چپ رہوں تو ضمیر بولتا ہے

جمعہ 6 مارچ 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

سوچا تو یہی تھا کہ اس موضوع پر چونکہ سب ہی قلم کشائی کر کے فاتحین کی فہرست میں اپنا نام دوج کروانے کے درپے ہوں گے تو مجھے ایسے متنازع موضوع سے کنارہ کشی ہی اختیار کرنا چاہئے لیکن اس ضمیر کو کون سمجھائے کہ جو بار بار کچوکے بھرتا ہے کہ
جو چپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستین کا
اور پھر چپ رہوں تو ضمیر بولتا ہے،موضوع سخن ملک میں حقوق نسواں کی حمائت میں نکالے جانے والے عورت مارچ کے حق اور مخالفت میں ماروی اور خلیل قمر کی گفتگو ہے کہ کیا عورت کے حقوق کے لئے مارچ نکالنا جرم ہے یا یہ نعرہ کہ میرا جسم میری مرضی؟اس پر اپنی رائے دینے سے قبل مجھے ایک واقعہ یاد آگیا جو میرے خیال میں کچھ سولات کے جواب کے لئے مناسب رہے گا۔

بابا جی اشفاق احمد جب اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے تو کچھ عرصہ بعد بانو آپا کو ایک ٹی وی انٹرویو کے لئے بلا کر سوال کیا گیا کہ بانو آپا،بابا جی کے چلے جانے کے بعد آپ کے احساسات اور خیالات کیا ہیں؟تو بانو آپا کے خوبصورت جواب کی صدائے محبت آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے اور میں ان کے جواب اور محبت کو پیار بھرا سلام کئے بغیر نہیں رہ پاتا،بانو آپا کا مختصر جواب یہ تھا کہ اشفاق کے چلے جانے کے بعد اپنے ارد گرد ان کی ذات کا جو حصار محسوس ہوتا تھا لگتا ہے اب وہ دیوار گر گئی ہے۔

(جاری ہے)


عورت،مستورات اور خاتون کے الفاظ کو اگر لغت اٹھا کر معنوی اعتبار سے دیکھیں تو اس عظیم ہستی کے تو معنی ہی چھپی ہوئی،ڈھکی ہوئی،پردہ نشین،پردے والی بیبیاں اور معزز عورت کے علاوہ ملکہ کے ہیں،اور ملکہ تو ہوتی ہی راج کرنے کے لئے ہے،حالیہ متنازع بیانات اور خیالات پر میں نے اپنی بیوی سے رائے لینے کے لئے پوچھا کہ تم کیا کہتی ہو جب اللہ نے ہمیں صاحب استطاعت بنایا ہے تو آپ گھر کی ملکہ بننا پسند کروگی یا باہر نکل کر اپنے حقوق کے لئے مارچ میں حصہ لوگی تو اس نے مجھے بڑا سیدھا سادھا جواب دیا کہ میں پاگل ہوں جو گھر کی عیاشی چھوڑ کر سڑکوں پر دھکے کھاتی پھروں۔

ایسے ہی میں نے گاؤں میں بسنے والی بہت سی خواتین سے انٹرویوز کئے ہیں کہ آپ اپنے خاوند کے ساتھ کھیتوں میں کیوں جا کر کام کرتی ہو،مال مویشیوں کو بھی سنبھالتی ہو،گھر اور گھر داری کو بھی اپنا فرض خیال کرتی ہو،کیا یہ آپ کے ساتھ ظلم نہیں ہے تو یقین جانئے نوے فیصد سے زائد خواتین کا ایک ہی جواب تھا کہ خاوند،مویشی اور گھر بھی تو میرا ہی ہے۔


عورت کے حقوق کے تحفط میں یہ بات کہاں سے آگئی کہ میرا جسم میری مرضی،عورت کو اسلام سے بڑھ کر کسی اور معاشرہ،مذہب،اور دین نے اہمیت ۔عزت اور احترام سے نہیں نوازا ہوگا اس لئے کہ جو مذہب بیٹی کی پرورش پہ جنت کی نوید ،ماں کو دیکھنے پر ایک حج کا ثواب اور بیوی کو مرد کا پردہ اور حیا قرار دیتا ہو اس سے بڑھ کر ایک عورت کے حقوق ہمیں کس مذہب میں کہاں ملیں گے۔

ہم تو وہ قوم ہیں جو اپنی ہی بیٹی کے سسرال جا کر اس نیت سے کھاتے پیتے نہیں کہ کہیں بیٹی کے سسرال اسے یہ طعنہ نہ دیں کہ تمہارے رشتہ دار کھنے کے لئے آجاتے ہیں۔عورت کے سر پر دوپٹہ نہ ہو تو سر بعد میں ڈھانپتے ہیں پہلے اپنی نگاہیں نیچے کرتے ہیں۔اور تو اور اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ سردارِ خواتین ِ خلد ،بابا کی لاڈلی حضرت فاطمہ بنت محمد اپنے آخری وقت میں وصیت فرماتی ہیں کہ میرا جنازہ رات کے وقت اٹھانا کہ میرے جنازے پر بھی غیر محرم کی نظر نہ پڑے۔


اب اس بارے میں میری ناقص رائے یہ ہے کہ اس مبہم سلوگن کہ میرا جسم میری مرضی کو مان لیا کہ اس کے پس پردہ کوئی نفسیاتی یا محرکاتی پہلو نہیں ہے،میری مرضی ہوگی تو مرد کے پاس جاؤں کی وگرنہ نہیں،آپ کی مرضی کا بصد خلوص احترام،موزے خود تلاش کرلو یہ بھی مان لیا،جتنے بچے چاہوں گی اتنی ہی پیدا کروں گی،اسے ماننے میں ذرا قباحت اس لئے ہو رہی ہے کہ ابھی ایسی کوئی سائنس ایجاد نہیں ہوئی کہ مرد وعورت سے بننے والے زائیگوٹ کے بنا ہی کوئی بچہ پیدا ہوجائے اس لئے ایسا کرنے کے لئے انتظار کرنا ہوگا لیکن کیا ان تمام مسائل کا حل اور عورت میں شمولیت اختیار کرنے والی محترم خواتین کا حل یہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ یہ سب اگر اپنے خاوند کے گھر میں ہی کرنا چاہتی ہیں تو کیا ہی بہتر ہے کہ وہ شادی سے قبل ہی انکار کردیں کہ نا رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری،وگرنہ بانسری جب بجے گی تو آواز تو آئے گی ہی۔

یہی صدائے ضمیر ہے کہتے ہیں کہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے سے بہتر ہے اسے دوسروں کے گوش گزار کردیاجائے ۔
صدا لگاؤں تو فقیر بولتا ہے
چپ رہوں تو ضمیر بولتاہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :