گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی خودکشی کے عوامل اور راہ حل

منگل 28 دسمبر 2021

Mumtaz Abbas Shigri

ممتاز عباس شگری

رات کے وقت جب شہر میں ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا، ہر کوئی نیند کی آغوش میں چلے گئے تھے لیکن وہ کروٹ بدلتا اپنی تقدیر کے فیصلے کی جانب بڑھ رہا تھا، وہ سوچ رہا تھاکہ مجھے آخر کیا کرنا چاہیے، انہوں نے ایک دم فیصلہ کر لیا کہ میں اب زندگی سے عاری ہوں، صبح خودکشی کر لوں گا، انہوں نے حتمی فیصلہ کرلیا تھا، ساتھ ہی ایک ٹویٹ بھی کی کہ میری اب بس ہو چکی ہے میں صبح خودکشی کرنے والا ہوں، دیکھتے ہی دیکھتے ان کی ٹویٹ وائر ل ہو گئی. یہ اسلام آبادمیں رہائش پذیر ضہیب کی ٹویٹ تھی۔


ضہیب نے ٹویٹ میں لکھا،میں کل خود کشی کرنے والا ہوں۔ مجھے اب کسی کی پرواہ نہیں ہے، میری بس ہو چکی ہے۔ میں غریب لوگوں کو اور دوسروں کو دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ مجھ پر کتنی رحمتیں ہیں۔

(جاری ہے)

شاید خرابی مجھ میں ہے، ہر بچے کے والدین اسے مارتے ہیں، سب ایک دوسرے کو شرمندہ کرتے ہیں، ہر دوسرا شخص بدصورت ہوتا ہے۔ لیکن یہ میں ہی ہوں جو زیادہ سوچتا ہے۔

یہ میں ہی ہوں، میں آپ سب کو یاد کروں گا۔ میں آپ سب سے پیار کرتا ہوں۔ ضہیب مزید لکھتا ہے میں ہر روز کی تکلیف سے تنگ آ چکا ہوں۔ ایسا تب سے ہے جب میں 12 سال کا تھا۔ میں مزید درد برداشت نہیں کر سکتا۔ میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ میں خود کو یہ سوچنے سے نہیں روک سکتا کہ میں خود سے کیوں نفرت کرتا ہوں۔ میرا بدصورت چہرہ، میرا ماضی اور جو کچھ میں نے کیا۔

جو کچھ میں نے دوسروں کے ساتھ اور اپنے ساتھ کیا۔ میں ایک غلطی ہوں، میں موجود ہی کیوں ہوں؟ آپ سب بے فکر رہیں بس ایک اور دن۔۔۔ پھر میں یہ دنیا چھوڑ دوں گا۔ بالکل ایسے افراد کی طرح جو ہر 45 سیکنڈ میں خود کشی کر جاتے ہیں۔میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ میں اتنا بہادر نہیں کہ خود کشی کر لوں۔ میں اس سب کا مستحق نہیں۔ میں ایک ایسا زیادہ سوچنے والا انسان ہوں جس کا خاتمہ ایسے ہی ہونا تھا۔

میں بہت سی باتیں کہنا چاہتا ہوں۔لیکن۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کر ضہیب رک ساگیا، ان کی یہ سب باتیں پے درپے وائرل ہوتی گئیں، لوگ ان کی اس تحریر کو دیکھ کر سرپکڑنے لگے۔ لوگ اس کی درد بھری الفاظوں پر ریپلائی کرنے لگا کہ ہم سب کو آپ کی پروا ہے، آخر ایسی کونسی چیز ہے جس نے آپ کو اتنا پریشان کر رکھا ہے، ٹویٹ میں ٹیک ہوتے ہی راولپنڈی پولیس نے ضہیب کا لوکیشن ٹریس کر لیا۔

پولیس ان تک پہنچ گئی اور انہیں بچا لیا۔ ان سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ انہیں گھریلو پریشانی کا سامنا تھا۔
میں آپ کو یہاں ایک اور واقعے کی جانب گامزن کرنے جا رہاہوں،تیرہ سالہ ثقلین کا تعلق روندو کے علاقے ستک سے تھا، یہ پبلک اسکول اینڈ کالج اسکردو میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا، یہ 9 اکتوبر 2021 کی صبح اسکول کے لیے نکلا۔

اسکول سے 12 بجے واپس آ کر ماں سے کھانا مانگا کھاناکھا کر نکلا ہی تھایہ غائب ہوگیا۔ گھر والے شام تک سوچتے رہے یہ دوستوں کے ساتھ گھومنے گیا ہو گا،لیکن رات کی تاریکی چھاتے ہی جب ماں اپنے لخت جگر کو تلاش کرتے کرتے گھر سے متصل کمرے کے دروزاے پر پہنچی توایک دم انکی چیخ نکل گئی، لخت جگر کے گردن میں رسی ڈال کر چھت کیساتھ بندھا ہوا تھا، اس ماں پر کیا گزری ہو گی کیاآپ اور میں سوچ سکتا ہے؟ کیا ہم اس کو بھی خودکشی کا نام دے کر ٹال دیں گے، بھلاتیرہ سالہ بچہ کیوں کر خودکشی کر ے گا، کیا آپ کو نہیں لگتا یہ خودکشی نہیں قتل ہے۔

اور ہم نے کیا کیا اس کو خودکشی کا نام دیکر سکھ کاسانس لیا۔
آپ یقین کر لیں موجودہ دور میں خودکشی ایک عام سی بات بن گئی ہے، ہر دوسرا شخص ہر نا پسند بات پر یا مایوسی پر خودکشی کر بیٹھتا ہے، ایسا کیوں ہے، اس میں معاشرہ اور والدین کا زیادہ اور موثر کردار ہے، اکثر اوقات غریبی اور زریعہ معاش نہ ہونے کی وجہ سے گھر کا سربراہ زندگی کا چراغ گل کر بیٹھتے ہیں لیکن خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تر لوگ نوجوان طبقے کی ہے، نوجوان طبقے کی خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان والدین کی طرف سے جا بجا پریشر اور توقعات ہے، جب بچے والدین کی توقعات پر نہیں اترتے تواس کے لیے خودکشی کا آپشن بچتا ہے، لہذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں سے مند پسند توقعات رکھنے کی بجائے ان کی پسند کے مطابق زندگی گزارنے کو ترجیح دیں، آپ اپنے بچے کو صرف بیٹا یا بیٹی نہیں دوست بنالیں، اُن کے دلی ارمان جاننے کی کوشش کریں آخر وہ چاہتے کیا ہے، صحیح راستہ ہے تو ان کی مدد کریں ورنہ ان کی اصطلاح کرنے کی کوشش کریں۔

آپ کے بچے ان کے طرز کے مطابق چھوٹا مکان، چھوٹی گاڑی اور چھوٹے کاروبار کے ساتھ خوش رہ سکتا ہے، مگرآپ کے خواہشات کی پیروی کرتے کرتے انکی زندگی جیتے جی جہنم بن سکتی ہے، تو کیاآپ اپنے بچوں کی زندگی جہنم بنانا پسند کریں گے، اس کا جواب یقینا نفی میں ہوگا، تو آپ آج سے ہی یہ پلے باندھ لیں کہ آپ اپنے بچوں کا صرف باپ بننے کی بجائے ایک اچھا دوست بنیں گے یقین کر لیں آپ کا بچہ آپ کے ساتھ سب کچھ شیئر کریں گے ان کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے، وہ ضہیب کی طرح کبھی نہیں سوچیں گے
 آپ شاید مجھ سے اتفاق کریں گے، ہر گلے میں پھندا لگانے والا، ہر پل سے اور ہر عمارت سے چھلانگ لگانے والا شخص خودکشی نہیں کر رہاہوتا۔

ان کو کسی نہ کسی طرح سے قتل بھی کیا جاسکتا ہے، اگر آپ گلگت بلتستان کے پچھلے دو سال کا ڈیٹا نکال کر دیکھیں تو زیادہ تر افراد یا تو اکیلے میں گلے میں پھندا لگاہوا ملا ہے یا پل سے کود کر اس کی لاش ملی ہے، یہ سب کیا ہے کیا یہ واقعی میں خودکشی ہے؟اگر خودکشی ہے تو آپ اور میں کیسے ثابت کرسکتے ہیں، اگر قتل ہے تو ہماری پولیس نے اس کے خلاف کیا کارروائی کی ہے، کیا آپ کو نہیں لگتا اس میں ہماری پولیس ڈیپاڑٹمنٹ کی نااہلی بھی شامل ہے، آخر ہر گلے میں پھندا لگاکر ملنے والی لاش کو خودکشی کیوں قرار دیتے ہیں، آپ تحقیقات کیوں نہیں کرتے۔

اگر ہماری پولیس ڈیپارٹمنٹ ان واقعات کے خلاف ایکشن لے کر تحقیقات کر لیں تو یقین کر لیں اس میں کچھ اور کردار ملوث نظر آئیں گے، شاید ہمارے ہاں یہ ایک ٹرینڈ بن چکا ہے کسی سے دشمنی ہے تو اس کو پھندا لگا کر قتل کردو، پولیس اس کو خودکشی قرار دیں گی اور بس۔۔۔میری انتظامیہ سے گزارش ہے علاقے میں ہر مرنے والے کو خودکشی کا ٹھپہ لگانے کی بجائے اس پر مکمل تحقیق کر لیں، آپ کیطرف سے چند واقعات کی تحقیقات سینکڑوں ثقلین جیسے پھولوں کی جانیں بچاسکتی ہے۔ ورنہ ہر کوئی اپنی ضد اور انا کی خاطر دوسرے کو قتل کردیں گے اور آپ اس کو خودکشی کا درجہ دے بیٹھیں گے، کیونک یہ ایک روایت بن چکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :