ظلم وبربریت کاسجتاہوا بازار

ہفتہ 31 جولائی 2021

Mumtaz Abbas Shigri

ممتاز عباس شگری

میں نے بہت سوچا کہ میں تو پڑھی لکھی تھی، اچھے گھر کی تھی، اچھے سکول میں پڑھی تھی، بول سکتی تھی، گھر کے کام سارے کرتی تھی بھائیوں سے زیادہ محنت کرتی تھی، پڑھائی میں ان سے ہزار درجے بہتر تھی مگر پہلے دن سے ہی یہ بات ذہن میں ڈالی گئی تھی کہ بھائیوں کی خدمت کرو، بھائی آتا تو امی کی آواز آتی تھی شرم کر، اٹھ کر بھائی کو پانی پلاومگر جب میں گرمی میں تھک کر گھر پہنچتی تھی تو بھائی ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا اور لڑائی، بحث مباحثے کے باوجود مجھے خود ہی جا کر فریج سے پانی نکال کر پینا ہوتا تھا اور یہ ایک معمولی مثال ہے۔

ٹی وی کا ریمورٹ کنٹرول اٹھا کر ادھر ادھر کرنا، پلیٹیں لانا لے جانا، اپنے اور دوسروں کے جوتے، کپڑے اٹھانا سب میرااور میری بہنوں کا کام تھا۔

(جاری ہے)

اور یوں میری گھُٹی میں ایک سرخ لکیر ڈال دی گئی جس میں بہت ساری آزادیاں تھیں مگر ان میں جب مرد کی بات آتی تھی تو وہ لکیر گہری ہو جاتی تھی، پھر جب تھوڑی بڑی ہوئی تو ٹی وی ڈرامے دیکھے اور ان سے یہ لکیر ایک دیوار بن گئی۔

یہ ڈرامے بھی خواتین کے لکھے ہوئے تھے ان میں سے بعض کی ہدایتکار بھی خواتین تھیں مگر ان میں سارا سبق یہی تھا۔ برداشت کر، نیک پروین بن کر رہ ورنہ تمہاری کوئی اوقات نہیں ہے۔قصہ مختصر،میری شادی کا موقع آیا اور مجھے ایسے شخص کے پلے باندھ دیا گیا جو اپنی ذات میں گم تھا جس کو اپنے سے آگے اور اپنے علاوہ کچھ نظرنہیں آتا تھا۔ اس نے میرے اندر جو تھوڑی بہت خود اعتمادی تھی، میرے شوہر نے اسے ایک ایک کر کے توڑنا شروع کیا۔

ملازمت کی مخالفت کی اور گھر بٹھا لیا تاکہ میں پیسوں کے لیے اس کی محتاج رہوں۔ میرے خرچ کرنے پر اعتراضات، کپڑے پہننے پر اعتراض، رنگوں پر اعتراض اور بہت بار جب اعتراض پر بات نہیں رکتی تو گالم گلوچ۔میرے اوپر اتنا دباؤ تھا مگر اپنی اُن سہیلیوں کی باتیں سن کر جنھیں اچھے منگیتر ملے تھے، میں سوچتی کہ چلو میرا شوہر اچھا تو لگتا ہے، ساتھ تو بہتر لگتا ہے، کماتا اچھا ہے، اچھا گھر ہے، عیش کرواتا ہے، کیا ہے جو تھوڑا غصہ کرتا ہے یا شاید کبھی زیادہ کرتا ہے، میری بہتری کے لیے ہی تو ہے مگر اس سمجھوتے کے نتیجے میں میری خاموشی کو رضامندی سمجھ کر بات بڑھتے بڑھتے ایک دن مار پیٹ تک پہنچ گئی۔

میں یوں زندگی بھرمارپیٹ سہتی ہی ،مگرمیں فریادکرتی توکس سے جاکرکرتی میں بے بس تھی،پھرمیری زندگی میں ایک اہم مڑآئی اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹے سے نوازا اس نے اس سارے معاملے کو ایک نیا رخ دیا۔ اب میرے پیروں میں محبت کی دو زنجیریں تھیں اور اپنے بیٹے کی خاطر میں نے دل پر ایک اور پتھر رکھ لیا۔ میرے لیے اب زندگی گزارنا ہی مقصدہے تاکہ میرے بچے سکون سے بڑے ہوں۔

یہ کہانی ہمارے معاشرے کی ایک عکاسی کرنے والی ایک ماں کی ہے،آج ہمارے معاشرے میں ایسی ہزاروں مائیں موجودہے جوکسی نہ کسی طرح ظلم سہہ رہی ہے لیکن آوازبلندکرنے سے قاصرہے ،یوں ان کے اپنے انکی زندگی اجیرن کردیتے ہیں،بالآخر انہیں موت کے گھاٹ اتاردیے جاتے ہیں۔میں آپ کی توجہ ہمارے معاشرے کی ایک تازہ واقعے کیطرف مبذول کرواناچاہتاہوں، 15جولائی کوحیدرآبادکے آبپاشی کالونی میں چاربچوں کی ماں قرة العین بلوچ کوان کے شوہرنے بے دردی سے قتل کردیاگیا،قتل کے بعدپورسٹ مارٹم ہوئی رپورٹ کے مطابق متقولہ پرقتل سے پہلے تشددکی گئی تھی ،اس قدرتشددکی گئی تھی کہ انکے ناک ،جبڑے اورآنکھ کی ہڈی تک ٹوٹ گئی تھی،قتل کے بعدان کے شوہرکوگرفتارکرلیاگیا،اب تفتیش جاری ہے،لیکن اس تفتیش کی رودارمیں اب ملزم کے وکیل کی موقف بھی سن لیجئے گاان کے مطابق قرة العین کی موت سلپ ہونے کی وجہ سے ہوئی یہ انسانی تاریخ میں ملزم کوبچانے کاانوکھاواقعہ ہوسکتاہے ، آپ یقین کرلیں جس طرح کاہمارانظام ہے ہماری حکومت ہے اورہمارے ادارے ہیں ہم اس ملک میں انصاف کیلئے صرف دعائیں ہی کی جاسکتی ہے،اس بہیمانہ قتل پرقرة العین کے بھائی کے بیان نے ہرایک درددل رکھنے والے انسان کوسوچنے پرمجبورکردیاہے ،انہوں نے دکھ بھری آوازمیں بیان کیااب میں سوچ رہاہوں کہ اپنی بیٹیوں کی شادی ہی نہ کروں بیٹیاں بوجھ تھوڑی ہے کہ وہ درندوں کے حوالے کردوں،کوئی انسان کسی دوسرے پراتناتشددکیسے کرسکتاہے؟ لیکن اس نے میری بہن کواتنی بے دری سے قتل کیاتھامجھ سے ان کی لاش تک نہیں دیکھی گئی،یہ الفاظ ہمارے معاشرے کے منہ پرطمانچہ ہے ، آپ تاریخ اٹھاکردیکھ لیں ہمارے ہاں ایسی کئی وارداتیں ہوچکی ہے کئی ماوں کوموت کے گھاٹ اتادیے گئے ہیں لیکن مجال ہے ہمارے سسٹم میں کوئی تبدیلی آئے، ہم آخرکیاچاہتے ہیں ہمارے اس نظام میں ظلم وبربریت کاخاتمہ کیوں نہیں ہورہی ، بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہے ناں لیکن آج یہ رحمتیں ہمارے لیے زحمت کیوں بنی ہوئی ہے، ہمارے جوڈیشل سسٹم میں ان درندوں کے خلاف فیصلے کیوں نہیں ہوتے، آخرہم عدالت میں ٹک ٹاک کوبندکرنے اورکھولنے کافیصلہ کب تک کرتے رہیں گے، کیاہماری عدالتیں صرف ٹک ٹاک کیلئے ہی بنی ہے،یایہاں پرانسانیت پرہونے والے تشددکے خلاف بھی مقدمے بنائے جاتے ہیں، جب تک ہم ان کیسسزمیں ملوث افرادکوکیفرکردارتک نہیں پہنچائیں گے ظلم وبربریت کایہ بازارسجتارہے گا،بنت حواقتل ہوتے رہیں گے اورہم تماشائی بنتے رہیں گے۔

اس میں ایک اہم ذمہ داری والدین کابھی ہے ،والدین آخراپنی بیٹیوں کی رضامندی کے بغیرشادی کیوں کرواتے ہیں،کیاآپ کیلئے مال ودولت سب کچھ ہے،کیاآپ کواس عارضی دنیاکی مال ودولت اپنے بچوں سے بڑھ کرہے خدارااپنے بچوں کی شادی رضامندی سے کیجئے گاورنہ اس دنیامیں نہ مال کام آئے گانہ دولت کام آئے گی ،مال ودولت بنائی جاسکتی ہے،لیکن آپ کسی صورت رضامندی خریدسکتے ہیں نہ ہی بنائی جاسکتی ہے،آپ اپنے لخت جگرکیلئے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ایک باردل پرہاتھ رکھ کرضرورسوچیں ،آپ کی بیٹی آپ کے غلط فیصلے پربھی چپ رہ سکتی ہے لیکن آپ کی ایک غلطی آپ کے بچوں کی زندگی کوجیتے جی جہنم بناسکتی ہے،اوراس کے بعدآپ صرف قرة العین جیسے اللہ کی رحمتوں کوموت کے گھاٹ اتارتے تماشہ دیکھ سکتے ہیں اوربس۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :