روٹھے منائیں ،قربانیوں کونہ بھلائیں

منگل 7 دسمبر 2021

Mustansar Baloch

مستنصر بلوچ

چندروزقبل سپریم کورٹ نے جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کی درخواست ضمانت منظور کر لی ہے۔جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے علی وزیر کی درخواست ضمانت پر سماعت کی اور چار لاکھ کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت منظور ہوئی۔یاد رہے کہ گذشتہ برس 16 دسمبر 2020 کو سندھ پولیس کی درخواست پر علی وزیر کو پشاور سے گرفتار کر کے کراچی منتقل کیا گیا تھا علی وزیرکو 6دسمبر 2020 کو کراچی میں نکالی گئی پی ٹی ایم کی ایک ریلی کے دوران ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز اور تضحیک آمیز تقریر کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ امرخوش آئند ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے ملک میں امن وامان کی بہتری اور انتہا پسندی کے جن کو بوتل میں بندکرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہونے کے ساتھ داخلی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی خاطر بھی متعدد اقدامات کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ گذشتہ برسوں میں اس اہم ترین معاملے پر سویلین حکومتوں نے پالیسی سازی میں کوئی دلچسپی نہیں لی بلکہ شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ کو فوج کے سپرد کرکے خود کو بری الذمہ قراردے دیا۔

فوج نے دفاع سے متعلقہ اپنی پالیسی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کیں اور ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات میں سب سے بڑا خطرہ پاکستان کے اندر سرگرم جنگجو گروہوں کو قراردیتے ہوئے نہ صرف ان کے خلاف موثر کاروائیاں کیں بلکہ عوام کی بھرپور حمایت سے یہ جنگ جیت بھی چکی ہے،دنیا بھر میں قومی سلامتی کا تصور محض سرحدوں کا تحفظ نہیں ہوتا بلکہ معاشی استحکام اور قومی مفادات سے ہم آہنگ خارجہ پالیسی بھی اس کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔

شہریوں کو روزگار اور تحفظ فراہم کرنا بھی قومی سلامتی کا لازمی جزو ہے۔علاوہ ازیں قومی سلامتی کی پالیسی کی تشکیل میں عسکری اداروں کے علاوہ سویلین اداروں کی مشاورت اور پورے عمل میں بھرپور شرکت ہی اسے قابل قبول شکل دینے کے علاوہ تمام سٹیک ہولڈرز کی اونرشپ عطا کرتی ہے۔
 وزیراعظم عمران خان نے جس وسیع پیمانے پرانتہاپسندوں کوقومی دھارے میں شامل کرنے کے اقدامات کئے ہیں پاکستان کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔وہ حکومت کو تنگ کرنے کے لئے کوئی بھی بے لچک یا غیر معقول پوزیشن لے لیتے ہیں ،مسلم لیگ ن کے بعض رہنمائوں اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول کی مثال سامنے ہے جنہوں نے نہ صرف تحریک لبیک پاکستان سے مذاکرات کرنے اور اس پر عائد پابندیاں ہٹانے کے معاملے پر  وزیراعظم عمران خان کوشدید تنقید کانشانہ بنا رکھا ہے بلکہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان  سے مذاکرات کے بھی خلاف ہیں، ساتھ ہی اپوزیشن "شاید" پوائنٹ سکورنگ کے چکر میں ناراض بلوچ رہنمائوں سے مذاکرات کی بھی حامی نظر نہیں آ رہی یہی وجہ ہے کہ حکومتی حلقوں کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق پر جہاں لبرلز سراپا احتجاج ہیں، وہیں اپوزیشن جماعتوں کا شدید ردعمل بھی دیکھنے کو ملا ہے، ن لیگ اور پی پی پی جو حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کے فورم پر تو اتحاد نہ دکھا سکیں مگرحکومت کی طرف سے ناراض بلوچ رہنمائوں اورکالعدم تحریک طالبان کے ساتھ  مذاکرات کے معاملے پر ہمنوا بن بیٹھیں۔

شہدا کے خون کا سودا کرنے کا طعنہ دینے والی ن لیگ غالبا اپنے دور کے وزیراعلی کے اس بیان کو بھول گئی جس نے کالعدم ٹی ٹی پی پنجاب کے امیر عصمت اللہ معاویہ سے ہاتھ جوڑتے ہوئے  پنجاب میں حملے بند کرنے کی درخواست کی تھی۔ سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کا وہ جملہ بھی یاد ہوگاکہ جب انہوں نے کہا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی پنجاب پر حملے نہ کرے تو ہم  ان سے ڈیل کر لیں گے اور آج جب کہ وزیراعظم عمران خان ڈیل کی جگہ ہتھیار ڈالنے والوں سے مذاکرات اور انہیں قومی دھارے میں لانے کی بات کر رہے ہیں تو پھر شور کس بات کا؟ افغانستان کی 20  سالہ جنگ میں خود امریکا ہی کتنی بار افغان طالبان کیساتھ مصالحت اور مذاکرات کیلئے تیار ہوا، تب کیوں امریکا کے اس اقدام کو پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے  سراہا گیا؟ طاقت اور فوج کے استعمال کی مخالفت میں کون سی ایسی سیاسی جماعت تھی جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے سابق صدر مشرف پر تنقید اور انکے فیصلوں کی مخالفت نہ کی تھی اور بات چیت اور مذاکرات پر زور دیا تھا تو پھر آج 180 کے زاویے سے یہ یو ٹرن کیوں کہ اپنے ہی ناراض لوگوں سے ہتھیار ڈلوا کر انہیں قومی دھارے میں لانے کی حکومتی کوششوں پر تنقیدی نشتر برسائے جارہے؟ کچھ فیصلے سیاسی وابستگیوں سے بالا تر اور وقت کے حساب سے کیا جانا ہی سیاسی بصیرت اور عقل مندی کا تقاضا ہوا کرتے ہیں۔

پڑوسی ملک افغانستان میں افغان طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ پاکستان کے پاس نادر موقع ہے کہ وہ ان بھٹکے ہوئے انتہا پسندوں کو ایک موقع فراہم کرے جو ملک دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ انتہاپسندوں سے ہتھیارڈلوا کر مختلف ناراض رہنمائوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگریہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے جو استحکام پیدا ہوا ہے اس کے پیچھے ہماری قوم اورافواج پاکستان نے بے مثال قربانیاں دی ہیں،خاص طور پر پاک فوج کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں جس کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اس ارضِ وطن کی حفاظت کا فریضہ ادا کیا۔

پاک فوج نے نہ صرف ملک کے اندر موجود دہشت گردوں کا سامنا کیا بلکہ ملک کے باہر موجود ایسے عناصر کی ریشہ دوانیوں کا بھی مقابلہ کیا جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے در پے تھے۔کہیں ایسانہ ہوکہ یہ دشمن کی کوئی چال ہو، مذاکرات کی آڑمیں وقت لیکریہ دہشت گرد پھرسے اپنے آپ کودوبارہ منظم کرلیں اورملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع کردیں اورایک بارپھرملک کاامن وامان دائوپرلگ جائے اورہماری قوم اورپاک فوج کی دی ہوئی جانوں کی قربانیاں ضائع ہوجائیں ۔

اس لئے ہم توصرف اتناعرض کریں گے کہ  روٹھے ہوئے پاکستانیوں کوضرورمنائیں لیکن وطن عزیزپاکستان میں امن کی خاطراپنی جانیں قربان کرنے والوں کوبالکل نہ بھلائیں کیونکہ اب تاریخ لکھی جارہی ہے اورتاریخ کبھی کسی کومعاف نہیں کرتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :