سوشل میڈیا پرغیر اخلاقی ہیش ٹیگز روکنے کے لئے اقدامات ناگزیز

ہفتہ 19 دسمبر 2020

Mustansar Baloch

مستنصر بلوچ

اظہار رائے کی آزادی ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور دور جدید میں ہر شہری کو سوشل میڈیا پر ایسے کئی پلیٹ فارم میسر ہیں جہاں کوئی بھی شہری آزادی سے اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کم جبکہ منفی استعمال بڑھ رہا ہے،  بالخصوص (ٹوئیٹر)  پر سیاسی مخالفت کی بنیاد پر گالم گلوچ اور فحش ہیش ٹیگز پر مشتمل ایسے ٹرینڈز دیکھنے کو مل رہے ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں، یوں تو یہ سلسلہ پرانا ہے کہ ذاتی چپقلش کی بنیاد پر مخالف فریق کی کردار کشی یا سیاسی مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا رہا ہے مگر گذشتہ کچھ عرصے کے دوران سیاسی بنیادوں پر مخالفین کی کردار کشی اور ان کی پگڑیاں اچھالنے کے لئے گالم گلوچ پر مبنی ہیش ٹیگز والے ٹرینڈ سیٹ کرنا اور کئی کئی گھنٹوں تک سینکڑوں اکائونٹس سے ہزاروں پوسٹس کرکے ہیش ٹیگز کوپاکستان پینل کی زینت بنا دینا یقینی طور پر لمحہ فکریہ ہونے کے ساتھ ایسے ٹرینڈ بنانے والوں کی اخلاقی تربیت پر بھی کئی سوالات کھڑے کرتا ہے۔

(جاری ہے)


ایسے عوامل کی سرپرستی کون کررہا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ذیادہ مشکل نہیں، 21 ویں صدی میں جبکہ سوشل میڈیا ہر شہری کی ضرورت بن چکا ہے تو یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ اس منفی طرز عمل اور غیر اخلاقی مواد کی اشاعت سے ہمارے معاشرے اور خاص طور پر نوجوان نسل کی کردار سازی کس طرز پر کی جا رہی ہے اور اس عمل کے کس قدر بھیانک نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔


مغربی دنیا میں سوشل میڈیا کو محض سوشل ایکٹیوٹی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے وہاں ایسے قوانین موجود ہیں جو نہ صرف سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو ضابطہ اخلاق کا سختی سے پابند بناتے ہیں بلکہ کسی بھی عام شہری کی شکایت پر سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھی متنازعہ مواد نہ ہٹانے کی صورت میں بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ سوشل میڈیا کے منفی استعمال کو روکنے کے لئے یورپین یونین میں شامل ممالک کے شہریوں اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے جی ڈی پی آر (جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن) قانون موجود ہے، یہ قانون سوشل میڈیا پر شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ سوشل میڈیا کمپنوں کے منفی طرز عمل کو روکنے اور ناپسندیدہ مواد ہٹانے کے لئے خاصا مددگار ثابت ہوا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں جہاں ایک طرف متعلقہ حکام گالم گلوچ، فحش زبانی اور غیر اخلاقی مواد اپ لوڈ کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کرتے دکھائی نہیں دیتے وہیں ایسے قوانین کا بھی فقدان ہے کہ جو سوشل میڈیا کمپنیوں کو ناپسندیدہ مواد ہٹانے اور عام شہریوں کی شکایات دور کرنے کا پابند بنائیں۔


اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دور جدید میں لڑی جانے والی جنگوں کا ایک موثر ہتھیار سوشل میڈیا ہے، پاکستان مخالف طاقتیں منفی پروپیگنڈہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے جعلی خبریں پھیلا کر پاکستانی عوام میں مسلسل مایوسی اور انتشار کی کیفیت پھیلانے میں مصروف عمل ہیں ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا  کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کی طرف سے قومی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے سیاسی کارکنوں کی تربیت کی جاتی اور پاکستان مخالف قوتوں کے خلاف صف آرا ہو کر اس ہتھیار کو دشمن کے خلاف استعمال کرنے کے ساتھ نوجوان نسل کی صلاحیتوں اور وقت کو بامقصد استعمال کرنے میں بھی کردار ادا کیا جاتا مگر اس سنجیدہ معاملے میں سیاسی قیادت کی خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے جبکہ ٹوئیٹر پر آئے روز گالم گلوچ والے ہیش ٹیگز کی بھرمار سے ملک دشمن طاقتوں کے خلاف قومی بیانیہ کی تشہیر بھی ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔


پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے گالم گلوچ کی روایت جس تیزی سے پھیل رہی ہے اب ضروری ہوچکا ہے کہ حکومت کی طرف سے قانون سازی کرکے کچھ حدود متعین کی جائیں اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھی ان قوانین پر عملدرآمد کرنے کا پابند بنایا جائے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اور گالم گلوچ اور نفرت انگیز مواد کی تشہیر کا یہ سلسلہ معاشرے کی جڑوں میں سرایت کرجائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :