
1947 کے بعد کا پاکستان
ہفتہ 15 اگست 2020

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
خیر میں عرض کر رہا تھا کہ تعمیراصل امتحان ہوتا ہے کہ جس میں انتہائی احتیاط سے ہر اینٹ ایسی جوڑی جاتی ہے کہ دیوار میں کسی قسم کی کجی پیدا نہ ہو نے پائے کیونکہ جب دیوار کی بنیاد میں خشتِ اول ٹیڑھی رکھ دی جائے تووہ دیوار تا ثریا بھی ٹیڑھی ہی جائے گی۔
تا ثریا می رود دیوار کج
ابتدائی دس سال ہم یہ فیصلہ نہ کر پائے کہ ہمارا آئین کس قسم کا ہونا چاہئے،جبکہ قرآن حمید کی صورت میں ملک کے پاس مکمل آئین اور ضابطہ حیات موجود تھا۔1958 میں جب آئین تشکیل پا گیا تو اس کا عرصہ حیات صرف اڑھائی برس پر محیط رہا اور اس کے بعد ملک میں ایک ایسا مارشل لا لگا جس نے آنے والے تین اور مارشل لا کے در کھول دئے،اور دنیا جانتی ہے کہ مارشل لا میں تو وہی آئین ہوتا ہے جسے مارشل چاہتا ہے۔یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کو روز اول سے ہی تین قسم کی اشرافیہ کا سامنا رہا ۔مقام افسوس کہ اب بھی یہی تثلیث ہم پر کسی نہ کسی طور حکمرانہ کر رہی ہے۔ایک انگریز اشرافیہ کا نظام جو وراثت میں ملا دوسرا افسر شاہی جو اسی انگریز کا بغل بچہ اور تیسرا طبقہ جو کسی نا ہوا وہ ہے سیاسی اشرافیہ۔ان تینوں اقسام کو عوام پر حکمرانی کرنا ہے ،اپنے مفادات کے لئے یا تینوں کو مشترک رہ کر مشترکہ مفاد کے لئے۔اسی لئے ایسے طبقات نے ملک کو کئی طبقات میں تقسیم کردیا تاکہ ان کی حکومت قائم رہ سکے۔اور پھر اپنی حکومت کے استحکام کے لئے عوام الناس کا اس طرح سے استحصال کیا کہ انہیں تربیت،تعلیم،روزگاروغیرہ سے دور رکھ کر صوبائی،نسلی،لسانی تعصبات کے ایسے کورکھ دھندوں میں الجھا دیا کہ سرا تلاش کرتے کرتے ان کی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے۔
سیاسی تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک لیڈر کی کہنے پر عوام سڑکوں پر ٹریفک جام،سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ،اپنوں کا گلا کاٹنے اور اپنی زندگی تک کو داؤ پہ لگانے کو تیار ہو جاتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کے بعد ان کی اولاد کا کیا بنے گا،گویا غلام ابن غلام پیدا کئے جا رہے ہیں۔جب ایسی صورت حال ہو گی تو پھر عوام تو یہی کہے گی نا کہ پھر کیا ہوا کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔دودھ میں پانی ڈالنے والا گوالا حکومت وقت پر تنقید کرتا دکھائی دے گا کہ تہتر سالوں میں ہمیں صاف پانی مہیا نہیں گیا۔سرخ مرچوں میں اینٹوں کا پاؤڈر ملانے والا ملک میں ملاوٹ کے خلاف حکومت کو برا بھلا کہتا وا ملے گا۔سڑکوں کی تعمیر میں گھپلے کرنے والا حاجی صاحب اشیا کے خالص نہ ملنے پر حکومت وقت پر سیخ پا دکھائی دے گا۔سرکاری اداروں میں رشوت لینے والا کلرک حکومت کی ناکامی کے قصے ہر آنے جانے والے کو سنائے گا۔اور تو اور مساجد کے حجروں میں ٹھنڈی مشینوں کے نیچے بیٹھنے والا مولانااور کسی آستانہ کا پیر اخلاقی و معاشی کرپشن کرنے کے بعد لوگوں کو آخرت سے ایسے ڈراتے ہوئے ملے گا جیسے وہ جنت کا سودا کر کے آیا ہو۔یہ ہے وہ تربیت جسے پاکستان بننے کے بعد ہمارے لیڈران نے کی۔صرف اس لئے کہ اگر انہیں روٹی کی غلامی سے آزادی فراہم کر دی تو کہیں ہمارے ہی گلے کو نہ آجائیں۔لیکن یاد رکھو کہ اگر اپنے گھر کے شیروں کو مارو گے تو باہر کے کتے بھی آپ پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ہماری بقا اسی میں ہے کہ جو جذبہ ،مقصد اور نصب العین ہمارے آباؤاجداد نے پاکستان کی تشکیل کے لئے اختیار کیا تھا ہمیں بھی ان کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے پاکستان کی تعمیر کے لئے اپنانا ہے تاکہ کسی اور فیض کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ
تھا جس کا انتظار یہ وہ سحر تو نہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.