معاشی مسائل کا حل، قدرتی وسائل سے استفادہ حاصل کرنے کے ساتھ گھریلو صنعتوں کا فروغ ناگزیر

پیر 16 اگست 2021

Mustansar Baloch

مستنصر بلوچ

تمام تر قدرتی، مادی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم معاشی مسائل کا شکار کیوں ہیں؟ یہ سوال یقینی طور پر باشعور اور پعھے لکھے پاکستانیوں کو کسی حد تک پریشان ضرور کردیتا ہے۔ چین 1949 میں یعنی پاکستان کے بعد آزاد ہوا اور اس وقت چین کی حالت انتہائی ابتر تھی، طویل جنگ نے چین کی معیشت کو نڈھال کر رکھا تھا جبکہ اس کا بنیادی ڈھانچہ بھی تباہ ہو چکا تھا اور یوں چین کی تعمیر نو کا عمل انتہائی کٹھن اور دشوار گزار معلوم ہوتا تھا، کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ صرف سات دہائیوں بعد چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت کا درجہ حاصل کر لے گا کیونکہ یہ ملک 22 سال تک خانہ جنگی کا شکار رہ چکا تھا اور جنگوں کے باعث چین کی صنعتوں اور معیشت کو بدترین نقصان پہنچا تھا جو چین کی آزادی کے وقت صرف 15 فیصد باقی رہ گئی تھیں۔

(جاری ہے)

1949 میں چین میں کیمونسٹ انقلاب کو کامیابی ملی تو کیمونسٹوں نے بیجنگ پر قبضہ کر لیا جس کے بعد چین نے ترقی کی حیرت انگیز منازل طے کرنا شروع کردیں۔ 1947 میں جب پاکستان آزاد ہوا تو ہماری حالت چین کے مقابلے میں کئی گنا ذیادہ بہتر تھی۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پاکستان اور انڈیا دونوں کو جب انگریز کے تسلط سے آزادی ملی تو یہ دونوں ممالک دیگر نو آزاد ممالک کی طرح تباہ حال نہیں تھے اور کئی حوالوں سے دیگر ممالک سے ذیادہ بہتر تھے۔

اللہ رب العزت نے وطن عزیز کو ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال کیا ہے، سردی، گرمی، خزاں اور بہار جیسے چاروں موسم، سونا اگلتی بہترین زرعی زمینیں، زیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر، دنیا کا بہترین نہری نظام، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پہاڑوں میں قیمتی اور نایاب پتھر، سونے اور گیس کے ذخائر وافر مقدار میں موجود ہیں مگر اس سب کے باوجود گذشتہ 74 سالوں میں چین، ترکی ، انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسی ترقی کیوں نہ کر سکے؟ اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لئے ہم بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے پر مجبور کیوں ہیں؟ کیا ہم قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کو درست انداز میں ایمانداری اور محنت کیساتھ استعمال میں لا کر استفادہ حاصل کر رہے ہیں؟ یہ کیسےممکن ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ملک بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہو؟ اس بنیادی اقتصادی حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی معیشت کا ذیادہ تر انحصار پٹرولیم مصنوعات اور اور اس سے حاصل ہونیوالی توانائی کے وسائل پر ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دنیا کا معاشی انجن پٹرولیم مصنوعات کا محتاج ہے لیکن ساتھ ہی دنیا کی ترقی یافتہ رہاستیں توانائی کے نت نئے اور سستےمتبادل وسائل حاصل کرنے کی کوششوں میں لگی ہیں تاکہ توانائی بحران کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکا مگر ہمارے ہاں نئے تجربات سے ذیادہ روایتی طریقوں اور وسائل پر انحصار ایک روایت سی بنی رہی۔

موجودہ حکومت کو برسرا اقتدار آئے تین برس گزر چکے، حکومتی نمائندے ملک میں معاشی ترقی کی نشاندہی کررہے ہیں اور یہ دعوے جھوٹے بھی نہیں کیونکہ عالمی ادارے بھی پاکستان کی معاشی حالت سدھرنے کا اعتراف کر رہے ہیں تاہم حقیقی ترقی اور خوشحالی تو وہی ہوتی ہے جس کے فوائد عام آدمی تک براہ راست پہنچتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں کئی میگا پراجیکٹس بیک وقت چل رہے ہیں جن کی تکمیل کے بعد ان کے اثرات ملکی معیشت پر پڑنا شروع ہو جائیں گے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ میگا پراجیکٹس کے ساتھ چھوٹی صنعتوں کے فروغ کے لئے ایسے انڈسٹریل کمپلیکس بھی بنائے جائیں جن کی بدولت چین اور خطے کے دیگر ممالک نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔

چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کو فروغ دیکر بے روزگاری پر قابو پایا جا سکتا ہے اور عام شہریوں کی زندگی میں خوشحالی لائی جا سکتی ہے۔ ملائیشیا، انڈونیشیا اور چین نے اسی طرز پر ترقی کی منازل طے کیں۔ اس میں دورائے نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان عام پاکستانی کا طرز زندگی بدلنے اور ملک میں  خوشحالی لانے کے لئے پرعزم ہیں تاہم ضروری ہے کہ قدرتی وسائل کو درست طریقے سے جدید انداز میں استعمال میں لاتے ہوئے بھرپور استفادہ حاصل کیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :