بلا عنوان

جمعرات 5 نومبر 2020

Muzamil Shafique

مزمل شفیق

سردی زوروں کی اور میٹرک کے اختتامی امتحانات۔ ہر طرف شوروغل بچوں کے چہروں پر ایک الگ سی مسکراہٹ  چھائی ہوئی کیوں کہ برخورداروں نے 13 سالہ اسکول کی تعلیم مکمل کی ہے۔ہر طرف طالب  علموں کی کثیر تعداد  گپ شپ میں مشغول ،کوئی ریڑھی  سے سموسے کھا رہا ہے، کوئی دوستوں کو امتحان میں دیے گئے سوالات سے آگاہ کر رہا ہے۔ہر طرف عید کا سماں دکھائی دے رہا ہے۔

اسی کشمکش میں میری توجہ ایک طالب علم کی جانب مرکوز ہوئی جو بڑی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے۔وہ ماحول سے بالکل   بےخبر بیٹھا ہےاس کے چہرے پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئےہیں۔۔۔
میں حیران کن انداز میں  اس طالب علم کی جانب بڑھا اور خیریت دریافت کی۔ گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا علم ہوا کہ یہ طالب علم نہ تو کسی گھریلو پریشانی میں مبتلا ہے اور نہ ہی اس کی طبیعت ناساز ہے بلکہ اس کو ایک ایسے معاملے نے گہری سوچ میں مبتلا  کر رکھا ہے جس کا حل اس کے اپنے دماغ میں بھی نہیں آرہا۔

(جاری ہے)

پرزور اصرار کے بعد جب میں نے تھوڑا کھل کر بات کی اور اس کو  اپنے اعتماد میں لیا تو پھر میں مدعا تک پہنچنے لگا اور پھر وہ سناتا رہا اور میں سنتا رہا۔
 وہ کہنے لگا آج تک میرے والدین نے جیسے تیسے کر کے  میرے تعلیمی اخراجات کو برداشت کیا اور میری اسکول کی تعلیم کو میرے کندھے پر ہاتھ رکھے بلند حوصلوں سے مکمل کروایا۔ لیکن اب میں نے زندگی میں آگے بڑھنا ہے اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے مزید تعلیم کے متعلق قدم اٹھانے ہیں لیکن میری اصل پریشانی یہ نہیں کہ میں آگے کیسے تعلیم حاصل  کروں گابلکہ مجھے اس چیز کی پریشانی نے گھیرا ہوا ہے کہ میری راہنمائی کون کرے گا ؟میں نے آگے بڑھنا ہے لیکن مجھے آگے بڑھانے والا کوئی نہیں ہے۔


 مجھے یہ معلوم نہیں ہو رہا کہ میں نے آگے کیا کیا پڑھنا ہے اس کی کہانی مکمل طور پر سننے کے بعد  میں نماز ادا کرنے کیلئے قریبی مسجد میں چلا گیا۔ نماز ادا کرنے کے بعد جب میں باہر نکلا تو اس طالب علم کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا ارد گرد کا جائزہ لینے کے بعد میں اپنے گھر کو روانہ ہو گیا ۔
کچھ عرصہ بعد میری ایک غیر متوقع ملاقات اس ہی طالب علم سے ہوئی لیکن وہ کالج کی وردی میں ملبوس تھا اور کالج کی جانب گامزن تھا کیونکہ وقت نکلا جارہا تھا ۔

اسی اثناء میں مکمل بات نہ کر سکا لیکن اپنا نمبر مجھے تھما گیا۔ میں نے اس سے نمبر کی پرچی لے کر اپنی جیب میں رکھ لی۔ بس جاتے ہوئے اتنی آواز سنائی دی کہ "کال  ضرور کیجئے گا آپ کو کچھ بتانا ہے۔"
میں مکمل طور پر حیرت میں مبتلا ہوگیا کہ آخر ماجرا کیا ہے ؟ وہ کیا مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے شام کو جب میں اپنی تمام تر مصروفیات سے فارغ ہوا تو سوچا کیوں نہ طالب علم کو کال کی جائے۔

یہی سوچتے ہوئے میں نے اپنا موبائل نکالا اور کال ملا ڈالی۔ کچھ ہی سیکنڈ کے بعد کال اٹھائی گئی۔ میں نے بڑی پریشانی کے عالم میں فون اٹھانے والے کو اپنا تعارف کروایا کیونکہ مجھے  طالب علم کا نام تک نہیں آتا۔خیر قدرت نےساتھ دیا اور وہ خوش قسمتی سے طالب علم ہی نکلا اور اس نے مجھے پہچان لیا۔ میں نے خیریت دریافت کی اور پوچھا کہ  ایسی کیا بات کرنی تھی آپ نے؟ اس نے بڑے نرم انداز میں آغاز کیا اور کہنے لگا کہ مجھے وہ دن یاد ہے  جس دن آپ  مجھے ملے تھے ۔

لیکن اس موقع پر وقت کی کمی کی وجہ سے آپ میری پریشانی مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے تھے۔اور اب میں اس پریشانی سے نکل چکا ہوں۔ سوچا کیوں نہ آپ کو اب مکمل صورت حال سے آگاہ کروں۔ میں نے مکمل طور پر اس کہانی کو سننے کی حامی بھری۔ اس نے بتایا کہ آپ سے ملاقات امتحانات کے اختتام پر ہوئی اور میں نے اگلے ہی دن اپنے مستقبل کو سوچتے ہوئے مختلف سوچ و فکر کے لوگوں سے ملاقات کرنی شروع کر دی۔

لیکن خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا کوئی ڈپلومہ کرنے کا بولے، کوئی انجینئرنگ کرنے کا اور کوئی آئی- سی- ایس کرنے پر زور دے میرا بھی پہلا موقع تھا تمام لوگوں نے  خوب فائدہ اٹھایا اور مجھے شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ پھر دن رات سوچنے کے بعد  میں نے انجینئرنگ کرنے کی ٹھان لی لیکن پھر بھی میرے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ  منتظر تھا کہ کس تعلیمی ادارے میں داخلہ لوں۔

کچھ لوگ پرائیویٹ اداروں کے حق میں نظر  آئے اور کچھ سرکاری  اداروں کے حق میں لیکن زیادہ سرکاری اداروں میں داخلہ لینے کو فضول کہہ کر چلے جاتے لیکن میں نے لوگوں کی باتوں کو سن کر بھی سرکاری کالج میں داخلہ لینے کے لیے تیار ہوگیا۔ سب کہنے لگے کوئی استاد نہیں  آتا اور  نہ ہی نہیں  کچھ پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن میں نے قدرت پر توکل کرتے ہوئے قدم اٹھا لیا اور شکر ہے میں نے جو کچھ سنا تھا سب کچھ غلط ثابت ہوا اور مجھے فخر ہے کہ میں ایک سرکاری ادارے میں زیر تعلیم ہوں اور کامیابی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف گامزن ہوں ۔

مجھے فخر ہے کہ سرکاری کالج میں پروفیسر مجاہد،پروفیسر اصغر،  پروفیسر زبیر،پروفیسر جبار ،پروفیسر فرخ، پروفیسر شہباز اور پروفیسر طاہر جیسی عظیم شخصیات مستقبل کے معماروں کو بہتر انداز میں تراش کہ مستقبل کو روشن بنانے میں ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ آپ سے بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے چھوٹے بھائی نے بھی میٹرک کے امتحانات دے دیے ہیں اور اب اس  کا کالج میں داخل ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے اور مجھے اس کا  علم ہے کہ وہ بھی ایسے ہی پریشان ہوگا۔ تو اس کو بھی لوگوں کی باتوں میں آکر پرائیویٹ کالج میں نہیں بلکہ سرکاری کالج میں داخل کروانا ہے۔ یہ سب سنتے ہی بیلنس ختم ہوا اور کال کٹ گئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :