میرا قصور کیا جانور ہونا ٹھہرا؟

اتوار 6 فروری 2022

Muhammad Sohaib Farooq

محمد صہیب فاروق

چند دن قبل اسکول کے مرکزی دروازہ سے کچھ فاصلہ پر ایک تیز رفتار گاڑی کی گدھا گاڑی سے ٹکر ہوئی جس کے نتیجہ میں گدھا گاڑی کے مالک کو معمولی سی چوٹیں آئیں جبکہ گدھے کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں، گدھاریڑھی کا مالک اپنا نقصان وصول کرنے کے بعد خود تو علاج معالجہ کے لیے اسپتال چلاگیا لیکن برسوں سے اپنے خدمت گار گدھے کو سڑک کنارے شدید زخمی حالت میں بے یارومددگار چھوڑدیا ، اسی سڑک سے روزانہ سینکڑوں سکول کے بچے اور بچیاں گزر کر اسکول آتے جاتے ہیں ، ایک دن سکول سے گھر لوٹتے اچانک میری نظر زخموں سے نڈہال گدھی پر پڑی ، اگلے دن اسکول آیا تو کلاس روم میں طلبہ سے اس کے حوالہ سے بات چیت ہوئی۔

تو اکثر بچے کہنے لگے سر اس کے مالک نے نقصان کرنے والی پارٹی سے اپنے پیسے وصول کر لیے ہیں اور زخمی گدھی کو وہیں چھوڑ دیا ہے۔

(جاری ہے)

بچوں کی بات سن کر میں نے ان سے سوال کیا کہ بیٹا آپ لوگوں کے بقول اس زخمی گدھی کو سڑک کنارے بے یارومددگار پڑے ایک ہفتہ بیتنے کو ہے آپ سب جانتے ہیں ان دنوں شدیدسردی ہے اوررات کو خوب دھند پڑتی ہے تو کیا آپ میں سے بھی کسی نے اس کی خیر خبر لی؟تو چھٹی جماعت کے ایک طالب علم نے ہاتھ کھڑا کیا اور کہنے لگا سر میں نے اس کو اپنے گھر سے چارا لاکر کھلایا تھا، میں نے تمام کلاس کے سامنے اس بچے کو نقد انعام دیا اور سب بچوں نے اس کے لیے حوصلہ افزائی میں تالیاں بجائیں۔

اگلی صبح اسمبلی میں تمام بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے میں نے اس دردمند گدھی کی کہانی بچوں کو سنائی اور وہی سوال تمام سکول کے بچوں سے کیا تو آٹھویں جماعت کا ایک بچہ کہنے لگا سر میں نے اس زخمی گدھی کو پانی بھی پلایا اور چارا بھی کھلایا۔
اس بچے کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی اور بچوں کو بتلایا گیا کہ دیکھو پیارے بچو یہ ہے ہمارا ہیرو۔اور پھر سب بچوں نے بھرپور تالیاں بجا کراس کی حوصلہ افزائی کی ،میں نے کہاپیارے بچو ! تعلیم ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم انسانوں ہی نہیں جانوروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کریں ان کی تکلیف میں ان کا علاج معالجہ کریں۔

چونکہ ہمارا سکول ایک دیہات میں واقع ہے اور وہاں زیرتعلیم اکثر بچے بھی دیہاتی ہیں اس لیے جانوروں و مویشیوں کے حقوق بارے تفصیل سے بات ہوئی سب بچے بہت فکر مند ہوئے۔اسی دن اسکول کے استاذ صاحب ایک طالب علم کو لے کر زخمی گدھی کے مالک کے گھر پہنچے اور اسے جانوروں سے متعلق ارشادات نبوی ﷺسنا کر زخمی گدھی کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کی جانب توجہ دلائی اور اسے سخت سردی میں سڑک کنارے ٹھٹھڑتا ہوا چھوڑ نے کی بجائے اپنی حویلی لانے کی ترغیب دی۔

جواب میں مالک کہنے لگا کہ اب اسکے تندرست ہونے کی امید نہیں تو اس پر استاذ محترم نے فرمایا کہ دیکھو بھیا آپ کم از کم اس کو چھت اور علاج تو مہیا کرو باقی اللہ کی مرضی۔اس پر زخمی جانور کے مالک نے کہا کہ وہ آج اسے وہاں سے اٹھا لائے گا سکول سے واپسی پربھی وہ بچاری سٹرک کنارے بِلک رہی تھی رات بھرمیں اورمیری بیگم اس زخمی گدھی بارے فکرمندرہے اس لیے کہ رات بھربارش برستی رہی اگلی صبح جب میں بارش میں بھیگتا ہوا اسکول پہنچا تو وہ ادھ موئی ساکت برستی بارش میں کھیت میں پڑی تھی ،یعنی اس کے سنگ دل مالک نے اب اس بیچاری کوسڑک کے کنارے سے دھکا دے کرقریب کھیت میں پھینک دیا،سکول پہنچنے کے بعد میں نے کچھ اسباق پڑھائے دورانِ کلاس بچوں سے زخمی گدھی کی کارگزاری سنی تو کچھ بچے کہنے لگے سر رات بھر بارش ہوئی وہ مر گئی جبکہ کچھ کہنے لگے سر صبح اسکول آتے ہم نے دیکھا کہ اس میں زندگی کے آثار موجود ہیں۔

بچے بھی بڑے فکر مند تھے پوچھنے لگے سر اس بچاری کا کیا بنے گا کلاس سے نکلتے ہوئے میں نے بچوں سے کہا بیٹا آپ دعا کرو ان شاء اللہ کچھ نا کچھ حل نکلے گا۔اپنے پیریڈ پڑھانے کے بعد میں اسکول کی چھت پر واقع سٹاف روم کی طرف بڑھا تو چھت کی چاردیواری سے اچانک برستی بارش میں کھیت میں پڑی زخمی گدھی پر میری نظر پڑی جس کے ارد گرد دو آوار کتے چکر لگا رہے تھے میں چھت سے کتوں کی حرکات و سکنات دیکھتا رہا کچھ جائزے کے بعد دونوں کتے زخمی گدھی سے بغیر چھیڑ چھاڑ کیے روانہ ہو گئے۔

مجھے بظاہر دیکھ کر ایسا لگا کی زخمی گدھی اب مر چکی ہے کیونکہ رات بھر کی بارش اور سرد ہوا نے اس کی جان نکال دی ہو گی تاہم اس منظر کو دیکھنے کے بعد میرے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ کیوں نا اس کے قریب جا کر تسلی کر لی جائے ہلکی ہلکی بوندا باندی میں چند ہی منٹوں بعد میں زخمی گدھی کے پاس پہنچا تو مجھے اپنے قریب پاکر اس نے میری جانب بغور دیکھا اور اپنے ٹھٹھرتے جسم کو کچھ حرکت دے کر مجھے یقین دلایا کہ مجھ میں ابھی زندگی کی رمق باقی ہے۔

میں نے کیچڑ میں لت پت برستی بارش میں کانپتی اس زخمی گدھی کی آنکھوں میں انسانیت کے لیے شکووں کا پہاڑ دیکھا ، یقین جانیے میں لمحہ بھر کے لیے اس سے آنکھیں نہیں ملا سکا مجھے اپنے انسان ہونے پر شرمندگی ہی نہیں گِھن آرہی تھی۔میں اسی وقت وہاں سے نکلا اور قریب ہی واقع ایک حویلی کے مالک سے اس بدقسمت گدھی کے لیے پناہ گاہ مانگی تووہ مالک کہنے لگا سر جی میری اس چھوٹی سی حویلی میں میرا اپنا مال ڈنگر ہے آپ اندر آکر خود دیکھ سکتے ہیں یہاں گنجائش نہیں۔

میں وہاں سے واپس سکول آیا اپنے ایک کولیگ سے مشورہ کیا کہ ہمیں کچھ لازمی کرنا چاہیے میرے کولیگ دوست بھی کہنے گا جی بالکل سر ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔اسی دوران اچانک میرے دماغ میں خیال آیا کہ کیوں نا 1122 پر رابطہ کرکے ان سے پوچھا جائے کہ کیا جانوروں کے ساتھ حادثہ پیش آنے کی صورت میں ریسکیو کے پاس کوئی سہولت موجود ہے۔اپنے دوست سے مشورہ کیا انہوں نے کہا سر ضرورکوشش کر لیجیے ممکن ہے کوئی حل نکل آئے۔

چنانچہ میں نے فورا ریسکیو 1122 پر رابطہ کیا اور انہیں بتلایا کہ جناب والا آج آپ کو فون کسی انسان کی جان بچانے کے لیے نہیں بلکہ بے زبان جانور کی جان بچانے کے لیے کیا ہے میری بات سن کر ریسکیو کے نمائندہ چونک گیااور لمحہ بھرکے توقف کے بعدبولا اچھا سر آپ تھوڑا انتظار کریں ہم آپ سے رابطہ کرتے ہیں ٹھیک 4 منٹ بعد مجھے ریسکیو آفس سے کال موصول ہوئی سراس زخمی جانور کامالک کون ہے ؟ میں نے کہامیں ہی اس کامالک ہوں نمائندہ بولاسر ہماری ایمبولینس چند منٹوں میں آپ کے پاس پہنچ رہی ہے۔

ریسکیو کی آمد سے امید بندھ گئی میں نے اپنے سکول ہیڈ کو ساری صورت ِحال سے آگاہ کیا اور انہیں بتلایا کہ زخمی گدھی کو فرسٹ ایڈ دینے میں ہمیں کچھ بڑے طلبہ کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے تو سر نے کہا آپ ضرور لے جائیے ،تھوڑی ہی دیر میں ریسکیو کی ایمبولینس بھی پہنچ گئی اور اسی دوران سکول کے چند طلبہ اور میرے کولیگ بھی وہاں پہنچ گئے جانور کی صورتِ حال دیکھ کر ریسکیو ٹیم بھی چونک گئی کہ گذشتہ 5 دنوں سے کھلے آسمان تلے سخت سردی اور پھر برستی بارش میں اس غریب کا کوئی پرسانِ حال نہیں ۔

خیر ریسکیو کے جوان نے طلبہ کی مدد سے فرسٹ ایڈ کے طور پر پایوڈین کے ساتھ مرہم پٹی کی اور پھر میری جانب متوجہ ہو کر کہنے لگا سر اس کا زخم کافی گہرا ہے اور اب اس میں پیپ بھی پڑھ چکی ہے۔اس کو مزید علاج کی اشد ضرورت ہے مگر ہم معذرت خواہ ہیں کہ ریسکیو 1122 کے پاس ویٹرنری ڈاکٹر کی سہولت نہیں۔ ہم اتنا ہی کر سکتے تھے ہمارے پاس زخمی جانوروں کو ساتھ لے جانے کی سہولت میسر نہیں۔

میں نے ریسکیو ٹیم کا شکریہ ادا کیا اور ان کے تجاویز کے رجسٹر پر اپنے دستخط کرتے ہوئے ریسکیو ٹیم میں ویٹرنری ڈاکٹرز کی فراہمی کی تجویز لکھ کررجسٹر ان کے حوالہ کردیامرہم پٹی کے بعد اب اگلا مرحلہ اسے کھلے آسمان سے کسی چھت تلے پہنچانے کاتھا کیونکہ 5 راتیں مسلسل ٹھنڈ میں گزارنے سے اس کی حالت ابتر ہو چکی تھی۔ان طلبہ میں سے ایک بچہ کہنے لگا سر میں نے کل اپنے اباجان کو ساری کہانی سنائی تھی اور پھر ان سے کہا تھا کہ اگر ہم اس زخمی جانور کو اپنی دکان میں لے آئیں تو اس کی زندگی بچ سکتی ہے یہ وہی بچہ تھا جس کے لیے گذشتہ روز اسمبلی میں حوصلہ افزائی کی گئی تھی میں نے پوچھا بیٹا آپ کے اباجان رضامند ہو گئے ؟
تو وہ کہنے لگا جی سر ابو نے کہا کوئی بات نہیں بیٹا۔

اب اگلا مرحلہ کسی سواری کا تھا جس پر لاد کر اس لاچار کو لے جایا جاسکے اتنے میں انہی طلبہ میں سے ایک کہنے لگا سر ہماری گھوڑا گاڑی حاضر ہے۔ میں نے اسے اپنی گاڑی کی چابی تھمائی اور کہا کہ فورا سواری لے کر آؤکچھ دیر بعد اس طالب علم کا بڑا بھائی جو ہمارے ادارے کاسابق طالب علم اور میرا شاگرد تھا اپنی گھوڑا گاڑی لے آیا۔اور پھر چند لمحوں بنا کسی گھِن اور نفرت کے ان تمام بچوں نے زخمی گدھی کو سواری پر لادھا اور متعلقہ محفوظ مقام پر لے گئے ۔

محفوظ مقام پر منتقلی کے بعد دل کا بوجھ ہلکا سا ہو گیا ایسے لگا جیسے کوئی بہت بڑا قرض سر سے اتر گیا۔ یہ بچے زخمی جانور کو ٹھکانے لگا کر برستی بارش میں واپس آئے تو کلاس روم میں ان بچوں کو کھڑے کر کے ان کے لیے تالیاں بجائی گئیں اور نقد انعام دیاگیا۔۔۔اسکول واپسی پر میں ، ایک سکول ٹیچر اور وہ بچہ جس نے اپنے گھر سے باہر اپنی دکان پر زخمی جانور کے قیام کا بندوبست کیا تھا وہاں پہنچے تو اب جانور کی طبیعت خاصی بحال تھی میں نے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک دیکھی وہ زبانِ حال سے ہمارا شکریہ ادا کر رہی تھی لیکن میں اس کیباوجود اس سے شرمندہ ہو کر نظریں چرا رہا تھا۔

نگران بچے کو ڈھیروں دعاؤں کے علاوہ کچھ رقم چارے اور علاج معالجہ کے لیے بھی دی۔
یوں 5 دن سے سکول کے پڑوس میں سخت سردی اور رات بھر کی بارش سے ٹھٹھٹرتی اس مقہور گدھی کو آج سکول کے اساتذہ و طلبہ کی فکر مندی کے باعث اذیت سے خلاصی مل گئی ،
اس نیکی کا سہرا میرے ان عظیم شاگردوں کے سر ہے جن کے معصوم دلوں میں انسانیت ہی نہیں حیوانیت کے لیے بھی محبت و شفقت کے جذبات ہیں،یہ ساری رام کہانی سنانے کا مقصد چوپایوں کے حوالہ سے ہم انسانوں کے غیر انسانی وغیر اخلاقی رویوں کی حالت زار کو بیان کرنا اور ان کی اصلاح ہے مقام عبرت ہے کہ ہم انسان کس قدرخودغرض ہیں کہ برسوں کے خدمت گزار سے لمحہ بھرمیں تعلق ختم کرلیا،اپنوں کی بے وفائی کاشکارہونے والی یہ مظلوم جان ہمیشہ انسانوں سے یہ شکوہ کرے گی کہ میراقصورکیاجانورہوناٹھہرا؟۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :