حسد کی دوڑ

جمعہ 2 اکتوبر 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

فی زمانہ اگر معاشرتی اقدار پر غور کیا جائے تو ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ حسد ایک بیماری کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور کسی نہ کسی طور معاشرہ کا ہر فرد اس مرض کا شکار ہے۔خاص کر ایسا حسد جس کا محسود کو پتہ بھی نہیں ہوتا۔ایسے مرض میں خاص طور پر اپنے ہی بہن بھائی اور رشتہ دار شامل ہوتے ہیں۔جو اپنے تئیں اپنے ہی آسودہ حال رشتوں سے خواہ مخواہ کا کینہ،بغض اور حسد اپنے دل و دماغ میں پال لیتے ہیں۔

جب انسان اپنے دل ودماغ میں طرح طرح کے حسد،کینہ اور بغض کو از خود پنپنے کا موقع فراہم کرے گا تو اس میں شیطان تو براجماں ہو سکتا ہے مگر رحمن وہاں کبھی اپنے ڈیرے نہیں جمائے گا۔شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا فرمان ہے کہ انسان کا جسم مادی ہے اور اس میں خیالات دل میں پیدا ہوتے ہیں اور یہی خیالات کیفیات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

گویا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ پر کیفیت کی صورت طاری ہو جائے تو اپنے دل اور دماغ دونوں کو ایسی سماجی برائیوں سے دور رکھنا ہوگا جس کی اسلام میں ممانعت ہے یا جسے آقا ﷺ سے ناپسند فرمایا ہو جیسے کہ اگر غیبت کرنے والی کی بات کی جائے تو رسول مکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ ایسے ہے جیسے اپنے ہی بھائی کا گوشت کھانا اور تم اپنے بھائی کا گوشت کھانے سے کراہت محسوس کروگے۔

میرا مشاہدہ ہے کہ حاسد کبھی بھی کسی سے مخلص نہیں ہوتا اگر یہ کہا جائے کہ وہ اپنے آپ سے بھی مخلص نہیں ہوتا تو بے جا نہ ہوگا۔اگر آپ غور کریں تو اس مثال سے جان جائیں گے کہ ماچس کی تیلی کا سر ہوتا ہے مگر اس کا دماغ نہیں ہوتا ،بس ذرا سی رگڑ سے وہ سر جل اٹھتا ہے اور کسی کو اس آگ سے نقصان پہنچے یا نہ لیکن اپنا آپ ضرور جلا کر بھسم کر لیتی ہے یہاں تک کہ جل کر اپنی ہستی بھی مٹا لیتی ہے۔

یہی حال حاسد انسان کا بھی ہے کہ وہ حسد کی آگ میں پہلے خود جلتا ہے پھر دوسرے لوگ اس کی آگ سے متاثر ہوتے ہیں۔
ترک کہاوت ہے کہ اپنی ذات سے پیار کرنے والا کبھی کسی کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا۔اس لئے کہ اسے اپنی ذات اور اس ذات سے جڑے ہوئے رشتوں کے علاوہ کسی اور سے پیار نہیں ہوتا،اس لئے اپنی ذات سے پیار کرنے والے سے بڑا کوئی حاسد نہیں ہو سکتا۔

وہ خود کو ہی محور سمجھ بیٹھتا ہے۔بعض اوقات محسود کو حاسد کے حسد کا پتہ بھی نہیں ہوتا۔جیسے کہ حاسد اگر کسی کو نئی گاڑی میں دیکھ لے،نئے کپڑے زیب تن کئے دیکھے،دوسروں پر اللہ کی رحمت میں دیکھ لے تو اس سے برداشت نہیں ہوتا۔شائد اسی لئے سیانے کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑی قوت،قوت برداشت ہوتی ہے۔آپ کبھی اندازہ لگائیے گا کہ اگر حاسد خود کسی پر تعیش گاڑی میں سوار کسی سڑک پر جا رہا ہو تو اپنے سے مہنگی گاڑی کو دیکھ کر اس کے منہ سے ماشااللہ نہیں نکلے گا بلکہ اس کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنی گاڑی کو اس کی گاڑی کے آگے لے جا کر اس کے ساتھ مقابلہ کرے خواہ دوسرے شخص کو وہم وگمان میں بھی یہ مقابلہ کی کیفیت نہ ہو۔

یقین جانئے کہ حسد کسی زود اثر زہر سے کم نہیں۔ہو سکتا ہے کہ زہر اپنا اثر اتنی جلد نہ چھوڑتی ہو جتنی جلدی حاسد اپنی ہی آگ میں جل جاتا ہے۔دوسروں کے خوبصورت بچے کو دیکھ کر حاسد اپنے بچوں سے موازنہ کرنا شروع کر دیتا ہے کہ میرا بچہ زیادہ خوبصورت ہے ،ہو سکتا ہے یہ موازنہ و مقابلہ محسود کے ذہن میں بھی نہ ہو۔اس سے انسان اپنا فشار خون بلند ہوتا ہے دوسروں کا کچھ نہیں بگڑتا۔

حسد کا یہ مرض بڑھتے بڑھتے حاسد کے لئے زہر ہلاہل بھی ثابت ہو سکتا ہے اس لئے ایسے حضرات کو سمجھ جانا چاہئے وگرنہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے کبھی بھی سر پر پڑ سکتی ہے۔وہ چاہے تو اسی حسد کی آگ کو حاسد کے لئے ایسا زہر بنا دے جو پورے جسم میں ناسور بن کت پھیل جائے۔ مولانا روم کی بات یاد آگئی کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ مولانا صاحب زہر کیا ہے؟ تو انہوں نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو وہ زہر ہے،جیسے کہ قوت، اقتدار، طاقت، بھوک، محبت، لالچ اور نفرت یہ سب چیزیں جب حد سے بڑھ جائیں تو زہر سے بھی زیادہ خطرناک ہو جاتی ہیں۔

اس بارے میں آقا ﷺ کا خوبصورت ارشاد ہے کہ
”اللہ کی قسم مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے ،بلکہ مجھے ڈر یہ ہے کہ تم دنیا کی لالچ میں آکر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو“
جب کوئی شخص حسد جیسی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بغض،لالچ،کینہ اور سنگدلی جیسی بیماریوں کا بھی مرتکب ہو گیا ۔اور یہ سب ایسے اعمال قبیہہ ہیں کہ جن سے معاشرہ اخلاقی گراوٹ اور پستی کا شکار ہوجاتا ہے بلکہ ایسے معاشروں کی اخلاقیات کا جنازہ نکل جاتا ہے۔

معاشرے بھوک افلاس،غربت،اور معاشی پستی میں بھی پنپتے رہتے ہیں لیکن جب کوئی معاشرہ اپنی اخلاقی اقدار کو کھو دے تو پھر اسے تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا،یعنی اپنی قبر اپنے ہی ہاتھوں کھود لیتا ہے یا اپنے ہی ہاتھوں اپنی موت کا ساماں پیدا کرتا ہے۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ خوراک کو قحط فردا فرداً لوگوں کی جان لیتا ہے جبکہ قحط ِ اخلاقیات معاشروں،قوموں اور تہذیبوں کوآناً فاناً تباہ کر دیتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :