کیا مسلمان لیڈرز کے پاس مذمت کے سوا کوئی دوسری چارہ نہیں ؟

بدھ 12 مئی 2021

Murad Muhammad

مراد محمد

فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر اگ کے گولے برسائے گئیں ، ان کے بچے یتیم اور والدین غم سےنڈھال   ہو گئے لیکن بااختیار مسلمانان حکمرانان دولت اور جنگی ہتھیاروں سے لیس اس واقعے پر افسوس اور اس کی شدید  الفاظ میں مذمت کے سوا کوئی عملی کاروائی نہیں کر سکتیں  ۔ جنگ کے لئے جنون، جہادی جگر، ثابت قدمی اور پختہ ایمان کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ افواج یا جدید ہتھیار کی۔

جنگ ہمت،حوصلہ،ایمان اور ثابت قدمی سے جیتی جاتی ہے نہ کہ وسائل اور کثیر افواج سے جس کی زندہ مثال افغان طالبان اور امریکہ ہے۔ موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے
ایک پرانی واقعہ زیر قلم کرنا چاہتا ہوں۔
اسرائیلی وزیراعظم گولڈا مئیر کہا کرتی تھی کہ اس کی زندگی کا سب سے برا اور سب سے خوشگوار دن وہ تھا جب اس نے مسجد اقصی کو اگ میں جلتے دیکھا۔

(جاری ہے)


اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگی:
"جس روز ہم نے مسجد اقصی جلائی تھی میں ساری رات اس خوف سے سو نہ سکی کہ کہیں عالمِ اسلام ہم پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو اسرائیل کا وجود مٹ جائے گا۔ ساری رات گزر گئی، جب اگلے روز سورج چڑھا اور میں نے مسلمانوں کے رد عمل کو دیکھا تو میں مطمئن تھی کہ اب اسرائیل حدود عرب میں محفوظ ہے"
(Official Authority TV . August 20 , 2004)
اسرائیل خوف زدہ ضرور تھے اور اب یہ نوبت پیش نہ اتی اگر بروقت ہم ظلم کے شدید الفاظ میں مذمت کے بجائے کچھ نہ کچھ عملی کراوئی کرتے۔


ہم لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ہوکر، ایک نہیں بلکہ 57 ممالک ہوکر بھی صرف ایک اسرئیل کا مقابلہ نہیں کرسکتے جو کہ مسلمان مملک کے تقریبا وسط میں واقع ہے۔ صدر اردگان پر کیا یہ فرض ہے یا دین اور اسلام کا فریضہ صرف ترک کو سونپہ گیا ہے! کیا ہم امتی نہیں ہے ؟ اسلام اور دوسرے مسلمان کا جسکو اسلام میں بھائی سے تشبہیہ دی گئی ہے ہم پربھائی چارے کاکوئی حق نہیں ہے کیا ؟
عر ب عیاشی میں مست اور عجم غلامی میں جکڑے ہوئے کا صرف یہ نتیجہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان جو کہ مسلم ممالک کی سپر پاور تصور کی جاتی ہے کا کردار مایوس کن ہے مزائلوں کے نام نصر اور ابابیل لیکن عملی کاروائی صفر۔  مجھے خطرہ لاحق ہے کہ اگر ہم قبیلہ اول کے لئے اکٹھے نہیں ہو سکتے تو پھر حرمین شریفین کے لئے بھی اکٹھا ہونا ناممکن ہے۔ فتح ہمشہ حق کی نصیب ہوتی ہے نہ کہ باطل کی۔ نصرت ائے گی لیکن کوشش شرط ہے اسطرح خاموش تماشائی بن کر بیغراتی کا دامن تھامے ہو اگر ابابیل بھیج دی گئ تو یقننا اسرائیل کے بجائے ہم پر پتھر برسائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :