکھتے ہیں کہ سارے جن،انسان ،نباتات ،حیوانات،نوری ،فلکی ،آفاقی یعنی ساری مخلوقات اکٹھی ہوجائیں اورقیامت تک روتی رہیں توامام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کاصدمہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا،مفتی شفیع عثمانی اپنے رسالہ ”اسوہ حسینی رضی اللہ عنہ “ میں لکھتے ہیں کہ واقعہ کربلا کااثرجنگل کے جانوروں پربھی ہواجس کواس واقعہ کا صدمہ نہیں وہ انسان ہی نہیں“۔

علامہ یوسف بنوری  تسکین الصدورکے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ واقعہ کربلاکاانکارکرنے ولاملحدہے“ ۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبرپچاس سال قبل ہی آپ کے کریم ناناﷺکودے دی گئی ،تاریخ ،وقت ،مقام اورقاتلین تک کے نام بتلادیے گئے ،حضرت علی کرم اللہ وجہ جنگ صفین سے واپسی پرجب مقام کربلاپرپہنچے توکچھ دیروہاں رک گئے اورواقعہ کربلاکے مختلف مقامات کی نشاندہی کی ،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میںآ تاہے کہ وہ اکثر یہ دعاکرتے تھے کہ اے اللہ ۶۱ہجری (یعنی واقعہ کربلا) سے پہلے مجھے موت د ے دینا چنانچہ ان کی یہ دعاقبول ہوئی اور۵۹ ہجری میں ان کاانتقال ہوگیا،واقعہ کربلاتاریخ انسانی کاوہ سیاہ باب ہے کہ جس کی ظلمت ونحوست سے خودتاریکیوں کوبھی خوف آتاہے اس لیے کہ کائنات میں نورہدایت کوروشن کرنے والی عظیم الرتبت ہستی کے محبوب خانوادہ کے سب سے محبوب افراد کی شہادت سے بڑھ کرکوئی ظلمت نہیں۔

(جاری ہے)


اس کائنات رنگ وبو میں سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ وحسین رضی اللہ عنہ جیسی عظمت وبزرگی کی معراج کو پانے والانہ توکسی ماں نے جنانہ ہی قیامت کی صبح تک کوئی ماں جن سکتی ہے وہ خلقِ خدامیں نبی کریم ﷺکے سب سے زیادہ قریب اورمشابہ تھے۔روئے زمین کی سب سے بابرکت سرزمین مدینة الرّسول ﷺمیں ان کی پیدائش ہوئی ۔ عظیم المرتبت نانااور والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک اوردل کا چین تھے ،کمال سعادت مندی کے
امام الانبیاء ﷺجیسے بے مثال نانا شیرخداحیدرکرارجیسے بہادروالداورپیکرشرم وحیاء جنت کی عورتوں کی ملکہ جیسی عظیم والدہ نصیب ہوئیں ۔


حضرت امام حسن وحسین رضی اللہ عنہ گلشن نبوت کے وہ خوبصورت پھول ہیں کہ جن کے نام گرامی خوداللہ تعالی نے رکھے ۔اوران نورانی شہزادوں کے نازونخرے اورکھیل کودیکھنے کے لئے نوریوں کے سردارجبرائیل امین بھی عرش سے فرش پرآتے ۔ایک مرتبہ کریم ناناﷺدل لگی کے طورپر اپنے دونوں نواسوں کی کشتی کروارہے تھے اورباربارامام حسن رضی اللہ عنہ کا حوصلہ بڑھاتے پا س ہی بیٹھی حسنین رضی اللہ عنہ کی بے مثال اماں سیّدزہراء رضی اللہ عنہ سارا ماجرادیکھ کرلطف اندوزہو رہی تھیں کہنے لگیں اباجان آپ حسن رضی اللہ عنہ کا حوصلہ بڑھارہے ہیں جبکہ وہ توبڑے ہیں ۔

اس پرکریم ناناﷺنے فرمایا کہ جبرئیل امین بھی یہ کھیل دیکھ رہے ہیں اوروہ حسین رضی اللہ عنہ کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں اورمیں حسن کا ،حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہ پوری امت مسلمہ کے ماتھے کا جھومراور افتخارہیں ۔رحمة للعالمین ﷺحالت نمازمیں سجدہ کی حالت میںٰ ہوتے تو امام حسین رضی اللہ عنہ ان کی پشت پرسوارہوجاتے جس پر فرط محبت میں سبطین کریمین کے شفیق ناناﷺ سجدہ کوطویل کردیتے ہیں لیکن اپنے پیارے نواسہ کو نیچے نہ اتارتے ۔

سیّدنا حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ایک دن دیکھتے ہیں سبطین کریمین رضی اللہ عنہ کے محبوب ناناﷺاپنے مبارک کندھوں پراپنے شہزادوں کو اٹھائے ہوئے ہیں ۔تودیکھ کرفرمایا واہ واہ کیاہی اچھی سواری ہے ۔کریم نانا نے فورافرمایا ذرادیکھو توسواربھی توکتنے اچھے ہیں؟ ۔ننھیالی محبت کا آغازخاندان نبوت ہی سے ہواساری دنیا کے ناناحسنین کریمین رضی اللہ عنہ کے کریم نانا پرقربان جن کی اپنے نواسوں سے غیرمعمولی والہانہ محبت کو کسی ترازومیں تولا نہیں جاسکتا ۔

بچے جنت کے پھول ہواکرتے ہیں ان سے ہرکوئی پیارکرتا ہے چومتاہے لیکن قربان جائیں سیّد ہ زہراء وحیدرکرّار رضی اللہ عنہ کے جگرگوشوں پرکے کریم نانااپنے نواسوں کو اکثرسونگھا کرتے اورفرماتے کہ یہ دونوں میرے پھول ہیں ۔یہ ایسے دلآویزپھول ہیں کہ جن کی مہک سے قیامت تک کائنات معطرہوتی رہے گی اورقیامت کے بعدجنت ان کی آمدپرفخرمحسوس کرے گی جن پھولوں کو عظیم المرتبت ناناﷺکے حسین ہونٹوں نے بوسے دیے ہوں جن کی بھوک وپیاس کریم ناناﷺکی شیریں لسان کوچوسنے سے مٹتی ہو۔

جن کے لیے سرورکائنات امام الانبیاء کاسینہ مبارک تکیہ بناہو۔جن کی سواری مخدوم الانبیاءﷺ ہوں جن کی اداسی سے اللہ تعالی کے پیارے رسول ﷺبے چین ہوجائیں ان کی عظمت کائنات کا کوئی مصنف ،مئولف ،خطیب ،ادیب ،شاعربیان نہیں کرسکتا ۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھامیرے کانوں نے سنا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بچے تھے کہ نبی کریمﷺنے ان کی دونوں کلائیوں کو پکڑرکھا اس وقت حسین رضی اللہ عنہ کے قدم نبی کریم ﷺکے کی پشت پرتھے فرمایا چڑھو،چڑھوحسین رضی اللہ عنہ اوپرکوچڑھتے جاتے تھے حتی کے ان کے پاؤں نبی کریم ﷺکے سینہ پرتھے فرمایا منہ کھولوانہوں نے منہ کھولاتونبی کریم ﷺنے ان کامنہ چوم لیااورزبان سے فرمایا ”اللھمّ احبہ فانّی احبّہ“الہی میں اس سے محبت کرتا ہوں توبھی اس سے محبت فرما۔

اپنے شہزادوں کی محبت میں ایک مرتبہ فرمایا حسن رضی اللہ عنہ کے لئے میری ہیبت اورمیری سرداری میراورثہ ہے ۔اورحسین رضی اللہ عنہ کے لئے میری جرات اورمیری سخاوت میراورثہ ہے ایک دفعہ اندھیری رات میں نواسہ رسول جگرگوشہ ابوتراب وبتول ا مام حسن رضی اللہ عنہ دوجہاں کے سرداررحمة للعالمین کی آغوش شفقت سے برکتیں اوررحمتیں سمیٹ رہے تھے ۔اسی اثناء میں ننھے شہزادے نے اپنی اماں سیّدہ زہراء کے پاس جانے کی خواہش کا اظہارکیا توپاس بیٹھے محبوب صحابی سیّدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ فوراحاضرخدمت ہوئے اورعرض کی حضور اجازت ہوتومیں ننھے شہزادے کوچھوڑ آؤں توآپ ﷺنے جواب میں فرمایا نہیں اسی دوران دفعتاآسمان میں بجلی چمکی اوراس کی روشنی اتنی دیررہی کے جنت کے نوجوانوں کایہ ننھا ساسرداراپنی پیاری اماں کے پاس پہنچ گیا ۔

حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہ سے رب العالمین کی کس حدتک وارفتگی تھی کہ اپنے محبوب کے محبوب اورلاڈلے نواسے کی راہوں میں آسمانوں سے چراغاں کردیا۔امام حسن رضی اللہ عنہ سینہ تک اپنے کریم ناناﷺکے مشابہ تھے جوپہلی نظرحیدرکرار رضی اللہ عنہ کے شہزادے کو دیکھتا تووہ بے اختیارکہہ اٹھتا کہ یہ دوجہاں کے سردارکاخون ہے ۔ایک دن سیّدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ حیدرکرار رضی اللہ عنہ کے لخت جگرکوکندھے پرسوارکئے ہوئے جارہے تھے کہ راستہ میں ان سے آمنا سامنا ہواتو بے ختیارکہہ اٹھے اے علی رضی اللہ عنہ یہ بیٹاتوتیراہے مگرمکھڑاکریم نانا ﷺکاہے۔

عظیم باپ کواپنے نورنظرسے والہانہ محبت ومودّت تھی ،ایک دن اپنے شہزادے سے فرمانے لگے کہ میرادل یہ چاہتاہے کہ تم تقریرکرواورمیں سامنے بیٹھ کرسنوں ۔جس پرفرماں بردارشہزادے نے فرمایا ابا جان مجھے شرم آتی ہے کہ آپ کے سامنے زبان کھولوں ایک روزحضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ ایسی جگہ جاکربیٹھ گئے جہاں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کونظرنہ آسکیں #۔

آپ نے لوگوں کے سامنے اسی دلپذیرتقریر کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زبان سے بے ساختہ قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ نکلی ”ذُرّیة بعضھامن بعض واللہ سمیع علیم “یہ ایک ہی نسل توہے جس میں ایک دوسرے کا فرزندہے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ انتہائی حسین وجمیل تھے ۔ان کی جوانی سیّدنا حضرت یوسف علیہ السّلام کی طرح مثالی تھی ۔جو دیکھتا توپھردیکھتا ہی چلا جاتا ۔

جوں جوں باغ نبوت کے اس بے مثال پھول کے ماہ وسال گذرتے جاتے توں توں اس کی ذات عالی میں پوشیدہ جوہرابھرتے جاتے ۔ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ منبرپرجلوہ افروزتھے اورآپ کے پہلومیں آپ کامحبوب نواسہ امام حسن رضی اللہ عنہ تشریف فرماتھے ۔آنحضرت ﷺ ایک بارحاضرین کی طرف متوجہ ہوتے اورایک باراپنے ننھے شہزادے کی طرف اورفرماتے ”میرایہ بچہ سردارہے،امید ہے اللہ تعالی اس کے ذریعے مسلمانوں کے دوگروہوں کے درمیان صلح کرادے گا“۔

چنانچہ آپ نے اپنے ناناجانﷺکی پیشین گوئی کوپوراکیا اورآپ کی وجہ سے مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں کے مابین صلح کی وجہ سے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام رک گیا ۔آپ ربیع الاول ۴۱ہجری میں خلافت کے حق سے یہ کہتے ہوئے دست بردارہوگئے کہ میں اس بات کو ناپسندکرتا ہوں کہ میری حکومت کی خاطرمسلمانوں کا خون بہے۔ایک موقع پرفرمایاکہ ”عربوں کی کھوپڑیاں میرے ہاتھ میں تھیں جس سے میں صلح کرتا اس سے وہ صلح کرتے اورجس سے میں جنگ کرتا وہ جنگ کرتے مگر میں نے ا س کو (حکومت کو)اللہ کی رضاجوئی کے لئے چھوڑ دیا ۔

ایک بارفرمایا”مجھے خوف تھا کہ قیامت کے روزمیرے سامنے ستّرہزاریااسّی ہزاریااس سے زیادہ یاکم لائے جائیں اوران سب کی رگوں سے خون بہہ رہاہواورجن کاخون بہاوہ اللہ تعالی سے میرے خلاف شکوہ کریں ۔ آپ نے بہت سے پیدل حج کئے اورفرمایا کرتے کہ مجھے اس سے شرم آتی ہے کہ قیامت کے روزاللہ تعالی کی بارگاہ میں اس حال میں حاضرہوں کہ اس کے گھرپیدل چل کرنہ گیاہوں ۔

ساری زندگی انتہائی سادگی اورعاجزی کے ساتھ بسرکی۔اوراپنی ذات کی وجہ سے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا یہاں تک کہ جس بدبخت نے آپ کو زہردیا جوکہ آپ کی شہادت کا باعث بنااس کو بھی معاف کردیا قریش کا ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہواتوآپ نے اس کو بتلایا کہ مجھے باربارزہردیاگیااورہرمرتبہ پہلی بارسے زیادہ تیزاورسخت قسم کا زہردیا گیا۔اس وقت آپ پرنزع کی کیفیت طاری ہوچکی تھی ۔


حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ آپ کے برادرصغیراس موقع پرتشریف لائے اورسرہانے بیٹھ گئے اورکہنے لگے بھائی جان آپ کو زہردینے والا کون ہے؟فرمایا کیا تم اس کو قتل کرناچاہتے ہو؟کہنے لگے جی ہاں اس پرفرمایا اگرمجھے زہردینے والاوہی شخص ہے جس کوسمجھ رہاہوں تواللہ تعالی زیادہ سخت انتقام لینے والاہے۔اوراگروہ نہیں ہے تومیں نہیں چاہتا کہ تم کسی بے قصورکو (شبہ میں )قتل کرو۔

آپ کی وفات کے بعدجنت البقیع میں آپ کودفن کیاگیاآپ کے جنازہ میں اس قدرمجمع تھاکہ راوی فرماتے ہی کہ اگرسوئی پھینکی جاتی تووہ بھی کسی نہ کسی کے سرپرگرتی نہ کہ زمین پر۔
ایک دن شاہ دوجہاں ناناسبطین کریمین ﷺتشریف لے جارہے تھے ۔راستے میں دیکھا کہ شیرخدا رضی اللہ عنہ کالاڈلاسیّدہ زہراء کالخت جگرآقاﷺکی آنکھوں کی ٹھنڈک امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ہم جھولیوں کے ساتھ کھیل میں مصروف ہیں ۔

کریم وشفیق ناناکواپنے پھول کی خوشبونے ایسامعطرکیا کہ فرط محبت میں دیوانہ واراپنے شہزادے کے پیچھے لپک پڑے ۔اورخوش مزاجی میں ننھے شہزادے کے پیچھے پکڑوپکڑوکہتے ہوئے بھاگنا شروع کیا۔جنت کے نوجوانوں کا یہ شہزادہ اپنے ننھے ننھے چاندی جیسے پاؤں پراپنے کریم ناناکے ساتھ ا ٹھکیلیاں کرتاہوابھاگتا ہے تو بے مثال ناناآگے بڑھ کراپنی زہراء کے نورنظرکو اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں ۔

اورایک ہاتھ ان کے سرکے پیچھے اوردوسراٹھوڑی کے نیچے رکھ کراپنے محبوب نواسے کے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پربو سہ دیتے ہوئے یوں لوری دیتے ہیں۔”حسین منی وانامن الحسین احبّ اللہ من احبّ حسیناحسین سبط من الاسباط“حسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں جوشخص حسین سے محبت رکھے اللہ تعالی اس سے محبت کرے۔حسین فرزندزادہ ہے انبیاء کے فرزندزادوں میں سے“۔

کریم ناناﷺاکثرفرمایا کرتے حسین مجھ سے ہے حسین مجھ سے ہے
کریم ناناکے فرمان” میں حسین سے ہوں “کی عملی تصویرآج پوری دنیا میں امام حسین رضی اللہ عنہ اوراہل بیت کے جانثاروں کی موجودگی ہے اہل بیت کے جانثاروں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کی قیادت میں میدان کربلاء میں کمال شجاعت اورحوصلہ مندی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کانذرانہ پیش کردیا مگرکریم نانا ﷺکے دین پرآنچ نہیں آنے دی اورظالم حاکم کے سامنے کلمہ حق کہہ کرقیامت تک آنے والے مسلمانوں کویہ پیغام دے دیاکہ اہل بیت سے محبت رکھنے والایزیدی ظلم ستم کے سامنے سینہ سپرہونے کوناحق کی اطاعت پرترجیح دے گااورشہادت کے تمغہ کوسینہ پرسجائے وہ آنے والی نسلوں کے لئے باعث عزت و افتخارجب کہ یزیدباعث ملامت وشرمندگی ٹھہرے گا۔

امام حسین رضی اللہ عنہ اپنی لازوال شہادت سے اہل نظرپراس نکتہ کوعیاں کرگئے کہ ولادت سے شہادت ”الحسین منی “اورشہادت سے قیامت تک ”انامن الحسین “۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :