فلٹر فری وزیراعظم اور ہم اہلِ قلم

پیر 30 مارچ 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

میں نے اپنی زندگی کے تجربات ومشاہدات سے ایک بات سیکھی ہے کہ انسان کو دلیل کی بجائے چپ کی طاقت سے مرنا چاہئے،آپ بھی کبھی تجربہ کرکے دیکھ لیجئے گا کہ جو لوگ اونچی آواز میں بات کرتے ہیں ان کے ارد گرد جمع ہونے والے لوگ بہت جلد ان سے پیچھا چھڑوا لیتے ہیں لیکن وہ جو دلیل کے ساتھ دھیمے لیجے کو اپناتے ہیں اپنی شخصیت اور دلیل کا اثر تادیر رکھتے ہیں۔

مولانا روم نے کہا تھا کہ اونچی آواز مین بات کرنے کی بجائے دلیل سے بات کی جائے تو بہتر ہے کیونکہ پھول بادل کے گرجنے سے نہیں بادل کے برسنے سے کھلتے ہیں۔یہ سب خیالات میرے ذہن میں گذشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی پریس کانفرنس کے دوران تجربہ کار اور سینئر صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے آئے،کہ وہ تمام احباب جو کہ وزیراعظم کے عہدہ کے ڈیکورم کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی دانست میں وزیراعظم ہاؤس کو فتح کر کے لوٹے تھے ،ان کو اپنے خود کے رویوں کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ ان کا تخاطب کون تھا؟اور اس سے قبل کیا ایسے ہی سوالات ،اتنے ہی ترش لہجے سے کرتے رہے ہیں کیا؟وہ بھی ان حالات میں کہ جب پوری دنیا کرونا وائرس کی وجہ سے پریشان حال ہیں۔

(جاری ہے)

اس وقت دو صد سے اوپر ممالک اس موذی مرض کا شکار ہو چکے ہیں،کیا ان ممالک میں کرونا کے پھیلاؤ کا ذمہ داربھی عمران خان کو ہی ٹھہرایا جانا چاہئے؟اپنے ہی بھائیوں کا ملک کے وزیر اعظم سے رویہ دیکھتے ہوئے شورش کاشمیری کی مشہور زمانہ نظم”ہم اہلِ قلم کیا ہیں“یاد آگئی،کیوں نہ شورش کاشمیری کوخراج پیش کر دیا جائے۔
مشہور صحافی ہیں
عنوان معانی ہیں
شاہانہ قصیدوں کے
 بے ربط قوافی ہیں
ہم اہلِ قلم کیا ہیں؟
لیکن کمال ہے وزیر اعظم کی بصیرت،برداشت اور تحمل کی کہ جنہوں نے نہ صرف تمام صحافیوں کے سوالات پرسکون انداز میں سنے بلکہ ان کا تسلی بخش جواب بھی دیا۔

میری اپنے ہم عصروں سے ایک گزارش ضرور ہے کہ سوال کرنے سے قبل ضرور سوچ لیں کہ لفظوں کو پہلے تولنا ہے پھر بولنا ہے۔پریس کانفرنس کا مقصد چونکہ ملک میں کرونا کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس کے بارے میں اٹھائے گئے اقدامات سے متعلق تھی تو ضروری تھا کہ موضوع کی مناسبت اور حدود میں رہتے ہوئے ہی سولات کئے جاتے نہ کہ یہ کہ میر شکیل کو حراست میں لے کر صحافت کو پابندِ سلاسل کردیا ہے،کیا صحافت صرف ایک ادارے،ایک شخص اور ایک ہی خاندان کا نام ہے۔

اور پھر اس طرح کے سوالات کہ حکومت نے قبل از وقت کیا اقدامات کئے ہیں؟اس سوال پر مجھے ایک مختصر سے حکائت یاد آگئی ،کہ ایک گاؤں میں نمبردار کا والد وفات پاگیا تو مہمان نوازی کے لئے گاؤں کے نائی کو چاول اور چنے پکانے لئے بلایا گیا۔دیگ پکانے میں جب ذرا تاخیر ہو گئی تو نمبردار نے نائی سے پوچھا کہ کیوں راجہ اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے۔مہمانوں نے کھانا کھا کر اپنے اپنے گھروں کو واپس بھی جانا ہے تو اس پر نائی نے جواب دیا کہ حضور اگر آپ چنے رات کو ہی بھگو دیتے تو دیگ کے بنانے میں اتنی تاخیر نہ ہوتی۔

جس پر نمبردار چلایا کہ راجہ ہمیں کیسے پتہ تھا کہ بابا نے صبح فوت ہو جانا ہے۔
علاوہ ازیں حالیہ گھمبیر صورت حال میں اپوزیشن کا رویہ بھی کسی طور کپتی ساس سے کم دکھائی نہیں دے رہا ہے۔مصیبت کی اس گھڑی میں اپنی سیاست چمکانے کی بجائے عوام کو درپیش مسائل اور طبی سہولیات کی فراہمی کی طرف دھیان دینا چاہئے۔وہ جو عرصہ پنتیس سال سے حکومت میں رہے اب جب عوام کو ضرورت پڑی ہے تو اپنے خزانوں کے منہ ایسے بند کئے بیٹھے ہیں جیسے کفن کی ڈوریاں باندھ دی گئی ہوں۔

عوام کی خدمت،دکھ درد اور ووٹ کی عزت کیا حکومت کے خرچ پر ممکن ہوتا ہے۔مالی اداروں سے قرض لے کر لاہورکی تزئین اور موٹر وے بنانے والوں کا کیا اب فرض نہیں کہ اپنی تجوریوں کے منہ کھول کر اسی لاہور کے باسیوں کی مشکلات کم کریں۔چند لاکھ کے ماسک اور کٹس ہنگامی بنیادوں پر فراہم کریں،ریکارڈ مدت میں قرض کے پیسوں سے پل،شاہراہیں اور میٹرو بنانے والوں کا کیا ذمہ نہیں کہ اس عوام کو طبی سہولیات بھی فراہم کی جاتیں،ان کے لئے ایسے اقدامات کئے ہوتے کہ ہمیں ہنگامی صورت حال میں دوسروں کی مدد کی طرف نہ دیکھنا پڑتا۔


مجھے اس وقت اپوزیشن کا کردار بڑا ہی مضحکہ خیز لگتا ہے جب پریس کانفرنس میں فرما رہے ہوتے ہیں کہ بھکاری وزیر اعظم،معیشت تباہ کرنے والا،ناتجربہ کار،عوام کو مانگنے پر لگا دیا،اپوزیشن کو نیب کے حوالہ کیا ہوا ہے،وغیرہ۔میرا ان سب سیاستدانوں سے ایک سوال ہے کہ کیا یہ سب کام آپ نے نہیں کئے؟موجودہ حکومت کے ہاتھ میں کاسہ دینے کا ذمہ دار کون ہے،کھا پی کر ڈکار مارے بغیر ملک سے فرار کون ہے،صحت اور تعلیم پر آپ کے دورحکومت میں کل بجٹ کا کتنے فیصد لگایا جاتا تھا؟ہاں آپ میں اور موجودہ وزیراعظم میں ایک فرق ضرور ہے کہ یہ فلٹر فری وزیراعظم ہے۔

جو دل میں ہوتا ہے وہی منہ پر کہہ دیتا ہے۔لگی لپٹی نہیں رکھتا۔آپ کی طرح مخصوص طبقہ کے اکاؤنٹ نہیں بھر رہا۔خاندان سمیت جہاز بھر بھر کر دنیا کے سیر سپاٹے نہیں کرواتا پھرتا۔اس نے دنیا سے اپیل کی،اس نے قرض لیا،اس نے بھیک مانگی،لیکن یہ سب کس لئے،اپنے لئے یا قوم اور ملک کے لئے۔وہ چاہتا تو اپنے ثروت کے بل بوتے پر بقیہ زندگی پرتعیش گزار سکتا تھا لیکن اس نے تم لوگوں کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور اس میں خدا اس کی مدد بھی فرما رہا ہے۔

ملک کا وقار پوری دنیا میں بہتر ہورہا تھا،ملکی معیشت بحال ہو رہی تھی،گردشی قرضے اسی فیصد کم ہو گئے تھے،سیاحت کے لئے دنیا نے پاکستان کو محفوظ ملک قرار دے دیا تھا،ملکی برآمدات میں اضافی ہونا شروع ہو گیا تھا۔اب ایسے میں ایک قدرتی آفت نے اگر ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تو چہ جائیکہ آپ اپنی عوام کے دکھ درد میں شریک ہو کر عوام الناس کی ہمدردیاں خریدتے،آپ کو چھری کانٹے تیز کئے اس بات کے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ جیسے کرونا عمران خان خود لے کر آیا ہے۔

تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق دنیا کی دو صد سو ممالک اس موذی مرض میں مبتلا ہو گئے ہیں تو کیا اس کا ذمہ دار بھی وزیر اعظم پاکستان ہے۔خدا را ہوش کے ناخن لو اور بغض عمران میں اتنے اندھے نہ ہو جائیں کہ تمہیں عوام کی مشکلات اور تکالیف بھی نظر نہ آئیں۔سیاست کو پس پشت رکھ کر حکومت کے کندھے سے کندھا ملائیں اور عوام کے مسیحا بنیں وگرنہ یاد رکھو تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

کئی نمرود،شداد،فرعون آئے اور جب قدرت ناراض ہوئی تو ایسے تہہ خاک کیا کہ آج ان کا نام بھی باعث عبرت ہے۔یاد رکھو اگر تم بھی نہ سلجھے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کل تہہ خاک ہونے کے بعد آپ کا بھی نام لیوا کوئی نہ ہو۔
کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ خان صاحب کو بھی ان کی طرح چہرہ پر کئی غلاف چڑھا کر بات کرنا چاہئے لیکن پھر سوچتا ہوں کہ نہیں فلٹر فری وزیراعظم ہی ٹھیک ہے کہ جو اس کے دل میں ہے وہ کہہ دینے کی طاقت اور ہمت تو رکھتا ہے۔ان شا اللہ یہی طاقت انہیں عوام میں سرخرو بھی کرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :