کل اور آج

بدھ 5 جنوری 2022

Muzamil Shafique

مزمل شفیق

وقت کتنا بدل گیا ہے کبھی سب مل بیٹھ کہ آپس میں دکھ سکھ کی باتیں کرتے تھے۔ایک دوسرے کے غموں اور خوشیوں میں برابر شریک ہوتے تھے۔زندگی کی جتنی بھی مصروفیات ہوں لیکن آپس میں بیٹھ کر مسائل کا حل اور خوشیوں کو بانٹتے تھے۔بزرگوں کی نگرانی میں گھریلو مسائل کا حل ڈھونڈا جاتا تھا خوش خوشحال زندگی تھی اخوت اور بھائی چارے کی فضا قائم تھی۔


لیکن وقت بدلتا گیا ٹیکنالوجی کے دور نے ہماری اقدار، ہماری روایات اور ہماری ثقافت پر قبضہ کرکے ہمیں ہمارے ساتھ بیٹھے شخص سے اتنا بے خبر بنا دیا ہے کہ اس کی زندگی اور موت کا علم ہی نہیں اور ماحول سے لاتعلق کر دیا ہے ۔
میں اس بات کو سوچ سوچ کر حیرانگی اور کبھی تو پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہوں کہ ہمیں کس سمت پر گامزن کر دیا گیا ہے؟ جدید دور میں  بظاہر نظر آنے والا شخص  ایک خودمختار تو ضرور نظر آتا ہے لیکن اس کے تمام فیصلے وہ خود نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کرتی ہے۔

(جاری ہے)

اس نے اگر کچھ کھانا ہے تو موبائل کا سہارا ضروری ہے ،کچھ خریدنا ہے تو بھی موبائل کا ہونا لازمی ہے حتی کہ کہیں جانا ہے تو پھر بھی موبائل کا محتاج کر دیا گیا ہے۔ جہاں ہم سارے کام اپنے بل بوتے پر کرتے تھے اب وہ سب ٹیکنالوجی سرانجام دیتی ہے۔
جی ہاں جدھر ہم صبح آذان کی آواز سن کر اٹھتے تھے ادھر صبح موبائل کی ٹن ٹن صبح صبح ہمارا استقبال کرتی ہے۔

جدھر مریض کی عیادت کیلئے جانا پڑتا تھا ادھر اب موبائل کے ایک میسج سے یہ ذمہ داری بخوبی پوری ہو جاتی ہے۔
عید،رمضان یا کسی بھی خوشی کے موقعوں کی اطلاع یا مبارکباد دینی ہو تو اب خط نہیں  بلکہ موبائل کے ایک میسج نے سب کام کر ڈالا ہے۔
پہلے زمانے میں آسائشیں کم ہوتی تھیں مشینری اور وسائل بھی محدود تھیں ہر کام انسان کو خود کرنا پڑتا تھا لیکن پھر بھی اتنی مصروف زندگی کے باوجود لوگ ایک دوسرے کو وقت دیتے تھے ایک دوسرے کے  کندھے سے کندھا ملا کر صف اول میں نظر آتے تھے۔

جہاں مشینری نے ہماری زندگی میں اپنی جگہ بنا لی ہے وہاں ہمیں اب نہ ہی زیادہ کام کرنا پڑتا ہے نہ ہی پہلی جیسی محنت کرنی پڑتی ہے لیکن اب ہمیں اتنی آسائشوں کے باوجود بھی وقت نہیں ملتا جس میں ہم رشتوں کا اصل حق ادا کر سکیں ۔ پہلے رشتہ دار دور ہوتے تھے لیکن دل قریب ہوتے تھے لیکن اب سب ایک فون کال کی دوری پر ہیں لیکن رشتوں میں وہ مٹھاس وہ خلوص نہیں رہا۔


پہلے کسی  اجنبی زخمی یا پریشان حال کو دیکھ کر بلا کسی لالچ کے مدد کی جاتی تھی لیکن اب مدد کرنے والے کم اور تصویر بنانے والے زیادہ نظر آتے ہیں اور ایک المیہ جس کو سوچ کہہ دل خون کا آنسو روتا ہے  کہ سڑک پر تڑپتے شخص کی جان بچانے سے زیادہ اس کی سڑک پر بکھری قیمتی اشیاء پر گہری نظر ہوتی ہےاور موقع ملتے ہی ان پر ہاتھ صاف کر لیا جاتاہے۔


بحیثیت قوم ہم بظاہر  ترقی کر رہے ہیں ہم اعلی ڈگریوں کو تو ضرور حاصل کر رہے ہیں اور اعلی عہدوں پر فائز بھی ہو رہے لیکن اب ہمارا ضمیر مر چکا ہے ،دل پتھر کے ہو چکے ہیں اور زبان بے قابو ہوچکی ہے یعنی ہم  میں انسانیت کی کمی آچکی ہے۔
اگر ہماری فلم انڈسٹری ترقی کر رہی ہے تو اتنی ہی بے حیائی عروج پر آ رہی ہے ہم جہاں بچوں کو تربیت کیلئے بھیجتے ہیں وہیں سے ہی ہمارے جوان بد تہذیب اور بد اخلاق ہو کہ نکل رہے ہیں۔


یہاں تک ہی نہیں ہماری ثقافت ہماری روایات شائد ہمیں پسند نہیں کیونکہ  ہماری ڈی جے نائٹس اور نائٹ کلبز میں لوگوں کا جم غفیر ہوتا ہے اس کے مقابلے میں اسلامی، ادبی تقاریب میں لوگ نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ پہلےلوگ دور دور سے کسی علمی اور ادبی شخصیت سے ملنے کیلئے بے تابی سے انتظار کرتے تھے اور پھر ان سے مل کر کچھ سیکھ کر اس پر نہ صرف عمل کرتے تھے بلکہ  اس قیمتی معلومات کو محروم لوگوں تک پہنچاتے تھے۔

لیکن اب ناچنے کے لئے بلائے جانے والے عجوبوں کو دیکھنے کیلئے لوگ دور دور سے بن بلائے پہنچ جاتے ہیں ۔پہلے پیسے  جسم  چھپانے کیلئے دیے جاتے تھے لیکن اب اس ہی پیسے کو دیکھ کر جسم فروشی کی جاتی ہے۔
جدھر پہلے ہماری ضروریات بھی زیادہ ہوتی تھیں اور آمدنی بھی مختصر ہوتی تھی لیکن وقت بڑا اچھے سے گزرتا تھا لیکن اب آمدنی  دو گنا بڑھنے کے باوجود ہم اپنی زندگیوں سے پریشان ہیں۔


میں نے بزرگوں سے سنا تھا کہ پہلے گھر میں تھوڑی چیز لائی جاتی تھی اور اس میں اتنی برکت ہوتی  تھی کہ سب اس سے مستفید ہوتے تھے لیکن اب جتنا مرضی زیادہ سامان لایا جائے پر اس میں برکت ختم ہو چکی ہے !
سوچنا صرف اتنا ہے کہ ہم نے کون سے ایسے اصولوں کو نظر انداز کر دیا جس سے نہ صرف ہماری زندگیوں سے خوشی، خلوص مکمل ختم ہو گیا بلکہ ہمیں اپنے اصل خونی رشتوں  کی پہچان  سے بھی  دور کر دیا گیا ہے جس بنا پر اب ہمارے خون بھی سفید ہو گئے اور بھائی بھائی سے لڑ رہا ہےکیونکہ ہمیں پیسے کا پجاری بنا دیا گیا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :