عبوری صوبے کا بند شکنجہ

بدھ 1 دسمبر 2021

Mumtaz Abbas Shigri

ممتاز عباس شگری

ایک صبح کسی صاحب کے گھر کے باہر کھڑی گاڑی چوری ہوگئی۔ لیکن شام ڈھلتے ہی وہی گاڑی صاف ستھری حالت میں مکمل پالش کے ساتھ اسی جگہ کھڑی پائی گئی جہاں سے چوری ہوئی تھی۔ اور گاڑی کے اندر ایک خط پڑا تھا جس پر تحریر تھامیں تہہِ دل سے معذرت خواہ ہوں کہ مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ میری بیوی کی ڈیلیوری کے باعث حالت تشویش ناک تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آپا رہا تھا کہ کیسے اسے ہسپتال پہنچاؤں۔

بس اس وجہ سے میں نے چوری جیسا گھناؤنا قدم اٹھایا مگر میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں اور امید کرتا ہوں آپ مجھے میری اس حرکت پر معاف کر دیں گے۔میری طرف سے آپ اور آپ کی فیملی کے لیے ایک عدد تحفہ ہے آج رات کے شو کی ٹکٹیں اور ساتھ میں کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی قبول کیجیے۔

(جاری ہے)

یہ سب اس مدد کے بدلے میں ہے جو آپ کی گاڑی کے ذریعے سے ہوئی۔گاڑی کا مالک یہ سب پڑھ کر مسکرایا۔

بغیر محنت گاڑی بھی دھلی دھلائی ملی اور مفت میں رات کے شو کی ٹکٹیں۔ رات کو جب فیملی فلم دیکھ کر واپس آئی تو ان کے گھر ڈکیتی کی واردات کی جاچکی تھی۔ پورا گھر سامان سے خالی کیا جاچکا تھا اور وہیں پر ایک خط پڑا ملا جس پر لکھا تھا امید ہے فلم پسند آئی ہوگی۔ یہ محض ایک کہانی نہیں اس میں ایک سبق چھپی ہوئی ہے، موجود ہ گلگت بلتستان اسمبلی کے وزرا بھی اس گاڑی مالک کی طرح بنے ہوئے ہیں ، ان وزرا کوئی بھی پتہ نہیں ہے کہ ان کے گھر چوری ہونے والی ہے، آپ یقین کرلیں اسمبلی میں موجود تمام وزرا اس انتظار میں کھڑے ہے کہ وفاق کی جانب سے عبوری صوبے کا اعلان کب کریں گے، ان وزرا کو عوام نے اپنے حقوق کی تحفظ کی خاطر اسمبلی کی راہ دکھائی ہے لیکن یہ عوام کی حقوق کی حفاظت کے بجائے فلم کا ٹکٹ لے کر اس انتظار میں ہے کہ ہمیں مفت میں شو دیکھنے کا موقع ملا ہے، جس دن عبوری صوبہ کا شوشہ ہاتھ میں آکر ان وزا کا عہد ختم ہوں گے اس دن ان کو بھی سمجھ آئے گا کہ ان کے گھر میں چوری ہوئی ہے اور وزارت کی شکل میں انہیں جو عہدہ دیا گیا تھا وہ انہیں استعمال کیلئے بنایا گیا ٹکٹ تھا۔


میں آپ کو عبوری صوبے کی تشکیل کیلئے وفاق کی جانب سے آئین کے کن کن شق میں تبدیلی کررہے ہیں انکی طرف لے جاتاہوں۔ آئین پاکستان شق 51اور 59کے تحت قومی اسمبلی میں بلوچستا ن سے 16، کے پی کے سے35 ، پنجاب سے148، سندھ سے61 وزرا ، فیڈرل کپیٹل سے2 نشستیں موجود ہے، لیکن اس شق میں تبدیلی لاتے ہوئے گلگت بلتستان کیلئے محض تین سیٹیں دینے پر اتفاق ہوئی ہے، ان تین سیٹوں کو تین ریجن میں تقسیم کیے جائیں ، گلگت بلتستان کے ایک ریجن میں لاکھوں کی آبادی ہے، اتنے بڑے ایرے کیلئے صرف تین سیٹیں دے کر کس کا فائدہ ہو گا؟۔

بلوچستان پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے وہاں سے اسمبلی اراکین کی تعداد16 ہے تو کیا گلگت بلتستان صرف تین سیٹوں کو قبول کرینگے؟ آرٹیکل 61 میں ترمیم کے بعد گلگت بلتستان کو سینٹ میں8 نشستیں دی جائے گی ، جبکہ موجودہ آئین کے مطابق ہر صوبائی اسمبلی 14 ممبران کو منتخب کرسکتے ہیں، آرٹیکل106 میں ترمیم کے زریعے گلگت بلتستان کو سینٹ میں صر ف اور صرف ایک خواتین نشست دینے پراتفاق ہواہے، جبکہ ہر صوبائی اسمبلی چار خواتین امیدوار منتخب کرنے کا مجاز رکھتی ہے،76اے کے تحت گلگت بلتستان سے چیف کورٹ کو ختم کرکے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ساتھ انضمام کریں گے ، گلگت بلتستان چیف کورٹ میں ہونے والے فیصلے سپریم کورٹ میں ہوں گے ، چیف کورٹ کو ہائی کورٹ کا درجہ دیاجائے گاجس میں ججز کی تعداد6ہے، لیکن انضما م کے بعد بھی ججز کی تعداد وہی برقرار رہیں گے۔

آرٹیکل 198 میں ترمیم کے زریعے ہائی کورٹ کا جج کسی دوسرے جگے پر جاکر کیس کی سماعت کرسکیں گے،آرٹیکل218 میں ترمیم کے زریعے گلگت بلتستا ن الیکشن کمیشن کو ختم کیاجائے گا، وہاں سے ایک فرد کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ممبر بنایا جائے گا، آرٹیکل240 میں ترمیم کے بعدعبوری صوبے میں تقرریاں پاکستانی آئین ک مطابق ہو گا،جبکہ گلگت بلتستان مکمل آئینی نہیں عبوری صوبہ ہو گا۔

آرٹیکل 242میں ترمیم کے ساتھ صوبے میں پبلک سروس کمیشن فیڈریشن کے چیئرمین کی تعیناتی صدرا ور وزیراعظم کے مشورے پر کرے گا، جبکہ آرٹیکل 258 میں ترمیم کے بعد گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ دینے کاشق شامل کیا جائے گا ۔
آئین میں مکمل ترمیم کے بعد گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دیا جائے گا، بس آزاد کشمیر اسمبلی سے قرارداد پاس ہونے کی دیر ہے ، گلگت بلتستان ایک اور بند مٹھی میں بند جائیگی، کیونکہ ہمارے وزار تو فی حال لولی پاپ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ، آپ ایک منٹ کیلئے سوچ لیں بلوچستان سے 16 ممبران قومی اسمبلی میں موجود ہے جبکہ گلگت بلتستان کی 8 لاکھ83 ہزار799 کی آبادی کیلئے صرف تین سیٹیں دی جارہی ہے کیا آپ اس سے خوش ہے، ان تین سیٹوں پر براجماں ہونے والے ممبران کو سالانہ20 کروڑ کی اے ڈی پی ملے گی ،اور بس۔

۔۔ آئین میں ترمیم کے زریعے گلگت بلتستان چیف کورٹ کو ختم کرکے ہائی کورٹ کادرجہ دیں گے یوں تمام کیسز سپریم کورٹ کے زیر تسلط چلے جائیں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس وقت 51 ہزار138کیسز التوا کا شکار ہے جس میں سے صرف3 ہزار 67 پر سماعت ہورہی ہے، کیاآپ کو لگتاہے آپ کے کیسز کی سپریم کورٹ تک رسائی سے آپ کو فائدہ ہو گا؟
ہمارے وزرا آخر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کیوں کررہے ہیں ، کیاان کی یہی زمہ داری ہے کہ وہ گلگت بلتستان کا سودا کربیٹھیں ۔

ہمیں جاگنا ہوگا ہمیں اپنے حقوق کی طرف قدم بڑھاناہو گا، عبوری صوبے کا مطلب ایک شکنجے سے نکال کر دوسرے شکنجے میں بند کرنا ہے، کیا ہمیں یہ قبول ہے، ہمارے وزرا کو چاہیے کہ گھر لوٹنے سے پہلے گھر کی حفاظت کرلیں، شو کا ٹکٹ آپ کے گھر پر ہاتھ صاف کرنے کی خاظر دے رہا ہے لہذا عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے مکمل آئینی صوبہ یا آزاد کشمیر طرز کا خود مختار سیٹ اپ کی جانب قدم برھائیں ورنہ چوری کے بعد گھر میں فریاد کرنے کاکوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :