بورڈ کے طلبہ و طالبات کا مستقبل خطرے میں

بدھ 28 اپریل 2021

Muzamil Shafique

مزمل شفیق

کورونا وائرس نے جیسے ہی ملک پاکستان میں قدم رکھا تو جدھر ایک دیہاڑی دار مزدور طبقہ متاثر ہوا وہیں بڑی کاروباری شخصیات اس کے شکنجے میں آئیں اور اس دوران ہی ایک ایسا طبقہ شدید متاثر ہوا جس کی آواز کوئی نہ بن سکا۔کورونا کی پہلی لہر ہو،،دوسری ہو یا تیسری، بار بار شدید نقصان اٹھانے والا یہ طبقہ اب حکومت کی جانب اپنی نظریں جمابیٹھا ہے ؟لیکن تا حال کسی بھی حکومتی نمائندے نے عملی طور پر کسی قسم کا کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی اس مسئلے کے حل کیلئے سنجیدہ ہیں۔


یہ طبقہ کوئی کاروبار نہیں کرتا کہ آج اگر کاروبار متاثر ہوا تو کچھ عرصے بعد واپس حالات ٹھیک ہونے کے ساتھ ہی وہ اپنے کاروبار کو واپس کھڑا کر لیں گے بلکہ یہ طبقہ مستقبل کے معماروں کا ہے جنہوں نے کل ملک کو سنبھالنا ہے کسی نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرکے قوم کا مسیحا بن کر مریضوں کا علاج کرنا ہے، کسی نے انجینئر بن کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے،کسی نے کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرکے سافٹ وئیر کی دنیا میں انقلاب لانا ہے، کسی نے معاشیات پڑھ کر ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنا ہے اور کسی نے سرکاری اداروں میں اپنی خدمات فراہم کرکے ملک کو مزید مستحکم بنانا ہے لیکن افسوس حکومتی ناقص منصوبہ بندیاں اور پالیسیاں اس طبقے کو شدید متاثر کر رہی ہیں جس کی وجہ سے روشن مستقبل اب بدقسمتی سے تاریکیوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔

(جاری ہے)


عام حالات میں اگر ہفتہ اور اتوار دو دن چھٹیاں گزر جاتیں تو پیر والے دن بچے سوچ میں مبتلا ہوتے کہ کہاں تک پڑھا تھا۔اب تو طالب علموں کو لمبی چھٹیاں دی گئی اور پھر جب طالب علموں کیلئے 4 مہینے کیلئے تعلیمی اداروں کے دروازے کھولے گئے جس میں ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے طالب علم ایک دن چھوڑ کر ایک دن فزیکل کلاس سے مستفید ہو سکتے تھے۔ یعنی ان 4 ماہ میں بھی صرف 2 مہینے طالب تعلیم حاصل کر سکے اور پھر اب کورونا کی تیسری لہر نے قدم رکھا تو تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کے لئے دوبارہ بند کر دیے گئے۔


اس مشکل وقت میں مشکل فیصلے سمجھے جا سکتے ہیں لیکن تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے طالب علموں کے حق میں سوچنا اور ان کی جان اور مستقبل کو محفوظ بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔لیکن افسوس صد افسوس ایسا کچھ اب تک نہ ہو سکا۔چھٹیوں پر چھٹیاں تو دی گئیں، لیکن امتحانات کے بارے میں کسی نے نہ سوچا۔ اب حالات اتنے نازک ہو چکے ہیں کہ امتحانات سر پر ہیں اور 2 ماہ پڑھ کر جس میں نصاب مکمل کرنا نا ممکن تھا جو کہ ہو بھی نہ سکا لیکن امتحانات کی تاریخ میں ردو بدل، منسوخی یا پیپر پیٹرن میں تبدیلی ایسا کچھ بھی اب تک نہ ہوسکا۔

اس کا ذمہ دار آخر کون ہے؟ وہ طالب علم جنہوں نے لاکھوں روپے نجی تعلیمی اداروں کو دیے،صرف تعلیم حاصل کرنے کیلئے؟ وہ طالب علم جن کے حالات اور وسائل نہیں تھے لیکن انہوں نے پڑھائی جاری رکھی اپنے مستقبل کی خاطر؟ وہ طالب علم جنہوں نے اپنے روشن مستقبل کا ایک مکمل خاکہ اپنے ذہن میں بنا رکھا تھا اعلی عہدوں پر فائز ہونے کیلئے؟ وہ طالب علم جن سے والدین کی لاکھوں امیدیں وابستہ ہیں کہ اولاد پڑھ لکھ کر ہمارا سہارا بنے گی؟ جواب صرف اور صرف نہیں ہے۔

ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو اے سی والے کمروں میں بیٹھ کر سیکریٹریز کی باتیں مانتے ہیں۔ اگر سیکریٹریز کی جانب سے کوا سفید بتایا جائے تو وہ بھی مکمل خود اعتمادی کے ساتھ تسلیم کر لیا جائے گا، لیکن اگر حقائق کو دیکھا جائے تو وہ اس کے برعکس نکلتے ہیں۔ ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کو سن کر ایک بار بندہ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ایک عام سی بات ہے کہ 2 ماہ پڑھ کر سالانہ امتحانات دینا کیسے ممکن ہے؟ میٹرک کے طالب ہوں خواہ انٹرمیڈیٹ کے، مستقبل تو سب کا داؤ پر لگا ہے اور حکومت تاحال اس بات پر قائم ہے کہ ہم امتحانات لیں گے۔


ایک جانب کورونا کی بگڑتی صورتحال جہاں تعلیمی اداروں میں صرف فوٹو سیشن تک ایس او پیز پر عمل ہوتا ہے، جہاں لاکھوں طالب علموں کی جان اور ان سے منسلک ان کے خاندان کی جان کی ضمانت کوئی لینے کو تیار نہیں تو پھر کون اور کیوں اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالے؟پھرامتحانات لینا ایک عجیب معاملہ ہے۔بیشتر طالب علموں نے انصاف کے حصول کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، کچھ نے اپنے مستقبل کی خاطر احتجاج ریکارڈ کروایا،کچھ نے سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی آواز بلند کی لیکن کوئی سننے والا سامنے نہ آیا۔


ملک پاکستان میں بڑی تعداد نوجوان نسل کی ہے اگر اس نوجوان نسل کے مستقبل کو اور جان کو محفوظ نہ بنایا گیا تو کون ذمہ دار ہوگا؟
بیشتر تعلیمی اداروں کے طالب علموں سے ملاقات ہوئی جو معروف نجی و سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کر رہے تھے پڑھنے والے بچے سے نالائق بچے تک سب سے ان کے مسائل پہ بات ہوئی اور معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ نہ پڑھنے والوں کا نہیں بلکہ تمام طالب علموں کا ہے جو کہ ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے۔

آخر کیوں حکومت وقت اس سنجیدہ مسئلے کو نظر انداز کر رہی ہے؟ کیوں ملک کے روشن مستقبل کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر رہی ہے؟ کیا ہر بات اعلی حکام کے نوٹس میں لانے کیلئے احتجاج لازم و ملزوم ہوتا ہے؟
وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خان صاحب اس بات کا نوٹس لیں اور وفاقی وزیر تعلیم اور تمام صوبائی وزراء تعلیم اس معاملے پر نظر ثانی کریں جس سے تمام طالب علموں کا تعلیمی سال بچ جائے اور جان بھی محفوظ ہو جائے تا کہ وباء کے گزرنے کے ساتھ ہی بغیر کسی نقصان کہ وہ آگے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں۔


اور اگر امتحانات لینے ہیں تو پہلے نصاب مکمل کروا کر تیاری کروائی جائے اور پھر بچوں کی جان اور ان سے منسلک ان کے خاندان کی جان کاذمہ حکومت اوقت اٹھائے جس سے طالب علم بھی مطمئن ہوسکیں اور بلا خوف و خطر وہ نصاب مکمل کرنے کے بعد تیاری کے ساتھ امتحانات دے سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :