کیامسئلہ فلسطین فقط مسئلہ اسلام ہی ہے؟

بدھ 2 جون 2021

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

مقبوضہ بیت المقدس میں غاصب اسرائیلی فورسزگذشتہ کئی عشروں سے صیہونی آبادکاری کے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کمربستہ ہیں رواں برس مشرقی بیت المقدس (یروشلم) کے عرب اکثریتی علاقہ” الشیخ جراح “میں یہودیوں کی طرف سے توسیع پسندانہ منصوبہ کی تکمیل کی غرض سے فلسطینیوں کے گھروں پر قبضے نے ایک نیامحاذکھڑاکردیاجس کی وجہ سے حالات کشیدگی اختیارکرگئے مزید برآں
 رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں مسجداقصی اوربالخصوص غزہ میں بدترین اسرائیلی جارحیت نے ناصرف فلسطینی عوام بلکہ عالم اسلام سمیت ہردرددل رکھنے والے انسان کوتشویش میں مبتلاکردیا اس مجموعی کشیدہ ترین صورت حال میں فلسطینیوں کی طرف سے بھی مزاحمت کی گئی تاہم اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ شہر پر متواتر 11 دن تک آگ کی ہولی کھیلی گئی۔

(جاری ہے)

حالیہ جنگ میں غزہ کے علاقہ کو ہی خاص طور پر کیوں ٹارگٹ کیا گیا ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے
1948 کی پہلی عرب اسرائیل جنگ میں پانچ عرب ممالک ،شام۔اردن، عراق، لبنان اور مصر اتحادی تھے مگر اس لڑائی کے نتیجہ میں خود فلسطین کے بہت سے علاقے چھن گئے۔
نتیجتاً78فی صد حصہ پراسرائیل کا قبضہ جبکہ صرف 22 فی صد پر فلسطین کا قبضہ باقی رہ گیا۔

باقی ماندہ 22 فی صد فلسطینی علاقہ دو معروف حصوں پر مشتمل ہے۔
1. غزہ پٹی : غزہ کے ایک جانب مصر کا صحرائے سینا جبکہ دوسری جانب سمندر واقع ہے باقی اطراف میں اسرائیلی آبادی ہے 1948 کی جنگ میں غزہ اور اس سے ملحقہ بہت سے علاقے عربوں سے چھن جانے کے بعد اب صرف غزہ پٹی باقی ہے ، قیام اسرائیل کے لیے ہونے والی جنگوں کے دوران بہت سارے فلسطینی غزہ منتقل ہو گئے اور پھر آگے چل کر 1987میں ردعمل کے طور پر یہاں سے ”انتقادہ“ نامی مزاحمتی تحریک پروان چڑھی جس نے بعدازاں حماس کو وجود بخشا۔

غزہ پر اکثر وبیشتر بمباری کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ غزہ ہی وہ واحد پٹی ہے جہاں سے اسرائیل کو حملوں کا خطرہ رہتا ہے۔
غزہ پر برسوں اسرائیل کا مکمل کنٹرول رہا یاسر عرفات کے معاہدہ اوسلو کے نتیجہ میں غزہ سے اسرائیلی فورسز کا انخلا ہوکر یہ فلسطین اتھارٹی کے زیر سایہ آگیا جسے محدوداختیارات حاصل تھے۔
2005 میں اسرائیلی فورسز کے غزہ سے انخلاء کے بعد ہونے والے انتخابات میں حماس نے کامیابی حاصل کی تو الفتح پارٹی اور حماس کے مابین اقتدار کی لڑائی شروع ہوگئی جس میں بہرحال حماس کی پوزیشن مضبوط رہی۔

2007میں ایک مرتبہ پھر حماس کو انتخابات میں کامیابی حاصل ہوئی تو اسرائیل کو اس پر بہت تشویش لاحق ہوئی اور اس نے غزہ پر بہت ساری پابندیوں کا اطلاق کر دیا
 2014 میں اسرائیل اور حماس کے مابین خطرناک جنگ ہوئی جس کے نتیجہ میں 2000 سے زائد فسلطینی شہید ہوئے۔
اور اب مئی 2021 میں ایک مرتبہ پھر اسرائیل اور حماس آمنے سامنے ہوئے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بدترین بمباری کی گئی جس میں 200 سے زائد فلسطینی شہید اور بیسیوں گھر ملبہ کا ڈھیر بن گئے
اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ وہ غزہ سے ہونیوالی کسی بھی متوقع مزاحمت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کیونکہ غزہ کی پٹی ہی وہ واحد پوائنٹ ہے جہاں حماس کی پوزیشن قدرے مستحکم ہے۔


اسرائیل کے نزدیک غزہ کا علاقہ روز اول سے حساس رہا ہے اس لیے اسرائیلی فورسز نے غزہ کے حوالہ سے کبھی بے فکری کا مظاہرہ نہیں کیا یہاں ان کی مداخلت برابر جاری رہی۔
حالیہ لڑائی میں اسرائیل نے جنگی قوانین کو روندتے ہوئے میڈیا دفاتر اور بلڈنگز کو بھی تہس نہس کیاور ڈھٹائی پر قائم تابڑ توڑ حملے کرتارہا امریکہ نے حسب سابق اس جارحیت پراپنے حلیف اسرائیل کا دفاع کیا،

مغربی کنارہ۔فلسطین کے اکثر وبیشتر علاقوں پر اسرائیل کے ناجائز تسلط کے بعد اس وقت فقط مغربی کنارہ ہی فلسطین کا زیادہ آبادی والا علاقہ ہے۔ لیکن مغربی کنارہ فلسطینیوں کی زیادہ آبادی ہونے کے باوجود جغرافیائی طور پر کمزور ہے کیونکہ اس کے تین اطراف میں اسرائیلی آبادیاں ہیں جبکہ صرف ایک جانب اردن واقع ہے۔اردن کی حکومت چونکہ اسرائیل کو تسلیم کر چکی ہے لہذا وہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی امدادی قدم اٹھانے سے قاصر ہییروشلم شہر اسرائیل اور مغربی کنارے کی سرحد پر واقع ہے۔


1967 کی جنگ کے بعد مغربی کنارہ پر اسرائیل کی گرفت مزید مضبوط ہو گئی اور یہاں 5 لاکھ یہودیوں کو بسایا گیا۔جس کے بعد ناصرف یہودیوں نے یروشلم بلکہ مسجد اقصی کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا۔
یہودی فلسطین پر ناجائز قبضہ کے بعد یروشلم اور مسجد اقصی پر اپنی اجارہ داری کے لیے کوشاں ہیں البتہ مغربی کنارہ کی مذہی حیثیت اور متبرک مقامات کے باعث اسرائیل مغربی کنارہ پر غزہ کی طرح بمباری سے گریزاں ہے اگرچہ وہ مسجد اقصی اور اس کے ملحقہ علاقوں کو نقصان پہنچاتا رہتا ہے۔

تاہم دیوارگریہ کا قرب اور مستقبل کے عزائم کی وجہ سے قدرے محتاط ہے۔اب اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حالیہ جنگ میں غزہ کی جیت ہوئی؟یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ پر 11روز تک خوفناک بمباری کے نتیجہ میں 200 سے زائد شہادتوں کے علاوہ غزہ شہر کا بہت بڑا حصہ تباہ و برباد ہو گیا۔
11 روز کے بعد جب جنگ بندی عمل میں آئی تو بالخصوص غزہ اور بالعموم فلسطین بھر میں بظاہر سوگ و ماتم کی بجائے جیت کا جشن منایا گیا جسے سوشل میڈیا و الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے دنیا بھر میں دیکھا گیا۔

زخم خوردہ و تباہ حال فلسطینیوں کا یہ جشن کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔جب فلسطینیوں سے اس کی وجہ پوچھی گئی ؟ تو انہوں نے کچھ یوں جواب دیا
” ہم نے اس سے قبل اسرائیل سے تین عسکری جنگیں لڑیں لیکن حالیہ چوتھی جنگ الیکٹرانک و سوشل میڈیا کی جنگ تھی جس میں دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک نے ہمارا ساتھ دیا
فیس بک پر غزہ کی حمایت میں ہیش ٹیگ نے اسرائیل کی معاشی ساکھ پر کاری ضرب لگائی ہم اس الیکٹرانک جنگ میں دنیا کا ساتھ دینے پر شکرگزار ہیں “
دورحاضر میں سوشل میڈیا ٹولز میں صرف فیس بک Facebook ہی کو دنیا کی تیسری بڑی آبادی قرار دیا گیا ہے حالیہ اسرائیل و فلسطین جنگ میں سوشل میڈیا نے پَل پَل کی صورت حال سے دنیا کو آگاہ کیا جس پر صرف مسلم کمیونٹی ہی نہیں بلکہ خور یہودیوں کے علاوہ دنیا بھر کے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت نے اسرائیلی جارحیت کو لعن طعن کی۔

سوشل میڈیا نے دنیا کو واقعتا ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ فسلطین کے حق میں ناصرف سوشل میڈیا پر بلکہ فزیکلی پوری دنیا میں بہت بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے جس نے خود ان ممالک کے حکمرانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ماضی قریب میں ” عرب بہار Arab Spring“ کے نتیجہ میں جس طرح عرب دنیا میں مستحکم ترین حکومتوں کے بخیے ادھیڑے گئے اس پس منظر میں اخلاص سے نا صحیح مگر بظاہر OiC نے ورچوئل اجلاس کے ذریعے خود کو اپنی عوام میں سرخرو کرنے کی کوشش کی۔

سوشل میڈیا پر مسئلہ فلسطین پہلی مرتبہ اس قدر Highlight ہوا کہ” فسلطین قضیة کل انسان “ فلسطین ہر انسان کا مسئلہ ہے “اور" Free Flestine " جیسے نعروں کو پذیرائی ملی ،لوگوں نے مسئلہ فلسطین کو دلچسپی سے پڑھا ،سنا اور دیکھا،ان نعروں کی گونج نے اقوام عالم کویہ میسج دیاہے کہ مسئلہ فلسطین صرف مسئلہ اسلام ہی نہیں بلکہ یہ ہرانسان کامسئلہ ہے اس لیے کہ خون کسی بھی انسان کاناحق بہے وہ قابل مذمت وناقابل برداشت ہے اس کے لیے ہرکسی کوآوازبلندکرنی چاہیے ،دین اسلام ایک آفاقی مذہب جس کے دامن میں ہرانسان کے لیے وسعت ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتاہو،حدیث قدسی ہے کہ مخلوق ساری کی ساری اللہ کاکنبہ ہے اوراس مخلوق میں اسے سب سے محبوب وہ ہے جوخداکی مخلوق سے اچھاسلوک کرنے والاہو“۔

قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے کہ اے انسان تجھے تیرے کریم رب سے کس چیزنے دھوکے میں ڈال دیاہے؟ لیکن یہ امر انتہائی قابل مذمت ہے کہ ا س وقت دنیابھرمیں مسلم ممالک میں موجوداسلام لیواؤں کوظلم وبربریت کانشانہ بنایاجارہاہے اورجب مسلمان سے زیادتی ہوتی ہے توانسانیت کے حقوق کے علمبرداردوردورتک دکھائی نہیں دیتے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :