
چپ رہوں تو ضمیر بولتا ہے
جمعہ 6 مارچ 2020

مراد علی شاہد
لہو پکارے گا آستین کا
(جاری ہے)
عورت،مستورات اور خاتون کے الفاظ کو اگر لغت اٹھا کر معنوی اعتبار سے دیکھیں تو اس عظیم ہستی کے تو معنی ہی چھپی ہوئی،ڈھکی ہوئی،پردہ نشین،پردے والی بیبیاں اور معزز عورت کے علاوہ ملکہ کے ہیں،اور ملکہ تو ہوتی ہی راج کرنے کے لئے ہے،حالیہ متنازع بیانات اور خیالات پر میں نے اپنی بیوی سے رائے لینے کے لئے پوچھا کہ تم کیا کہتی ہو جب اللہ نے ہمیں صاحب استطاعت بنایا ہے تو آپ گھر کی ملکہ بننا پسند کروگی یا باہر نکل کر اپنے حقوق کے لئے مارچ میں حصہ لوگی تو اس نے مجھے بڑا سیدھا سادھا جواب دیا کہ میں پاگل ہوں جو گھر کی عیاشی چھوڑ کر سڑکوں پر دھکے کھاتی پھروں۔ایسے ہی میں نے گاؤں میں بسنے والی بہت سی خواتین سے انٹرویوز کئے ہیں کہ آپ اپنے خاوند کے ساتھ کھیتوں میں کیوں جا کر کام کرتی ہو،مال مویشیوں کو بھی سنبھالتی ہو،گھر اور گھر داری کو بھی اپنا فرض خیال کرتی ہو،کیا یہ آپ کے ساتھ ظلم نہیں ہے تو یقین جانئے نوے فیصد سے زائد خواتین کا ایک ہی جواب تھا کہ خاوند،مویشی اور گھر بھی تو میرا ہی ہے۔
عورت کے حقوق کے تحفط میں یہ بات کہاں سے آگئی کہ میرا جسم میری مرضی،عورت کو اسلام سے بڑھ کر کسی اور معاشرہ،مذہب،اور دین نے اہمیت ۔عزت اور احترام سے نہیں نوازا ہوگا اس لئے کہ جو مذہب بیٹی کی پرورش پہ جنت کی نوید ،ماں کو دیکھنے پر ایک حج کا ثواب اور بیوی کو مرد کا پردہ اور حیا قرار دیتا ہو اس سے بڑھ کر ایک عورت کے حقوق ہمیں کس مذہب میں کہاں ملیں گے۔ہم تو وہ قوم ہیں جو اپنی ہی بیٹی کے سسرال جا کر اس نیت سے کھاتے پیتے نہیں کہ کہیں بیٹی کے سسرال اسے یہ طعنہ نہ دیں کہ تمہارے رشتہ دار کھنے کے لئے آجاتے ہیں۔عورت کے سر پر دوپٹہ نہ ہو تو سر بعد میں ڈھانپتے ہیں پہلے اپنی نگاہیں نیچے کرتے ہیں۔اور تو اور اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ سردارِ خواتین ِ خلد ،بابا کی لاڈلی حضرت فاطمہ بنت محمد اپنے آخری وقت میں وصیت فرماتی ہیں کہ میرا جنازہ رات کے وقت اٹھانا کہ میرے جنازے پر بھی غیر محرم کی نظر نہ پڑے۔
اب اس بارے میں میری ناقص رائے یہ ہے کہ اس مبہم سلوگن کہ میرا جسم میری مرضی کو مان لیا کہ اس کے پس پردہ کوئی نفسیاتی یا محرکاتی پہلو نہیں ہے،میری مرضی ہوگی تو مرد کے پاس جاؤں کی وگرنہ نہیں،آپ کی مرضی کا بصد خلوص احترام،موزے خود تلاش کرلو یہ بھی مان لیا،جتنے بچے چاہوں گی اتنی ہی پیدا کروں گی،اسے ماننے میں ذرا قباحت اس لئے ہو رہی ہے کہ ابھی ایسی کوئی سائنس ایجاد نہیں ہوئی کہ مرد وعورت سے بننے والے زائیگوٹ کے بنا ہی کوئی بچہ پیدا ہوجائے اس لئے ایسا کرنے کے لئے انتظار کرنا ہوگا لیکن کیا ان تمام مسائل کا حل اور عورت میں شمولیت اختیار کرنے والی محترم خواتین کا حل یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ یہ سب اگر اپنے خاوند کے گھر میں ہی کرنا چاہتی ہیں تو کیا ہی بہتر ہے کہ وہ شادی سے قبل ہی انکار کردیں کہ نا رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری،وگرنہ بانسری جب بجے گی تو آواز تو آئے گی ہی۔یہی صدائے ضمیر ہے کہتے ہیں کہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے سے بہتر ہے اسے دوسروں کے گوش گزار کردیاجائے ۔
چپ رہوں تو ضمیر بولتاہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.