تین سال مکمل مگر؟

ہفتہ 4 ستمبر 2021

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

جمہوری روایات کا اگرچہ تقاضا یہ ہے کہ جب تک منتخب حکومت کا مقررہ وقت پورا نہیں ہو جاتا اس کی کارکردگی کو سوالیہ نشان نہ بنایا جائے لیکن تحریک پاکستان کی حکومت نے اپنے تین سالہ کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کر کے خود ہی تنقیدو تحسین کا دروازہ کھول دیا ہے۔اگر تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو عمران خان کی یہ سیاسی و اخلاقی بہادری ہے کہ انہوں نے ایک لحاظ سے اپنے آپ کوعوامی احتساب کے لئے پیش کیا ہے۔

اگرچہ گذشتہ تین سال محض پاکستان نہیں بلکہ کل عالم کے لئے پریشانی و تکلیف کا باعث رہے ہیں لیکن پھر بھی تحریک انصاف کی حکومت کا اپنی تین سالہ اقدامات اور پروگرامز کو عوام کے سامنے رکھنا ایک احسن قدم ضرور ہے۔میرا خیال یہ ہے کہ گزرے ہوئے تین سالوں میں تحریک انصاف کی حکومت نے سیاسی،معاشی اور بین الاقوامی محاذوں اور میدانوں میں مسلسل بحرانوں کے باوجود اپنی مخلصانہ کوشش ضرور کی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ملک کو مذکور بحرانوں سے نکال کر شاہراہِ ترقی پر گامزن کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

تاکہ نسل نو بہتر اور خوش حال پاکستان کے امین ہوں۔انہیں یہ گلہ نہ ہو جو ہم سب گذشتہ سات دہائیوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔کہ جو بھی کیا ہے سابق حکومت کا کیا دھرا ہے۔میں یہ سب باتیں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کرونا جیسی موذی مرض نے پوری دنیا کی معیشت کی تباہی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اندازِ حیات کو بھی متاثر کیا ہے۔جس کا سب سے بڑا اثر مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہے۔

یقینا اس کا اثر پاکستان پر بھی ہوا ہے۔مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ایسی صورت حال میں ہم کبھی بھی مسلسل مہنگائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔اگرچہ عمران خان نے ملک میں سمارٹ لاک ڈاون لگا کر کوشش کی کہ کاروبار حیات زیادہ متاثر نہ ہو۔ان کے اس اقدام کو دنیا بھر میں نہ صرف سراہا گیا بلکہ اس کی تقلید بھی کی گئی۔لیکن جب عوامی پس اندازی قوت اتنی ہی ہو کہ جو کما لیا وہ کھا لیا تو ایسی صورت حال میں بڑے بڑے فلسفے فیل ہو جایا کرتے ہیں۔

تاہم مقابلہ تو دل ناتوان نے خوب کیا۔
اگر تحریک انصاف کی تین سال کی حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیں تو چند اقدامات جن کا دعوی حکومت بار بار کرتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ عمران خان کا آئندہ الیکشن بھی اسی بنیاد پر ہو وہ یہ ہیں کہ خارجہ پالیسی میں پہلے سے کافی بہتری دکھائی دی ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس سلسلہ میں بڑا اہم کردار اداکیا ہے۔

نہ صرف حالیہ افغانستان میں طالبان کا حکومت بنانے کے عزم میں کردار بلکہ علاقائی و یورپی تعلقات میں بھی پاکستان نے اپنے وقار کو بلند کیا ہے۔اس کا آغاز اگر میں وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ میں اپنی پہلی تقریر میں پاکستانی موقف کے بیان کے ساتھ ساتھ کشمیر کے موقف کی بھر پور ادائیگی سے کروں تو بے جا نہ ہوگا۔کیونکہ اس سی قبل شائد کسی اور لیڈر نے اتنے واضح،دوٹوک الفاظ میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں پیش نہ کیا ہو۔

علاوہ ازیں کوتلیہ چانکیہ کی سیاسی بصیرت کو عملی شکل دینے کی بھی عمران خان کوشش کی کہ کمزور ملک کو ہمیشہ قریبی سوپر پاور سے اپنے تعلقات مضبوط رکھنے چاہئے اسی میں اس کی بقا مضمر ہوتی ہے۔پاکستان نے بھی اپنے ارد گرد نیا کی دو بڑے طاقتوں(چین اور روس) کے ساتھ اپنے خارجہ تعلقات کو پہلے کی نسبت سے بہت مضبوط کر لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی عمران حکومت کو معاشی مدد کی ضرورت پڑی چین نے مخلصانہ ساتھ نبھایا ہے اور وس اب پاکستان میں بننے والے انڈسٹریل زونز میں سرمایہ کاری کرنے میں عملی کردار ادا کر رہا ہے۔

ایران کے علاوہ دیگر مشرقی و یورپی ممالک کے ساتھ بھی پاکستان کے خارجہ تعلقات کی نوعیت اب بہت بہتر اور مضبوط بنیادوں پر استوار ہیں۔اس کے علاوہ ایسا بھی شائد پہلی بار ہوا ہے کہ اقوام عالم کے ایوانوں میں اسلامو فوبیا کی بات کی گئی اور سب سے بڑھ کر ناموس رسالت ﷺ کی تکریم کے بارے میں دو ٹوک اور واضح الفاظ میں کہا گیا کہ اس سے مسلمانوں کو اتنا ہی دکھ پہنچتا ہے جتنا کہ عیسیٰ  کے بارے میں آپ کو۔

گویا ان لوگوں کے منہ بند کر دئے گئے جو اسلامو فوبیا کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔
غربا کے لئے نیا ہاؤسنگ سکیم،پناہ گاہیں،مسافروں کے لئے لنگر خانے اور مفت رہائش،احساس پروگرام کے تحت مالی امداد اور انصاف صحت کارڈ کے ذریعے صحت کی سہولیات کو ہر فرد تک ممکن بنانے کی کاوشیں بھی اس حکومت کا خاصہ ہے۔گرین پروگرام کے تحت ایک ارب درخت لگانے کے کام کو پوری دنیا سراہ رہی ہے۔

داسو اور بھاشا ڈیمز کے بشمول دس چھوٹے بڑے ڈیمز پر کام جاری ہے۔جس کا فائدہ یقینا آئندہ نسل کو ہوگا۔جب تمام ڈیمز کام شروع کر دیں گے تو توانائی کے بحران پر کافی حد تک قابو پالیا جائے گا۔حالیہ یکساں نظام تعلیم پر عملدرآمد تقسیم شدہ معاشرہ کو ایک بنانے کی بھرپور کوشش ہے۔اس میں کامیابی ہوتی ہے کہ نہیں یہ آنے والے ایک دو سال میں اندازہ ہو جائے گا۔

لیکن تحریک انصاف کی حکومت شب و روز ہاتھ پاؤں ضرور مار رہی ہے کہ کسی طرح سے ملک کو سیاسی و معاشی بحران سے نکالا جا سکے۔
یہ سب ایک طرف لیکن ہماری جلد باز قوم جسے روٹی پانی کے گرداب میں ایسے دھکیل دیا گیا ہے کہ انہیں اس سے آگے کچھ نظر ہی نہیں آتا۔اور ہونا بھی ایسا ہی چاہئے کیونکہ غریب آدمی جب سارا دن کام کاج سے تھکا ہارا گھر جاتا ہے تو اس کا پورا خاندان اس کے چہرے نہیں بلکہ اس کی جیب پر نظریں جمائے ہوتا ہے۔

اگر ملک میں مہنگائی کا منہ زور گھوڑا ہمہ وقت منہ کھولے کھڑا رہے گا تو عام آدمی کے گرد بہبود کا گھیرا تنگ سے تنگ تر ہوتا چلا جائے گا۔میرے نزدیک حالیہ حکومت کے تمام اقدامات ایک طرف لیکن مہنگائی ایک طرف۔تعطیلات گرما میں جب میرا پاکستان جانا ہوا تو جس چیز نے سب سے زیادہ مجھے پریشان کیا وہ مہنگائی کا جن تھا۔بات صرف اشیائے خورونوش کی مہنگائی کی نہیں بلکہ وہ چیک اینڈ بیلنس کا جس کا دور دور کوئی نشان بھی نظر نہیں آتا۔

بلکہ یو ں لگتا ہے جیسے اس میدان میں حکومت وقت کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔لہذا حکومت کو سابقہ تین سال کی کارکردگی کو نظر انداز کرتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرتے ہوئے اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں استحکام کی مستقل بنیادوں پر پالیسی کو مرتب کرنا ہوگا۔تاکہ لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :