شہر لاہور کی تبدیلی کا سفر

ہفتہ 17 جولائی 2021

Mustansar Baloch

مستنصر بلوچ

کچھ دن پہلے لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو اندرون شہر بے ہنگم ٹریفک، تجاوزات، تعمیرات کی بھرمار دیکھ کر کچھ پریشانی سی محسوس ہوئی کہ اس اندرون لاہور کے تو محض نشانات ہی باقی ہیں جسے دیکھنے کے لئے اندرون و بیرون ملک سے سیاح کھچے چلے آتے تھے۔
شہر کے چاروں طرف باغات ہوا کرتے تھے جو اندرون شہر بسنے والوں کو صاف آکسیجن فراہم کیا کرتے تھے مگر اب ٹریفک کی بھرمار کے باعث ماحولیاتی آلودگی ، گاڑیوں کے شور شرابےاور دھوئیں کے باعث شہری پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔


آبادی کے لحاظ سے کراچی کے بعد لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے مگر ماضی میں المیہ یہ رہا کہ دور جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر لاہور کو ترقی کی اس راہ پر گامزن نہیں کیا جا سکا کہ لاہور کا بنیادی حسن بھی برقرار رہتا اور لاہوریوں کو دور جدید کی وہ  سہولیات بھی مل پاتیں جو دنیا کے دیگر ترقی یافتہ شہروں میں بسنے والوں کو میسر آتی ہیں۔

(جاری ہے)

لاہور کو ایک ماڈل شہر کے طور پر ترقی کی راہ پر گامزن نہ کرنے اور باقاعدہ منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث شہر لاہور کے باسی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہوتے چلے گئے تو دوسری طرف قدیم لاہور کا تاریخی،  روایتی اور ثقافتی حسن بھی دھندلا سا گیا۔
واقفان حال کا بتانا ہے کہ لاہور کے مسائل پر قابو پانے، اندرون لاہور کا قدیم حسن اور رونقیں بحال کرنے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی بنیادی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے سال  2014 میں دریائے راوی کے کنارے ایک نیا شہر آباد کرنے کی منصوبہ بندی تو ضرور کی گئی تاہم منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔


موجودہ حکومت نے دوبارہ لاہور کے بنیادی مسائل پر توجہ دیتے ہوئے دریائے راوی کے کنارے نیا شہر ( راوی اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ)
آباد کرنے کی منصوبہ بندی بنائی جس کیلئے ایک لاکھ ایکڑ رقبہ مختص کیا گیا جبکہ سابقہ ماسٹر پلان میں  44 ہزار ایکڑ رقبے پر نیا شہر آباد کئے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس نئے شہر کو بنانے کیلئے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنائی گئی ہے جو مکمل طور پر اس منصوبے کو پایا تکمیل تک پہنچائے گی۔


منصوبے کے مطابق راوی کے درمیان میں 46 کلومیٹر طویل ایک جھیل بنائی جائے گی جس کے دونوں اطرف اس شہر کو اباد کیا جائے گا اس جھیل کے ذریعے پانی کو اکٹھا کیا جائے گا اور واٹر ویسٹ مینیجمنٹ کے تحت 3 بیراج بھی تعمیر کئے جائیں گے جھیل میں بارش کا پانی ذخیرہ ہونے سے جہاں لاھور شہر کے زیر زمین تیزی سے کم ھوتی پانی کی سطح بہتر ہو گی وہیں لاہور شہر کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی بھی ممکن بنائی جا سکے گی۔


ممصوبے کی رو سے اس نئے شہر میں ضروریات زندگی کی ہر سہولت دی جائے گی جس کی تکمیل تین مرحلوں میں کی جائے گی اور ہر مرحلے میں چار سیکٹرز کو مکمل جائے گااور ہر سیکٹر ایک میگا سٹی جیسی حیثیت اور اہمیت کا حامل ہو گا۔ یہاں صحت عامہ، تعلم و تدریس، کھیل و تفریح، حکومتی امور، سائنس و ٹیکنالوجی سمیت کئی ایسے منصوبے عمل میں لائے جائیں گے جو نہ صرف ہر انسان کی بنیادی ضروریات زندگی کو پورا کریں گے بلکہ لاہوریوں کو درپیش مسائل کے خاتمے کا سبب بھی بنیں گے۔


اس منصوبے کی تکمیل سے  تقریباً 40 سے 45 لاکھ افراد کو رہنے کی گنجائش میسر آئے گی جبکہ منصوبے کا 70 فیصد حصہ جنگلات اور ماحولیاتی سہولیات پر مستمل ہو گا جبکہ 30 فیصد رقبہ رہائشی و صنعتی استعمال میں لایا جائے گا۔
دریائے راوی کے کنارے نیا شہر آباد کرنے کے چند بڑے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ منصوبے کے تحت 15 لاکھ افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے جس کی وجہ سے بیروزگاری پر قابو پانے میں خاصی مدد ملے گی جبکہ منصوبے کی تکمیل کے لئے استعمال کئے جانے والا تمام تر میٹیریل مقامی صنعتوں سے بنوایا جائے گا جس سے مقامی صنعت کاروں کو بھی ترقی کے مواقع میسر آئیں گے۔


دریائے راوی کے کنارے شہر آباد کرنے کا منصوبہ اپنی مثال آپ ہے ، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں، یہ منصوبہ جہاں شہر لاہور کے قدرتی حسن کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوگا وہیں شہر لاہور کے  باسیوں کو خوشگوار ماحول اور صاف ستھری قدرتی آب و ہوا کی فراہمی کا باعث بنے گا وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ماحول دوست پالیسیوں کے تناظر میں امید کی جا سکتی ہے کہ ناں صرف راوی کنارے شہر آباد کرنے کے منصوبے کو بروقت پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا بلکہ آنے والے سالوں میں اندرون لاہور شہر  کی پرانی شان و شوکت اور قدیم طرز تعمیر کی بحالی  کے لئے بھی خصوصی پیکجز لائے جائیں گے اور دور دراز سے آنے والے سیاح ایک بار پھر بول اٹھیں گے کہ " لہور لہور اے، لہور لہور اے"

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :