ماؤزے تُنگ سے ماماقدیر بلوچ تک

اتوار 23 فروری 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ لانگ مارچ ہمیشہ انقلاب کا باعث بنا۔ جب کوئی قوم ارباب اقتدار کے سامنے بے بس ہوجائے تو وہ لانگ مارچ کا ہی سہارا لیتی ہے۔ چین کے بابائے قوم ماؤزے تُنگ اور بھارت کے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بھی لانگ مارچ کے باعث ہی اپنی قوموں کوآزادی سے ہمکنار کیا۔
ماؤزے تنگ کی قیادت میں چین کی آزادی کیلئے لانگ مارچ17اکتوبر1934کو شروع ہوا جو 370دن جاری رہا۔

اس عرصے کے دوران آزادی کے جذبے سے سرشار اس قافلے نے 10ہزار کلو میٹر کا طویل فاصلہ طے کیا۔ ماؤزے تُنگ نے کمیونسٹ آرمی جس کو ریڈ آرمی بھی کہا جاتا تھا کی قیادت کرتے ہوئے اپنی مخالف افواج کا گھیرا ؤ توڑ کر لانگ مارچ شروع کیا۔ لانگ مارچ کا آغاز 85ہزار سپاہیوں اور کمیونسٹ پارٹی کے پندرہ ہزار کارکنوں نے فوجیوں کی طرف سے لگائی جانے والی تمام رکاوٹوں کو بلا خطر توڑ کر لانگ مارچ کا آغاز کردیا۔

(جاری ہے)

لانگ مارچ میں شریک خواتین، بچوں اور بزرگوں کو پیچھے چھوڑا گیاتھالیکن انہیں بے رحم مخالف فوج نے قتل کردیا۔ تقریباً ایک لاکھ افراد پر مشتمل قافلے کی قیادت کرتے ہوئے ماؤزے تُنگ نے استعماری فوج کے خلاف لڑتے ہوئے ہدف حاصل کرلیا ۔ماؤزے تنگ اور انکے ساتھیوں کو لانگ مارچ کے دوران صحرا، دریا، جنگلات اور دیگر پر خطر راستوں سے گزرنا پڑا اور ہزاروں ساتھیوں کی جانوں کی قربانی دینا پڑی۔

ماؤزے تُنگ کا یہ لانگ مارچ چین کی آزادی کا سبب بنا۔ ریڈ آرمی کے 45ہزار جوان لڑائی کے دوران مارے گئے جو لڑاکا فورس کا تقریباً پچاس فیصد حصہ تھا، جبکہ کئی راستے میں مرگئے، ماؤزے تُنگ جب اپنی منزل پر پہنچے تو ان کے ساتھ صرف 10ہزار ساتھی زندہ بچے تھے۔ ماؤزے تُنگ نے تاریخ کے سب سے بڑے لانگ مارچ کے دوران اپنی قوم کو ہدایت کی تھی کہ وہ لانگ مارچ کے دوران چنے اور گرم پانی ساتھ رکھیں۔

چنے کھانے سے بھوک ختم ہوجائے گی اور گرم پانی پیٹ کی بیماریوں سے بچائے گا۔
تاریخ کا دوسرا لانگ مارچ بھارت میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں 12مارچ1930کوشروع ہوا۔ لانگ مارچ کا دورانیہ 12مارچ سے6اپریل تک تھا اور اس دوران مہاتما گاندھی اور انکے ساتھیوں نے390کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ مارچ کا مقصد سمندری پانی سے دیسی نمک بنانا تھا۔ برطانوی قانون کے مطابق نمک بنانا غیر قانونی تھاکیونکہ1882کےBritish Salt Actکے مطابق بھارتی اس بات کے پابند تھے کہ وہ نمک برطانوی حکومت سے ہی خریدیں۔

گاندھی جی نے بھارت میں برطانوی وائس رائے Lord E.F.L. Woodکو خط میں مطالبہ کیا تھا کہ وہ نمک، زمین اور دیگر ضروری اشیاء سے ٹیکس کا خاتمہ کرادیں تاہم وائس رائے نے خط کا جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا، جس پر گاندھی جی نے
اپنے لوگوں سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ"On bended knees i asked for bread and i have received stone instead"یعنی میں نے جھک کر روٹی مانگی لیکن بدلے میں مجھے پتھر ملے۔

بالآخر گاندھی جی نے اپنے حامیوں کے ہمراہ چھ مئی 1930کو سمندر کا پانی خشک کر کے نمک بنایا۔ گاندھی جی اور اس کے کئی ساتھیوں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن یہی لانگ مارچ بھارت کی آزادی کا سبب بھی بنا اور انگریزوں کو بھارت سے راہ فرار اختیار کرنا پڑا۔
اب ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے اہل خانہ بھی پاکستان میں لانگ مارچ میں مصروف عمل ہیں۔

ان لوگوں نے لانگ مارچ27اکتوبر2013کو کوئٹہ سے شروع کیا اور کراچی پہنچے ، اب وہ پنجاب کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لانگ مارچ کے قافلے میں نہ صرف بزرگ بلکہ بچے اور خواتین بھی شامل ہیں جن کے پاؤں میں چلتے ہوئے چھالے پڑے ہیں۔ کسی بزرگ کا بیٹا لاپتہ ہے، کسی خاتون کا شوہر اور کسی معصوم بچے کا والداس سے چھین لیا گیا ہے۔

یہ لوگ اپنے پیاروں کے لاپتہ ہونے کا غم لیکر اپنے گھروں سے نکلے اور کسی چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ارباب اختیار سے یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ انکے پیاروں کو بحفاظت بازیاب کیا جائے، یا کم سے کم انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کرسکیں۔ دل میں اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم، ہاتھوں میں انکی تصاویر اور زبان پر "ہمارے پیاروں کو بازیاب کرو"کے نعرے لگانے والے یہ بے بس لوگ پاکستانی محب وطن ہیں، اور اپنی ہی حکومت اور اپنے ہی حکمرانوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ انکے پیاروں کو بازیاب کیا جائے۔

کسی شخص کو بغیر مقدمہ چلائے 24گھنٹے سے زیادہ دیر تک جیل میں رکھنا قانوناً جرم ہے۔ اگر یہ لوگ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث رہے ہیں تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہئے اگر نہیں تو انہیں غائب کرنا اخلاقاً اور قانوناً غلط ہے۔
آج 22فروری 2014بروز ہفتہ جب میں یہ کالم رقم کررہا ہوں تو ماما قدیر بلوچ کی سربراہی میں بلوچستان سے لاپتہ ہونے والوں کے رشتہ داروں کا یہ قافلہ پنجاب کا علاقہ جہلم کراس کرچکاہے اور چند روز میں اسلام آباد میں داخل ہوجائیں گے جہاں یہ انصاف کے حصول کیلئے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور پارلیمنٹ کے سامنے ایک سوالیہ نشان بن کر کھڑے ڈٹے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :