ہماری پاکستانیت

پیر 10 مارچ 2014

Nabi Baig Younas

نبی بیگ یونس

ٹیلی ویژن سکرینوں اور اخبارات کی شہ سرخیوں میں شائع ہونے والی یکے بعد دیگرے دو دلسوز خبرں نے میرے دل میں ایک ایسا کہرام مچا دیا کہ ان خبروں کے نقوش ہمیشہ کیلئے میرے دل و دماغ میں نقش ہوکر رہ گئے۔ پہلی خبر پنجاب کے دارلحکومت لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن سے تھی جہاں ایک ماں نے غربت سے تنگ آکر اپنے دو شیرخوار پھول جیسے بچوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے موت کی نیند سلادیا۔

خبر منظر عام پر آتے ہی بحث کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ کچھ لوگ ماں کو قصوروار ٹھہرا کر اس کو برا بھلا کہتے رہے، کچھ خاتون کے شوہر کو کوستے رہے، بلکہ بعض نے تو حد کی انتہاکردی اور کہا کہ خاتون کا ضرور کوئی لوافیئر ہوگا اور بچوں کو رکاوٹ سمجھ کر اپنے محبوب کو حاصل کرنے کیلئے انہیں اپنے راستے سے ہمیشہ کیلئے ہٹا دیا۔

(جاری ہے)

یہ تبصرے ایسے لوگوں کے ہیں جو اپنے پیٹ کو کھانے سے بھرنے کے بعد اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر لیپ ٹاپ پر حالات کو اپنی ناقص عینک سے دیکھتے رہے۔

دراصل ہم انسان ہیں، ہم کسی بھی قسم کی صورتحال کا اس وقت تک صحیح ادراک نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم خود ایسی صورتحال سے نہ گزریں، ایسے ہی جیسے ایئر کنڈیشن کمرے میں مزے لینے والے شخص کو اس کی سمجھ نہیں ہوتی کہ باہر کتنی گرمی ہے، اور پیٹ بھر کر سونے والے کو اس بات کا ادراک نہیں ہوتا کہ بھوکا سونے والے پر کیا گزرتی ہوگی۔ بھئی میری جیب گرم ہو تو مجھے لگتا ہے دنیا میں کوئی غریب نہیں ہے اور سب اچھا ہے، کسی بھکاری کو دیکھوں تو دل میں پہلا خیال یہی آتا ہے کہ کسی ایجنسی کا ایجنٹ ہے لیکن جب میری جیب خالی ہو تو مجھے زندگی بیکار لگتی ہے، ہر چیز پھیکی لگنے لگتی ہے اور زندگی بے مقصد سی لگتی ہے۔

ایک ماں کو شائد اپنی بھوک برداشت ہوسکتی ہے لیکن بچوں کا آنکھوں کے سامنے تڑپنا کسی صورت برداشت نہیں ہوسکتا۔شائد اسی لئے بسما نے سوچا کہ تڑپیں تو ایک ہی بار تڑپیں گے لیکن ہمیشہ کیلئے سکون سے ایسی دنیا میں چلے جائیں گے جہاں انہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں۔ خود وہ تڑپتی رہے گی شائد اسکی قسمت میں یہی کچھ لکھا تھا۔ بسما کے ہاتھوں اس کے دو کم سن بچوں کے قتل کی خبریں سنتے اور پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں چند سال قبل ایک غیرملکی خبررساں ادارے کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی لاہور کی ہی ایک بیوہ خاتون کے بارے میں روداد یادآرہی ہے جس کا ایک معصوم بچہ اسکی گود میں ہی بھوک سے دم توڑ گیا اور اب وہ دوسرے بچے کی اس حالت میں موت کو دیکھنے کی متحمل نہیں تھی اور اس نے بالآخر طوائف بننے کا فیصلہ کرلیا۔

جب انسان حالات کے ہاتھوں مجبور ہوجائے تو وہ اندھا ہوجاتا ہے اور وہ کوئی بھی جارحانہ قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرتا۔
دوسری تشویشناک خبر سندھ کے علاقے تھرپارکر میں بھوک و افلاس کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے دس بچوں کے بارے میں تھی جس سے علاقے میں ایسی موت مرنے والے بچوں کی تعداد 122تک پہنچ گئی ہے۔ جاں بحق ہونے والے ان بچوں کی تصاویر دیکھ کر دل رکھنے والاپر ذی شعور انسان غم زدہ ہوجاتا ہے اور انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ حکومت کہاں ہے، لوگوں کے نمائندے کہا ں ہیں، انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں کہا ں ہیں، لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے کے دعویدار کہاں ہیں اور پاکستان زندہ آباد اور پاکستان پر جان نچھاور کرنے کے کھوکھلے نعرے لگانے والے کس مستی میں کھوئے ہوئے ہیں؟
یہ خبریں ایسے وقت پر سامنے آگئیں جب پاکستان کے زیادہ تر لوگ جن میں زیادہ تر تعداد ان پڑھ لوگوں کی ہے ملک کی مخدوش صورتحال کے قطع نظر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ایشیاء کپ ٹورنامنٹ میں جیت کیلئے دعائیں مانگ رہے تھے۔

اتنا ہی نہیں بلکہ ایک ٹی وی شو میں شاہد آفریدی کیلئے لاکھوں روپے کا انعام بھی مقررکیا گیا۔ اس ملک میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ امیروں کو ہی نوازا جاتا ہے، لیکن لوگوں کی زندگیاں بچانے ، غریبوں کے منہ میں نوالا ڈالنے کیلئے کوئی نہیں ہے، لیکن نوالہ چھیننے والے کافی ہیں۔ بھئی ! میں کرکٹ ٹیم کے جیتنے کی دعا نہیں کرتا ہوں، بلکہ میں دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ پاکستان میں کوئی بچہ دودھ کیلئے نہ ترسے، کوئی انسان روٹی کیلئے نہ تڑپے، کسی کو پانی اور سی این جی کیلئے لمبی قطاروں میں کھڑا نہ رہنا پڑے، کوئی ماں غربت سے تنگ آکر اپنے بچوں کو قتل نہ کرے، کوئی باپ اپنے بچوں کو دریا میں پھینک کر خودکشی نہ کرے۔

۔۔ ! میرے ذہن میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ہارجیت نہیں، بلکہ میرے ذہن میں وہ 220پاکستانی بچے ہیں جو سندھ میں قحط سے مرے، میرے ذہن میں وہ دو معصوم بچے ہیں جنکی ماں نے غربت سے تنگ آکر انہیں موت کی نیند سلا دیا۔
افسوس یہ ہے کہ ہماری پاکستانیت صرف اس وقت جاگتی ہے جب کرکٹ میچ ہو، ملک کے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے، رشوت لیتے اور دیتے ہوئے، غریب عوام کا استحصال دیکھتے ہوئے، سڑکوں کے اوپر کوڑا پھینکتے ہوئے، بجلی چوری کرتے ہوئے، لوگوں کے حقوق چھینتے ہوئے، اور ملک کو لوٹتے ہوئے ہماری پاکستانیت مردہ ہوچکی ہوتی ہے، اور جب ہم پڑھ لکھ کر ملک سے راہ فرار حاصل کرنے کیلئے ویزا دفاتر کے چکر لگاتے ہیں تو اس وقت ہماری پاکستانیت کہاں جاتی ہے؟ میری تو یہی دعا ہے کہ کرکٹ رہے نہ رہے لیکن پاکستان رہے، پاکستانی قوم رہے، اور یہاں غربت، بے روزگاری، معاشی بدحالی، مہنگائی ، اقرابا پروری اور بے انصافی کا خاتمہ ہو اور ہر طرف سے خوشحالی ہو!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :