سیاست دانوں کی مچھلی منڈی

منگل 22 جون 2021

Mumtaz Abbas Shigri

ممتاز عباس شگری

یہ پیرکادن ہے وطن عزیزکے گنے چنے رہنمااکھٹے ہوتے ہیں اجلاس شروع ہوتے ہی تمام کیمرے حرکت میں آتے ہیں، ایک ہی پل میں ٹی ویژن اسکرین پران کی تصاویرنماں ہوتے ہی حرکت کرنے لگتی ہے،پھرساری قوم تماشادیکھتی ہے، ہرطرف شورغل کی آوازیں ہے، کوئی بجٹ کی کاپیاں پھاڑرہاہے توکوئی پانی کی بوتل کسی کوماررہاہے ، کوئی کسی پرکاپی پھینک رہاہے توکوئی کسی پرسنیٹائزرکی بوتل سے حملہ کررہاہے ،یہ کوئی عام جگہ نہیں جبکہ قومی اسمبلی تھی جہاں پروطن عزیزکے مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں،اوریہاں کوئی عام لوگ بھی موجودنہیں جبکہ ہمارے گنے چنے وہ سیاستدان موجودتھے جن کوہم نے چن چن کرقوم کی تقدیربدلنے کیلئے قومی اسمبلی کی راہ دیکھائی تھی،لیکن وہ محترم حضرات مقتدرایوان کی سیٹ پربراجماں ہوکراخلاقیات کاجنازہ نکال رہے ہیں،بجٹ اجلاس میں ہنگامہ آرائی اورشوروغل کوئی عام بات نہیں ، یہ ہماری تاریخ کاحصہ ہے، ہمیں جب بھی بجٹ پیش کرناہویابجٹ پربحث کرنی ہو توایک دوسرے کواڑے ہاتھوں لیتے ہیں،لیکن اس بارحدہی پارکردی ،ایک دوسرے پرحملہ کرتے ہوئے کئی افرادکو زخمی بھی کردیے،کسی کوکتاب سے توکسی کوبوتل سے زخمی کردی،یہ یہاں تک محددونہیں رہا،سلسلہ مسلسل تین چاردنوں تک چلتارہا ،ہردوسرے دن ایک دوسرے کونشانہ بناتے رہے،ساری دنیاتماشہ دیکھتی رہی، یہاں ماں بہن بھی اتنی سستی تھی ایک دوسرے کے ماوں بہنوں کی بھی خوب خبرلی گئی،انکی حرکتیں دیکھ کرہرکوئی سرپکڑکربیٹھنے پرمجبورہوئے،ہرکوئی یہی سوچ رہاتھاآخریہ لوگ چاہتے کیاہے۔

(جاری ہے)

ان کے ہاں مائیں بہنیں اتنی سستی کیوں ہے۔،مقتدرایوان میں جس طرح نمائندوں کی جانب سے اخلاقیات کاجنازہ نکال رہاتھااسے دیکھ کردنیاکے سامنے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ساتھ ہی ساتھ ہرغیرت مندپاکستانی کاسرشرم سے جھگ گیا،یہ سلسلہ صرف قومی اسمبلی تک محدودنہیں رہا، جبکہ یہ حرکتیں بلوچستان اسمبلی میں بھی دیکھنے کوملی، جہاں بجٹ کے دوران صوبائی اسمبلی اکھاڑہ بن گئی، وزراایک دوسرے پروارکرتے رہے، پوری قوم ان کی حرکتوں پرہنستی رہی،
آپ تاریخ اٹھاکردیکھ لیں دنیاترقی کی راہ پرگامزن ہے ،آپ بنگلہ دیش کوہی لے لیں جو1971میں ہم سے الگ ہوگیاتھا،وہ آج ہم سے کئی گناآگے نکل گیاہے، ان کی معیشت ہم سے کئی گنابہترہے، ہم چوہترسالوں میں ایکسپوٹ کوبیس بلین ڈالرسے 23بلین ڈالرتک لے کرجانے کیلئے سرتوڑکوشش کررہے ہیں لیکن بنگلہ دیش رواں سال آزادی کے پچاس سال مکمل ہونے پرایکسپوٹ کوپچاس بلین ڈالرتک لے جائے گا،وہ بنگالی جس سے ہم نفرت کرتے تھے وہ ہمیں سیکھارہے ہیں کہ قومیں ترقی کیسے کرتی ہے،آپ المیہ دیکھیں ہمارے ہاں آج بھی ہردوسرادن ٹرین حادثہ معمول بن گیاہے جہاں سینکڑوں لوگ سسک سسک کرمرتے ہیں لیکن ہم اتنے نااہل ہے اس پرکوئی کاروائی نہیں ہوتی ،ہم بابنگ دھل کہہ دیتے ہیں ہمیں افسوس ہے ہم اس پرکاروائی ضرورکریں گے لیکن کاروائی تاریخ کاحصہ بن جاتی ہے ،اورہم ایوانوں میں اخلاقیات کاجنازہ نکال رہے ہوتے ہیں،ہمارے ہاں میٹرو،گرین لائن اورموٹرویزبننے میں سالوں لگ جاتے ہیں لیکن کبھی مکمل نہیں ہوتا،ہم پچھلے تین سالوں میں یہ فیصلہ نہیں کرپارہے کہ ہمارے ہاں وزیرخزانہ، وزیرریلوئے،وزیراطلاعات یاوزیرسائنس و ٹیکنالوجی کس کوہوناچاہیے۔

ہم جس دن یہ فیصلہ کرپائیں گے کہہ ہمیں کس وزیرکے ساتھ چلناہے اورکس طرح کام کرناہے یقین کرلیں ہم ترقی کی راہ پرگامزن ہوجائیں گے۔
ہماراالمیہ ہے ہم اس ملک کوصرف لوٹناچاہتے ہیں رہنانہیں چاہتے،کیوں اس کیوں کاجواب آپ کوحکومتی نااہلی اورملکی حالات اورقوانین میں ملیں گے ہردوسراشخص پیسہ آتے ہی ملک سے باہرٹھکانہ تلاش کرنے لگتاہے کیونکہ انہیں بخوبی علم ہوتاہے اگریہی رہنے کافیصلہ کرہی لیاتوسسک سسک کے مرناپڑے گا،یاتوعدالتوں کے چکرکاٹتے ہوئے مرجائیں گے یاسلاخوں کے پیچھے زندگی نگل جائے گی،اگرغلطی سے بھی ان دونوں سے بچ نکلے تومہنگائی ،آلودگی اوربوسیدہ سسٹم قاتل بن جائیں گے، ہمارے بازاروں میں آج بھی آٹا،چینی، گھی، چینی اورچاول نایاب ہے،ہمارے اخبارات میں سترسال بعدبھی ایک ہی خبرچل رہی ہے کہ ہم چینی چورکونہیں چھوڑیں گے۔

آپ ایک منٹ کیلئے ہمارے ملک میں بجلی کے نظام کوہی لے لیں، ہمارے ہاں پانچ دریاایک ساتھ بہتے ہیں،دنیامیں سب سے سستی بجلی پانی سے بنائی جاسکتی ہے لیکن ہم اتنے ذہین اورقابل قوم ہے ہمارے کروڑوں لوگ آج بھی بجلی کوترستے ہیں ، ہم پانی کی بجائے فرنش آئل سے بجلی بناکرعوام کولوٹنے کی ہرممکن کوشش کرتے رہی سہی کسرسولرسسٹم لگانے کے بہانے لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں اورہمارے نمائندے ایوانوں میں بیٹھ کرماں بہن کی گالیاں دیتے ہوئے ایک منٹ کیلئے بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے ،آخرہم کس سمیت جارہے ہیں، ہمارے سیاستدان کیاچاہتے ہیں۔


پوری قوم اب ان سیاستدانوں سے سوال کررہی ہے جودوسروں کیلئے قانون بنارہے ہیں آخرخودان کیلئے قانون کون بنائے گا، آپ اپنے لیے بھی قانون وضع کردے تاکہ دنیاجہاں کے سامنے کم ازکم پاکستان کی جگ ہنسائی نہ ہو، ملک میں ایک ایساقانون ضرورہوناچاہیے جس کے تحت ہرسیاستدان کواخلاقیات کادرس ملتاہو، جب تک ہمارے سیاستدانوں میں اخلاق نہیں ہوں گے تب تک قومی اسمبلی ہویاصوبائی اسمبلی ہرجگہ ایک دوسرے کوماں بہن کی گالی دیتے رہیں گے ، ان مقدس ایوانوں کومچھلی منڈی سمجھ کرمزے لیتے ہنستے ہوئے ایک پل کیلئے بھی شرمندگی محسوس تک نہیں کریں گے اورپوری دنیاہم پرہنستے ہوئے کہتے رہیں گے واہ پاکستان واہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :