
ماؤزے تُنگ سے ماماقدیر بلوچ تک
اتوار 23 فروری 2014

نبی بیگ یونس
ماؤزے تنگ کی قیادت میں چین کی آزادی کیلئے لانگ مارچ17اکتوبر1934کو شروع ہوا جو 370دن جاری رہا۔ اس عرصے کے دوران آزادی کے جذبے سے سرشار اس قافلے نے 10ہزار کلو میٹر کا طویل فاصلہ طے کیا۔ ماؤزے تُنگ نے کمیونسٹ آرمی جس کو ریڈ آرمی بھی کہا جاتا تھا کی قیادت کرتے ہوئے اپنی مخالف افواج کا گھیرا ؤ توڑ کر لانگ مارچ شروع کیا۔ لانگ مارچ کا آغاز 85ہزار سپاہیوں اور کمیونسٹ پارٹی کے پندرہ ہزار کارکنوں نے فوجیوں کی طرف سے لگائی جانے والی تمام رکاوٹوں کو بلا خطر توڑ کر لانگ مارچ کا آغاز کردیا۔
(جاری ہے)
تاریخ کا دوسرا لانگ مارچ بھارت میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں 12مارچ1930کوشروع ہوا۔ لانگ مارچ کا دورانیہ 12مارچ سے6اپریل تک تھا اور اس دوران مہاتما گاندھی اور انکے ساتھیوں نے390کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ مارچ کا مقصد سمندری پانی سے دیسی نمک بنانا تھا۔ برطانوی قانون کے مطابق نمک بنانا غیر قانونی تھاکیونکہ1882کےBritish Salt Actکے مطابق بھارتی اس بات کے پابند تھے کہ وہ نمک برطانوی حکومت سے ہی خریدیں۔ گاندھی جی نے بھارت میں برطانوی وائس رائے Lord E.F.L. Woodکو خط میں مطالبہ کیا تھا کہ وہ نمک، زمین اور دیگر ضروری اشیاء سے ٹیکس کا خاتمہ کرادیں تاہم وائس رائے نے خط کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا، جس پر گاندھی جی نے
اپنے لوگوں سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ"On bended knees i asked for bread and i have received stone instead"یعنی میں نے جھک کر روٹی مانگی لیکن بدلے میں مجھے پتھر ملے۔ بالآخر گاندھی جی نے اپنے حامیوں کے ہمراہ چھ مئی 1930کو سمندر کا پانی خشک کر کے نمک بنایا۔ گاندھی جی اور اس کے کئی ساتھیوں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن یہی لانگ مارچ بھارت کی آزادی کا سبب بھی بنا اور انگریزوں کو بھارت سے راہ فرار اختیار کرنا پڑا۔
اب ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے اہل خانہ بھی پاکستان میں لانگ مارچ میں مصروف عمل ہیں۔ ان لوگوں نے لانگ مارچ27اکتوبر2013کو کوئٹہ سے شروع کیا اور کراچی پہنچے ، اب وہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لانگ مارچ کے قافلے میں نہ صرف بزرگ بلکہ بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جن کے پاؤں میں چلتے ہوئے چھالے پڑے ہیں۔ کسی بزرگ کا بیٹا لاپتہ ہے، کسی خاتون کا شوہر اور کسی معصوم بچے کا والداس سے چھین لیا گیا ہے۔ یہ لوگ اپنے پیاروں کے لاپتہ ہونے کا غم لیکر اپنے گھروں سے نکلے اور کسی چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ارباب اختیار سے یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ انکے پیاروں کو بحفاظت بازیاب کیا جائے، یا کم سے کم انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرسکیں۔ دل میں اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم، ہاتھوں میں انکی تصاویر اور زبان پر "ہمارے پیاروں کو بازیاب کرو"کے نعرے لگانے والے یہ بے بس لوگ پاکستانی محب وطن ہیں، اور اپنی ہی حکومت اور اپنے ہی حکمرانوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ انکے پیاروں کو بازیاب کیا جائے۔ کسی شخص کو بغیر مقدمہ چلائے 24گھنٹے سے زیادہ دیر تک جیل میں رکھنا قانوناً جرم ہے۔ اگر یہ لوگ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث رہے ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہئے اگر نہیں تو انہیں غائب کرنا اخلاقاً اور قانوناً غلط ہے۔
آج 22فروری 2014بروز ہفتہ جب میں یہ کالم رقم کررہا ہوں تو ماما قدیر بلوچ کی سربراہی میں بلوچستان سے لاپتہ ہونے والوں کے رشتہ داروں کا یہ قافلہ پنجاب کا علاقہ جہلم کراس کرچکاہے اور چند روز میں اسلام آباد میں داخل ہوجائیں گے جہاں یہ انصاف کے حصول کیلئے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور پارلیمنٹ کے سامنے ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑے ڈٹے رہیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
نبی بیگ یونس کے کالمز
-
سچا جھوٹ
جمعہ 29 نومبر 2019
-
وزیراعظم کا کیا قصور؟
ہفتہ 15 جون 2019
-
شہید پاکستانی
جمعہ 22 مارچ 2019
-
نیا پاکستان
اتوار 5 اگست 2018
-
حامد میر سے شجاعت بخاری تک
منگل 19 جون 2018
-
سپائی کرونیکلز اورسابق جاسوس سربراہان
جمعہ 8 جون 2018
-
ایسے تو نہیں چلے گا
جمعہ 10 فروری 2017
-
چوہے اور جیو نیوز
ہفتہ 5 نومبر 2016
نبی بیگ یونس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.