دہشتگردی کے خلاف جنگ میں خیبر پختونخوا پولیس کا نمایاں کردار۔۔۔

منگل 3 اگست 2021

Mustansar Baloch

مستنصر بلوچ

یوں تو دو دہائیوں سے ذیادہ عرصے تک افغانستان میں جاری رہنے والی دہشتگردی کے خلاف جنگ کے اثرات پاکستان بھر کے شہریوں کو بھگتنا پڑے اور اسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان پر امریکی یلغار کے نتیجے میں بھڑکنے والی آگ کے شعلوں سے ہمسایہ ملک پاکستان بھی محفوظ نہ رہا   مگر افغانستان کے سرحدی علاقوں سے متصل ہونے کی وجہ سے خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا دہشتگردوں کے خاص نشانے پر رہا اور یوں پاک فوج کو  افغانستان کی طرز پر خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں دہشتگردوں کے خلاف کئی  آپریشنز کرنا پڑے۔

ان فوجی آپریشنز میں فرنٹیئر کور کے علاوہ خیبر پختونخوا پولیس بھی پاک فوج کے شانہ بشانہ رہی، اعداد وشمار کے مطابق خیبر پختونخوا پولیس کے افسروں اور جوانوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے بعد سب سے ذیادہ قربانیاں دے کر جرات و شجاعت کی بے مثال داستانیں رقم کیں۔

(جاری ہے)

مجموعی طور پر 17 سو سے زائد افسر اور جوان شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کا عظیم فریضہ سرانجام دیتے ہوئے شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوئے۔

جن میں 01 ایڈیشنل انسپکٹر جنرل، 02 ڈی آئی جیز، 05 ایس پیز،20 ڈی ایس پیز، 22 انسپکٹرز، 103 سب انسپکٹرز، 124 اے ایس آئیز، 135 ہیڈ کانسٹیبلز اور 1099 کانسٹیبلز شہید ہونے والوں میں شامل ہیں۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں  خیبر پختونخوا پولیس کی شہادتوں کا ذکر کیا جائے تو صوبائی دارلحکومت پشاور کی پولیس کو باقی تمام اضلاع پر برتری حاصل ہے۔ پشاور پولیس کے 451 افسروں اور جوانوں نے مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔

اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس صفت غیور، ڈی آئی جی ملک سعد اور ڈی آئی جی عابد علی خیبر پختونخوا پولیس کے وہ قابل فخر سپوت ہیں جنہوں نے پشاور کے مختلف علاقوں میں دوران ڈیوٹی جام شہادت نوش کیا۔ اسی طرح صوبے کے انتہائی جنوب میں واقع اور  جنوبی وزیرستان کی سرحد سے متصل ضلع ڈیرہ اسماعیل خان بھی دہشتگردوں کے خاص نشانے پر رہا ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کے 170 افسروں اور جوانوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں ایس پی اعجاز احمد لنگڑیال اور ایس پی رجب علی بھی شامل ہیں۔

ایک وقت تھا جب دہشتگردی کے باعث سوات کے لوگوں کی زندگی اجیرن بن چکی تھی مگر پاک فوج کے ساتھ سوات پولیس نے انتہائی جانفشانی سے سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشنز کئے اور آج سوات دوبارہ امن کی وادی بن چکی ہے۔ سوات میں قیام امن کے لئے پولیس کے 132 اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کیں اور آج ہزاروں کی تعداد میں سیاح ایک پرامن سوات میں قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔


ایک وقت تھا جب دہشتگردی کے باعث سوات کے لوگوں کی زندگی اجیرن بن چکی تھی مگر پاک فوج کے ساتھ سوات پولیس نے انتہائی جانفشانی سے سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشنز کئے اور آج سوات دوبارہ امن کی وادی بن چکی ہے۔ سوات میں قیام امن کے لئے پولیس کے 132 اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کیں اور آج ہزاروں کی تعداد میں سیاح ایک پرامن سوات میں قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔


خیبر پختونخوا پولیس کے افسروں اور جوانوں کی  قربانیوں کی فہرست خاصی طویل ہے، چارسدہ میں 75، نوشہرہ میں 36، مردان میں 110، کوہاٹ میں 81، صوابی میں 48، کرک میں 18، ایبٹ آباد میں 13، ہری پور میں 10، مانسہرہ میں 35، بٹگرام میں 8، کوہستان میں 4، تورغر میں 5، بنوں میں 158، لکی مروت میں 44، ٹانک میں 31، شانگلہ میں 27، بونیر میں 27، لوئر دیر میں ایس پی خورشید خان سمیت 43، اپر دیر 32 اور چترال میں 11 اہلکاروں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔


دہشتگردی کے خلاف جنگ کے  طویل اور مشکل ترین مراحل خیبر پختونخوا پولیس کے ساتھ عام شہریوں کے لئے بھی کبھی آسان نہ تھے، خیبر پختونخوا کے ہزاروں شہری بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور دہشتگردی کی دوسری وارداتوں کا نشانہ بنے تاہم خیبر پختونخوا پولیس اور عام شہریوں نے ملکر ہمیشہ دہشتگردوں کو شکست دی اور  آج خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں امن بحال ہو چکا ہے، ایک طرف جہاں سوات اور قبائلی اضلاع میں بچیوں کی  تعلیمی سرگرمیاں زور وشور سے جاری ہیں تو وہیں چترال سے لیکر وزیرستان تک روایتی اور ثقافتی تہواروں میں بھی لوگ بھرپور انداز میں شریک ہورہے ہیں۔

خوشی اور امن کی یہ نوید ان ہزاروں شہداء کی قربانیوں کا ثمر ہے جنہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت اور فرض کی ادائیگی کو ہمیشہ مقدم جانا۔ اب موقع ہے کہ ہم سب اپنے اپنے طور پر پاکستان کی خوشحالی اور ترقی میں اپنا حصہ ڈال کر شہداء کی قربانیوں کو بھرپور خراج تحسین پیش کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :