کیاپاکستان میں محقیقن اور سائنسدان عدم توجہ کی شکار ہیں؟

جمعہ 27 نومبر 2020

Murad Muhammad

مراد محمد

 سرکاری ونجی اداروں کی غیر منصفانہ کارگردگی سے دلبرداشتہ ہو کر یہ تحریر لکھ رہا ہوں۔  سوشل میڈیا پر مشہور امریکن یونیورسٹی( سٹینفرڈ یونیورسٹی) کی جاری کردہ لسٹ میں پاکستانی محققین کی بڑی تعداد دیکھ کر دل و زبان سے خود ساختہ شکرانے کے الفاظ نکل گیئں۔ ایک سائنسی جریدے کے مطابق پاکستان کی (۸۱) محققین اور سائنسدانوں نے دنیا کی بااثر ترین ریسرچرزکی کامیاب فہرست میں جگہ بنالی ہیں جسے The world top 2% scientists کے نام سے جانا جاتا ہے۔


اس عظیم فہرست میں جگہ بنانا کوئی معمولی کام نہیں، بلکہ یہ صرف انتھک محنت اور دن رات بیداری سے ہی ممکن ہے۔  دنیا میں کہی بھی کوئی بندہ وطن یا معاشرے کی بھلائی کے لئے کوئی کارنامہ انجام دیتاہے وہ فوراً توجہ کی مرکز بن کر ،اخبارات، ٹی۔

(جاری ہے)

وی چنلز اور دیگر حکومتی خبر رساں اداروں کا مہمان بن جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے وطن عزیر میں کھیل بالکل برعکس ہے، یہاں اگر ہوتا بھی ہے تو  محض "ناانصافی کےساتھ"
کئی دنوں سے طلباء اپنی منتخب شدہ اساتذہ کرام کو مبارکباد دینے میں مصرف عمل ہے لیکن دوسری طرف حکومت اس بارے میں خرگوش کی نیند سو رہی ہے۔


کیا پاکستان میں  سائنسدانوں  کو دیگر شعباجات کی بنسبت کم توجہ دی جاتی ہیں؟
ہاں! کیونکہ ہمارے ہاں اگر کوئی کرکٹر محض ففٹی سکور بناتا ہے تو شام کو وہ ضرور کسی نہ کسی نیوز چینل کا مہمان بن جاتا ہے۔ کاروباری حضرات (مخصوص میڈیا نمائندگان)  ان کے گھر پہچنے سے پہلے  ان کی رہائش گاہ میں ارام فرما ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی سائنسدان  حقیقی معنوں میں قوم کی ترجمانی کریں تو پھر حکومت سمیت کاروباری حضرات دوربین میں بھی نظر نہیں اتے۔

حکومت اگر کسی فنکار کو محض گانا گانے پر ایوارڈ دے سکتا ہے تو ایک سائنسدان کے بارے میں خاموشی کیوں؟
اگر ایک صاحبہ کو محض اچھی ڈانس  کی بنیاد پر ایوارڈ یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے تو قومی اصلی ہیرو (سائنسدان) عدم توجہ کی شکار کیوں؟
اگر ایک نواب زادے کو سکول، کالج اور دوسری ترقی یافتہ سکیمز کی افتتاح کے لئے منتخب کیا جا سکتا ہے  تو ایک عظیم سائنسدان کو کیوں نہیں؟
ہمارے ہاں سائنسدانوں کی موجودگی کمال بھی، اور بدقسمتی بھی ہے۔

کمال اسطرح کہ ہمارے ہاں جدید ریسرچ ٹیکنالوجی اور لیبز کی کمی نہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے  اس فقدان کے باوجود بھی ہمارے اساتذہ کی  دنیا کی ٹاپ فہرست میں شامل ہونا یقیناً کمال سے کم نہیں۔
بدقسمتی کچھ اسطرح!     ہمارے ہاں کچھ تو حکومت کی غیرسنجیدگی ، لیکن سرمایہ دار حضرات بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
باہر کی ملکوں میں سرمایہ دار حضرات حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں ، جیسا کہ تمام  امریکن سرمایہ داروں نے کرونا کے خلاف حکومت کے ساتھ اربوں ڈالرز تعاون کیا تھا۔

وہ اپنی ہیروز کو سراہتے ہیں لیکن یہاں بدقمستی سے سرمایہ دار بھی حکومت کی نقش وقدم پر چل رہے ہیں حکومت کیطرح فنکارز،کرکٹرز اور دیگر شعباجات ان کی بھی اولین ترجیح ہیں۔ بحریہ ٹاون میں کرکٹرز، فنکاروں اور تقریبا ہر شعبے سے منسلک لوگوں کی پلاٹس تو اپ کو نظر ائی گی پلاٹ اگر نہیں ہوگی تو کس کی ؟
 ایک محقیق ، استاد اور سائنسدان کی !
میں ایک مثال دیتا چلو، دور کی نہیں بلکہ اب کی بات ہے۔

بین الاقوامی نہیں بلکہ ایک قومی کرکٹ ٹورنامنٹ کی فائنل  میچ جیتنے کے بعد ایک نمائندہ جیتنے والےٹیم کی  کپتان سے پوچھنے لگا کہ سر فائنل تو جیت لیا اب کیا کچھ خاص ملے گا ؟ جواب میں موصوف ہنس کر بتانے لگا  ہمارے ساتھ پہلے سے کراچی میں پلاٹ دینے کا وعدہ کیا گیاہے لیکن اب کی بہترین بین الاقوامی کارکردگی پر خاموشی   کیا یہ ہماری بد قسمتی ہہے محض اتفاق ؟
A success without appreciation and encouragement is nothing at all
حکومت وقت اور ایوان بالا میں بیٹھے حضرات یہ بات ذہین نشین کر لیں کہ یہ سائنسدان انمول ہیرے ہے یہ صدیوں میں چند ملتے ہیں۔

  پاکستان میں سائنسدانوں کی موجودگی اللہ تعالی کی کرم اور مہربانی ہے۔ اس بڑی نعمت پر اللہ تعالی شکرگزاری اور ان عظیم لوگوں کی  حوصلہ افزائی کجیئے۔ان لوگوں سے ہی حقیقی معنوں میں ترقی کی امید رکھی جاسکتی ہیں۔ ایک سائنسدان کبھی بھی پیسے یادولت کی منتظر نہیں ہوتا لیکن داد اورحوصلہ افزائی کے منتظر ضرور ہوتا ہے جسکا وہ حقدار اور مستحق ہو تا ہے۔
نوٹ :کرکٹر یا فنکار حضرات کی اہمیت کو ہم فضول نہیں سمجتھے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ایک استاد اور محقیق بھی تو ان کی طرح بلکہ ان سے بھی اچھی طرح اور اچھی پلٹ فارم پر قومی ترقی کے لئے پرفارمنس دکھاتا ہے کیوں نہ کہ ان کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :