سوشل میڈیا کمپنیوں پر پاکستانی قوانین لاگو کرنے کی ضرورت

بدھ 9 دسمبر 2020

Mustansar Baloch

مستنصر بلوچ

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دور جدید میں ہونے والی جنگوں کا اصل محاذ سوشل میڈیا ہی ہے جبکہ سوشل میڈیا کا مثبت سے زیادہ منفی استعمال، پروپیگنڈہ اورجھوٹی خبروں کے پھیلائو کے لئے استعمال کیا جانا کسی بھی مہذب معاشرے کو درپیش چیلنجز میں سے ایک ہے۔ ہمارے معاشرے میں سوشل میڈیا کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے اس کے منفی اثرات کو فوری روکنے کے لئے حدود کا تعین کیا جانا انتہائی ضروری ہے تاکہ سوشل میڈیا کا منفی استعمال کسی کی عزتیں  اچھالنے اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سبب نہ بنے۔

قوانین کے فقدان کی وجہ  سے اس وقت بہت سارے فتنے فساد سوشل میڈیا پر رونما ہو رہے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے مخالفین پر کیچڑ اچھالنا، فتنہ انگیز خبروں سے ٹارگٹ کرنا، سیاسی ،لسانی، مذہبی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دینا معمول بن چکا ہے جبکہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو قانونی دائرہ کار میں لاکر سوشل میڈیا قوانین پر عملدرآمد کرانے کے حوالے سے مثبت پیشرفت نہ ہونے کے باعث منفی پرو پیگنڈہ کرنے والوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔

(جاری ہے)

دنیا کے جن ممالک میں سوشل میڈیا کمپنیوں کے دفاتر موجود ہیں تو وہاں چھوٹی چھوٹی بات پر فیس بک، یوٹیوب اور گوگل جیسی کمپنیوں پر بہت بڑے جرمانے عائد کر دیئےجاتے ہیں۔
مغربی ممالک میں زیادہ تر سوشل میڈیا صرف سوشل ایکٹیوٹی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، وہاں کے قوانین میں مخالفین کو سوشل میڈیاکے ذریعے تعصب کا نشانہ بنانے کی گنجائش ہے نہ ہی کسی قسم کا ممنوعہ مواد اَپ لوڈ کیا جاسکتا ہے۔

بیشترسوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر فحش زبان استعمال کرنےاور اس نوعیت کی تصاویر اور وڈیوز اپ لوڈ کرنےکی مکمل آزادی ہےجو کہ نوجوان نسل کی تباہی کا باعث بن رہی ہےجس کی روک تھام وقت کی اہم ضرورت ہے، ساتھ ہی معاشرے میں بیشتر افراد سوشل میڈیا کے ذریعے منفی پروپیگنڈہ کرکے  لوگوں کو بدنام کرنے کے لئے بے بنیاد خبریں پھیلانے، تصاویر اور خاکوں کی تشہیر جیسے طریقوں کے ذریعے معاشرے میں خرابی کا باعث بن رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب مختلف فورمز پر یہ مطالبات زور پکڑ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے حکومتی سطح پر قانون سازی کی جائے اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستانی قوانین پر عملدرآمد  کرنے کا پابند بنایا جائے۔

سوشل میڈیا قوانین نہ ہونےکی وجہ سے معاشرے میں بہت سی اخلاقی و سماجی خرابیوں نے فروغ پایا اور ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اورمکاتب فکر میں ایک دوسرے سے نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہر شخص کو اچھی بری بات کہنے اور لکھنے کی آزادی حاصل ہے، اس لئے کوئی بھی شخص بلاروک ٹوک کسی بھی مذہبی شخصیت اور کسی کے مذہبی نظریات کو برا بھلا کہہ سکتا ہے اور مخالف مذہبی سوچ کی محترم شخصیات پرکیچڑ اچھال سکتا ہے جو کہ کسی بھی لحاظ سے نامناسب ہے۔


اگر بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو ہائبرڈ وار میں ملک دشمن طاقتیں سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے کے موجودہ مسائل کو منفی انداز میں بڑھا چڑھا کر استعمال کرتے ہوئے عوام کو ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف لا کھڑا کردیتے ہیں۔ ہائبرڈ وار میں سوشل میڈیا کے ذریعے منفی پروپیگنڈہ پھیلا کر عام لوگوں میں مایوسی، الجھن اور ناراضگی پھیلانا دشمن قوتوں کا سب سے موثر ہدف ہے۔


. پاکستان میں قوانین کے فقدان کے باعث سوشل میڈیا غیر منظم ہونے کے ساتھ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر  مکروہ مواد اپ لوڈ کئے جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کی روک تھام کے لئے ہمیں قوانین اور قواعد کے نفاذ کی ضرورت ہے۔کسی بھی سوسائٹی میں آزادی اظہار ہر انسان کا بنیادی
  حق تصور کیا جاتا ہے لیکن کسی کے بارے میں غلط خبریں پھیلانا یا منفی پروپیگنڈہ کرنا ہر معاشرے میں جرم ہے۔


 آئین پاکستان ہر پاکستانی شہری کے لئے آزادی اظہار کو یقینی بناتا ہے لیکن کچھ ذمہ داریوں کے ساتھ جو ملک کی خودمختاری، نظریہ اور سرحدوں کے تحفظ کے لئے ضروری تصور کی جاتی ہیں۔
دنیا کے متعدد ممالک میں یہ بحث زور پکڑ چکی ہے کہ سوشل میڈیا پر غیرقانونی، غیراخلاقی اور نفرت انگیز مواد سے کس طرح نمٹا جائے بحیثیت محب وطن پاکستانی ہمیں بھی یہ سوچنا ہوگا کہ سوشل میڈیا کا استعمال کس طرح کیا جانا چاہئے کہ بجائے زحمت کے سوشل میڈیا ایک نعمت ثابت ہو، تعلیم یافتہ نوجوانوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ڈیجیٹل محاذوں پر ملک کے قومی مفادات کا دفاع کریں اور سوشل میڈیا قوانین  کے نفاذ پر حکومت کا ساتھ دینے کے ساتھ پرتشدد مواد کی تشہیر روکنے، جنسی استحصال اور مایوسی پھیلانے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کریں جبکہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ جعلی اور مایوس کن خبروں، منفی پروپیگنڈہ اور سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے میں خوف وہراس پھیلانے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کرنے اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے قانون سازی کی جائے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی ملکی قوانین کے دائرہ کار میں لایا جائے جیسا کہ جرمنی کے سوشل میڈیا قوانین کے مطابق سوشل میڈیا کمپنیوں کو 24 گھنٹوں کے  اندر ناپسندیدہ مواد ہٹانے کا پابند کیا گیا ہے جبکہ خلاف قانون مواد کی تشہیر کرنے والی  سوشل میڈیا کمپنی کو 50 ملین یورو تک جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔

روس اور آسٹریلیا میں بھی ایسے قوانین موجود ہیں جن کے تحت یہ ممالک سوشل میڈیا کمپنیوں کو جھوٹی خبروں اور نفرت آمیز مواد حذف کرنے کا پابند بناتے ہیں اسی طرح امریکا کی پارلیمنٹ میں بھی فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی انتظامیہ کو بلا کر پالیسی سمیت مختلف معاملات پر وضاحت طلب کی جاتی ہے۔
2016 میں یورپی یونین میں شامل ممالک نے جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (جی ڈی پی آر) کو اپنایا جو گذشتہ چند برسوں کے دوران ایک بہت بڑی کامیابی تصور کی جا رہی ہے، یورپی یونین کے نئے قانون میں بتایا گیا کہ انٹرنیٹ پر ڈیٹا شیئرنگ کیسے ہو گی ۔

اس قانون میں بتایاگیا ہے کہ کمپنیاں صارفین کے ڈیٹا سے کیسے کام لیں گی۔ اب کمپنیاں صارفین کو اچھی طرح سمجھا کر ڈیٹا کے حوالے سے اُن کی اجازت لیں گی۔ جی ڈی پی آر کے تحت اگر کوئی دوسری کمپنی ڈیٹا حاصل کرے گی تو اسے بتانا پڑے گا کہ اسے کس کام کے لیے ڈیٹا کی ضرورت ہے اور وہ ڈیٹا کس استعمال میں لا رہے ہیں؟ لہذا اب یورپی یونین کے شہریوں کا ڈیٹا اب سوشل میڈیا کمپنیاں بلا اجازت  دوسروں کے ساتھ ڈیٹا شیئر نہیں کر سکیں گی۔

اب یورپی یونین کے رہنے والے کمپنیوں سے اپنے ڈیٹا کی درخواست کر کے مخصوص معلومات ڈیلیٹ کرنے یا غلطی کی صورت میں درست کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔ جب صارفین کمپنی کو اپنے ڈیٹا کے حوالے سے کوئی درخواست کریں گے تو کمپنیوں کے پاس انہیں جواب دینےکے لیے 30 دن ہوں گے ورنہ کمپنیوں کو جرمانے کا سامنا کرنا پڑےگا۔
آخر پاکستان میں کونسے عوامل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستانی قوانین پر عملدرآمد سے روکتے ہیں؟سوشل میڈیا پر نفرت آمیز مواد سمیت غیر اخلاقی پوسٹس اور پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سوشل میڈیا کس تیزی کے ساتھ معاشرتی برائیوں کے پھیلائو کا سبب بننے کے ساتھ ملک دشمنوں کے لئے ہمارے معاشرے میں مایوسی، انتشار اور مس انفارمیشن پھیلانے کا موثر ہتھیار بن چکا ہے۔

سوشل میڈیا کے حوالے سے قانون سازی  کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا، سوشل میڈیا کمپنیوں کی بلیک میلنگ اور ہائبرڈ وار میں پاکستان دشمنوں کی چالوں کو ناکام بنانا حکومت وقت کے لئے ایک چیلنج ہی سہی مگر امید کی جا سکتی ہے کہ ریاستی ادارے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں اس اوپن چیلنج سے کامیابی سے نمٹیں گے اور  سوشل میڈیا کے حوالے سے قانون سازی کو جلد یقینی بنائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :