ڈاکٹرمسعود حسین خاں۔جدید لسانی نظریہ ساز

جمعرات 6 مئی 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

اُردو کے مایہ ناز ماہرِ لسانیات مسعود حسین خاں اپنی لسانی تحقیق ”مقدمہ تاریخِ زبانِ اُردو“ کی بدولت اُردو زبان و ادب میں امر ہوچکے ہیں۔وہ 28 جنوری 1919ء کو قائم گنج،فرخ آباد، اتر پردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔اُن کے والد کا نام مظفر حسین خاں اور والدہ کا نام فاطمہ بیگم تھا۔اُنھوں نے مڈل کا امتحان جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے1933ء میں پاس کیا۔

1935ء میں میٹرک اور 1937ء میں ایف اے کے امتحانات ڈھاکہ سے پاس کیے۔1939ء میں اُنھوں نے بی اے کا امتحان اینگلو عریبک کالج، دہلی سے پاس کیا۔پھر1941ء میں اُنھوں نے مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ سے ایم اے اُردو کا امتحان پاس کیا اور وہیں سے1945ء میں ”مقدمہ تاریخِ زبانِ اُردو“ کے عنوان سے مقالہ تحریر کرکے پی ایچ ڈی اُردو کی ڈگری حاصل کی ۔

(جاری ہے)

اِس کے بعدلسانیات میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ پیرس چلے گئے جہاں اُنھوں نے پیرس یونیورسٹی سے لسانیات میں ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔

مسعود حسین خاں نے اپنی ملازمت کا آغاز اُردو اور ہندی زبانوں کے پروگرام اسسٹنٹ کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو، دہلی سے1942ء میں کیا۔اِس کے بعد اُنھوں نے بطور لیکچرار اُردو مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں1943ء سے1954ء تک تدریسی فرائض سرانجام دیے اور یہیں پھر بطور ریڈر1954ء تا 1962ء کام کیا۔یہاں سے وہ عثمانیہ یونیورسٹی ،حیدر آباد منتقل ہوئے جہاں اُنھوں نے 1962ء سے 1968ء تک صدر شعبہٴ اُردو کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔

یہاں سے وہ دوبارہ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ چلے آئے اور صدر شعبہٴ لسانیات کی حیثیت سے اُنھوں نے1968ء تا 1977ء خدمات سرانجام دیں۔اِسی دوران وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے1973ء سے1978ء تک وائس چانسلر بھی رہے۔اِس کے بعد وہ دوبارہ مسلم یونیورسٹی کے شعبہٴ لسانیات سے 1978ء تا 1981ء منسلک رہے۔وہ 1969ء سے 1970ء تک انجمن ترقی اُردو (ہند)، علی گڑھ کے قائم مقام سیکرٹری رہے۔

1978ء میں ترقی اُردو بورڈ ،نئی دہلی کے وائس چےئر مین رہے جہاں وہ چیف ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی1982ء تا 1985ء تعنیات رہے۔”قدیم اُردو“، حیدرآباد، ”ہماری زبان“، علی گڑھ، ”اُردو ادب “، علی گڑھ اور ”فکر و نظر“،علی گڑھ جیسے بلند پایہ علمی و تحقیقی مجلوں کے ساتھ بھی وہ ایڈیٹر کی حیثیت سے منسلک رہے۔جدید اُردو لسانیات کا یہ عظیم ماہر 16 اکتوبر2010ء کو اِس جہانِ فانی سے رخصت ہوا۔

وہ علی گڑھ میں مدفون ہیں۔
مسعود حسین خاں کی نمایاں تصانیف میں ”مقدمہ تاریخ زبانِ اُردو“ (1948ء)، ”اُردو زبان اور ادب“ (مجموعہ مضامین) (1952ء)، ”مقدماتِ شعر و زبان “(تنقیدی اور لسانیاتی مضامین کا مجموعہ) (1966ء)، ”اُردو زبان کی تاریخ کا خاکہ“(تلخیص مقدمہ تاریخ زبانِ اُردو) (1970ء)، ”اُردو کا لمیہ“ (1973ء)، ”اقبال کی نظری و عملی شعریات“ (1983ء)، ”اُردو زبان ،تاریخ، تشکیل، تقدیر“ (کتابچہ) (1988ء)، ”ورودِ مسعود“ (خود نوشت سوانح حیات) (1988ء)، ”مقالاتِ مسعود“(1989ء)، ”محمد قلی قطب شاہ“(مونوگراف) (1989ء)، ”یوسف حسین خاں“ (مونو گراف) (1990ء) اور ”مضامین مسعود“ (1997ء)شامل ہیں۔

شاعری کے ضمن میں ”روپ بنگال اور دوسرے (ہندی) ہندوستانی گیتوں کا مجموعہ “(1954ء) اور ”دو نیم“ (مجموعہ کلام) (1956ء) شامل ہیں۔اُن کی ایک انگریزی تصنیف ''A Phonetic and Phonological Study of the word in Urdu''کے نام سے بھی شائع ہوئی۔وہ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ میں سوشل سائنسز کے پہلے پروفیسر ایمر یطس تھے۔اتر پردیش اُردو اکادمی کی جانب سے اُنھیں 1957ء میں اُن کے شعری مجموعہ ”دو نیم “ پر،1970ء میں ”ابراہیم نامہ “ (قدیم اُردو جلد سوم ) پر،1974ء میں ”اُردو کا المیہ “ پر اور مجموعی علمی و ادبی خدمات پر 1982ء میں اعزاز سے نوازا گیا۔

ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی کی جانب سے اُنھیں ”اقبال کی نظری و عملی شعریات “ پر1984ء میں اُردو ایوارڈ سے نوازا گیا۔پاکستان سے اُنھیں علمی، تحقیقی، ادبی اور لسانی خدمات کے باعث نیاز فتح پوری ایوارڈ سے 1986ء میں نوازا گیا۔ سائنسی بنیادوں پراُردو لسانیات کے میدان میں میرے نزدیک وہ ایک جدید لسانی نظریہ ساز ہیں۔
”مقدمہ تاریخِ زبانِ اُردو“ کے بنیادی مباحث میں ہندوستان کی آریائی زبانوں کی مختصر تاریخ ، ہندوستان کی جدید آریائی زبانیں ، اُردو کے ارتقا کا تحقیقی مواد، لسانی نظریات کی تنقید، اور اُردو کی ابتدا کے بارے میں نئے نظریے کی تشکیل شامل ہیں۔

اُنھوں نے امیر خسرو کے فقرے ”زبانِ دہلی و پیرامنش“ یعنی دہلی اور نواحِ دہلی کی بولیاں، کو بنیاد بنا کر نواحِ دہلی کی بولیوں کا تقابلی مطالعہ کیا۔ اُن کے نزدیک اُردو کا حقیقی مولد و منشا دہلی ہے اور زبانِ دہلی و پیرا منش اِس کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ابتدا میں اُنھوں نے اُردو کے آغاز کے سلسلے میں ہریانوی کو زیادہ اہمیت دی مگر 1987 ء میں جب ”مقدمہ تاریخِ زبانِ اُردو“ کا ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن سامنے آیا تو یہ اہمیت اور اولیت اُنھوں نے کھڑی بولی کو دے دی۔

اُردو کے ارتقا کے تحقیقی مواد کے حوالے سے اُنھوں نے اُردو (کھڑی بولی) کی جنم بھومی اور 800ء سے 1300ء تک کے عرصہ میں اُردو زبان کے ارتقا پر مدلل گفتگو کی ہے۔ اُن کے لسانی نظریے کے مطابق اُردو کا آغاز مسلمانوں کے فتحِ دہلی (1193ء)سے ہوتا ہے کیوں کہ اُن کے خیال میں تب ہی سے زبانِ دہلی و پیرامنش میں عربی اور فارسی کے لسانی اثرات کا نفوذ ظاہر ہوتا ہے۔

دہلی کی بولیوں میں سے کھڑی بولی پر عربی و فارسی کے لسانی اثرات سب سے زیادہ ہوئے۔
”اُردو زبان اور ادب“کے آخری چار مضامین لسانی اعتبار سے خاصی اہمیت کے حامل ہیں جن میں اُردو حروف تہجی کی صوتیاتی ترتیب، اُردو ایک ترقی پسند زبان ، اُردو، مردانہ زبان ہے، اور اُردو نئے ماحول میں شامل ہیں۔”اُردو کا المیہ“ پروفیسر مسعود حسین خاں کے ”ہماری زبان “علی گڑھ میں تحریر کردہ اداریوں اور انشائیوں کا مجموعہ ہے جسے اُن کے شاگرد ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ نے مرتب کیا ہے۔

یہ تمام مضامین صحافتی نوعیت کے ہیں۔''A Phonetic and Phonological study of the word in Urdu'' مسعود حسین خاں کا تحقیقی مقالہ ہے جو اُنھوں نے اپنے پیرس میں قیام کے دوران لکھا اور اِس کا اُردو ترجمہ مرزا خلیل احمد بیگ نے ”اُردو لفظ کا صوتیاتی اور تجز صوتیاتی مطالعہ“ کے نام سے کیا۔یہ مقالہ بنیادی طور پر اُردو الفاظ کا عروضی حوالے سے مطالعہ اور تجزیہ پیش کرتا ہے۔

مسعود حسین خاں ،سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز کے پروفیسر J. R. Firthسے متاثر تھے جن کے عروضی تجز صوتیات کے نظریے سے اُنھوں نے خاطر خواہ استفادہ بھی کیاہے۔”مقالاتِ مسعود “ میں اُردو صوتیات کا خاکہ، قومی یک جہتی اور ہندوستانی زبانیں ، صوتیاتی نقطہٴ نظر سے مطالعہٴ شعر ، تخلیقی زبان ، اقبال کا صوتی آہنگ، اقبال کے ترکیب بند، کلامِ غالب میں قافیے اور ردیف کا آہنگ، غالب کی ایک غزل کا تجزیہ، غالب کے خطوط کی لسانی اہمیت، فانی کی ایک غزل کا صوتیاتی تجزیہ، میرا شعری تجزیہ، اُردو لغت نویسی کے بعض مسائل،اور اُردو: مردم شماری کے آئینے میں شامل ہیں۔

شعری تنقید کے ضمن میں بھی کچھ مزید مضامین اِس مجموعہ مقالات میں شامل ہیں،جن میں مسعود صاحب کا طرزِ تحریر لسانیاتی پہلو وٴں سے بھرپور ہے۔”مضامین مسعود“ پروفیسر مسعود حسین خاں کے ادبی و لسانی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اُردو زبان سے متعلق اپنے لسانی مضامین کے عمومی رویے سے متعلق خیال ظاہر کرتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب ’حرف و صوت‘ ، ’سنگ و خشت‘ سے بھی زیادہ تحفظ کے حق دار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر مسعود حسیں خاں کے علاوہ اُن کے تین چچا ڈاکٹر ذاکر حسین خاں(جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی اور مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)، ڈاکٹر یوسف حسین خاں (مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) اور ڈاکٹر محمود حسین خاں (ڈھاکہ یونیورسٹی، مشرقی پاکستان)بھی وائس چانسلر کے عہدے پر فائز رہے۔ اِس خاندان کی اُردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :