
تربیت کی ضرورت کیوں ضروری ہے؟
جمعرات 25 فروری 2021

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
سوال یہ ہے کہ تعلیم اور تربیت میں بنیادی امتیاز کیا ہے؟ہم کس طرح سے تعلیم کو تربیت سے الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں تو سادہ اور عام فہم زبان میں تعلیم،سیکھنے کے عمل کو کہتے ہیں۔یہ سیکھنے کا عمل ہی دراصل تربیت ہے۔گویا اگر صرف تین الفاظ پر عبور حاصل کر لیں تو آپ تعلیم کے اعلی درجے پر فائز ہو جائیں گے۔پہلا لفظ ہے what یعنی کیا؟اگر غور کیا جائے تو یہ کیا۔۔اصل میں علم کی اساس ہے۔اس کیا سے ہی تجسس پیدا ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ تجسس ہی اصل علم ہے اور ملکوں کی ترقی کا راز بھی تجسس میں ہی مضمر ہے۔دوسرا لفظ ہے why کیوں ؟یہ کیوں ہمیں مشاہدہ کی طرف راغب کرتا ہے،کیونکہ یہ کیوں ہی اصل میں وجوہات کی تلاش پر آمادہ کرتاہے۔وجوہات کی تلاش کی آمادگی کی انتہا علم ہوتا ہے۔اور تیسرا لفظ ہےhow کیسے؟تجربہ کی بنیاد کیسے میں پوشیدہ ہوتی ہے۔جب یہ تینوں الفاظ کا عملی مرکب تیار ہو جاتا ہے تو اسے تعلیم کا نام دیا جاتا ہے۔لیکن کیا محض علم کامیابی کی ضمانت ہے؟فی زمانہ بالکل ہے،کیونکہ ان تینوں عوامل کے اتحاد سے جو علم کی اساس کہلاتے ہیں ان کے حصول سے ہی انسان ترقی کی راہیں متعین کرتا ہے۔ایسی ترقی جس سے آپ تعیشات حیات حاصل کر سکتے ہیں۔زیادہ تر افراد فی زمانہ اسے ہی ترقی خیال کرتے ہیں۔لیکن یہ ترقی دنیاوی ہے اگر ہمارا ایمان ہے کہ اس جہاں کے بعد ایک اور دنیا بھی ہمارا انتظار کر رہی ہے تو یقین جانئے یہ ترقی تربیت کے بنا ادھوری ادھوری سی لگے گی۔
تو پھر ہم تعلیم اور تربیت کو الگ الگ کیسے کریں گے تو میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ تعلیم سے مراد ہے change in behaviour جبکہ تربیت سے مراد ہے positive change in behaviour بس میری رائے میں مثبت سوچ کا فقدان ہی ہمیں تربیت سے کوسوں دور لیتا جا رہا ہے۔اگر قوموں نے ترقی کرنی ہے تو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی برابر خیال رکھنا ہوگا۔تاریخ گواہ ہے کہ جن قومو ں نے تربیت پر زیادہ توجہ دی ہے آج وہی اقوام ترقی کے اعلی درجے پر قائم ہیں۔جس کی ایک مثال یورپ کے بہت سے ممالک ہیں۔اگر ایسا نہیں ہے تو ہمارے پروفیسرز اپنے لیکچرز میں یورپی مفکرین کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔کیوں ہمارے علما اکرام تک یورپی ممالک کی ایمانداری کے حوالے دیتے ہیں۔ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ وہاں کے لوگوں میں انسانیت بہت ہے اور وہ انسانیت کی بہت قدر کرتے ہیں۔کیوں مصری مذہبی فلاسفر عبدہ نے یورپ کے سفر سے واپسی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے یہاں کلمہ گو تو دیکھے ہیں مگر مسلمان نہیں لیکن یورپ میں میں نے مسلمان دیکھے ہیں لیکن کلمہ گو نہیں۔گویا انسانیت کی قدر وہی لوگ جانتے ہیں جن کی تربیت اعلی اقدار پر ہوئی ہو۔
مولانا روم نے کہا تھا کہ ”اگر میرا علم انسانیت کا احترام نہیں سکھاتا تو مجھ سے ایک جاہل ہزار درجے بہتر ہے“
گویا علم بغیر عمل کیادھورا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو تو ہمیں علم کے ساتھ ساتھ عمل پر زور دینا ہوگا،اور یہی عمل اصل میں تربیت کا نام ہے۔
بن عملاں قرآن نہ کوئی
جے مکراں تو باز نہ آوے
ملاں جیہاں بے ایمان نہ کوئی
جے کر پا دیوے پٹھی راہے
مرشد جیہا شیطان نہ کوئی
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.