میڈیا انڈسٹری کا براہ راست پوسٹ مارٹم

جمعرات 16 اپریل 2020

Noorulamin Danish

نورالامین دانش

(تنخواہ آ جائے گی دو چار ماہ بعد، اور کیا چایئے ۔۔۔عمرہ بھی کروائیں گے ، یہ کرونا مرونا کچھ نہیں ہوتا کام کرو شاباش آئسولیشن سنٹر سے اندر کی خبر لاو)
چوبیس چوبیس گھنٹے کام کرنے والے مشقتی صحافیوں کو اکثر نیوز روم سے ایسی ہی گفتگو سننا پڑتی ہے اور ستم تو یہ کہ مصنوعی مسکراہٹ ہی سہی لیکن باس کے سامنے دانت نکال کر اسکی ہاں میں ہاں ملانا نوکری کا لازمی جزو ہے۔


اگر آپ میڈیا منڈی کی صورتحال کا جائزہ لیں تو ہر دوسرے دفتر کے یہی حالات نظر آئیں گے، جیسی بھی ناگہانی صورتحال ہو مریخی مخلوق کے خدوخال رکھنے والے نیوز ڈیسک کو صرف وہ اینگل چایئے جو چاند پہ بیٹھ کے زمین کا آتا ہے۔۔۔
دنیا جہاں سے لڑ کے آپ بڑی سے بڑی خبر بھی ڈھونڈ لیں،تعریف کے لیئے باسز کی مقناطیسی زبان کبھی نہیں بولے گی اور اگر خدانخواستہ آپ سے کسی کا پلک جھپکنا بھی مس ہوا تو کم سے کم عالمی جنگ جیسی صورتحال سے نمٹنے کے لییے تیار رہنا آپ پہ فرض ہے۔

(جاری ہے)


دنیا کو اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کا درس دینے والی یہ انڈسٹری اپنے ورکرز کو غلام ہی رکھتی ہے ، ایک ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے جس میں آپ پر غلامی فرض ہو جاتی ہے ،حتی کہ آپ کو بیٹھنا، اٹھنا ، دوستیاں وغیرہ سب کچھ کے طعنے دیئے جاتے ہیں۔
پورا مہینہ کام کیبعد پہلی بات تو یہ کہ تنخواہ دی نہیں جائے گی اگر مل گئی تو پھر ایسا احسان جتلایا جائے گا جو آپکی سات نسلوں پہ قرض رہے گا۔


کمرشلز کے بھوکے میڈیا پر اگر آپ نے باس کے کسی دوست یا کسی بڑی پارٹی کیخلاف کوئی خبر دے دی تو کبھی بھی اسکے چلنے کی امید نہ رکھیں۔
بڑے بڑے پراپرٹی ٹائیکونز کے سیاہ کارناموں کا تو نام تک لینا بھی گناہ عظیم ہے لیکن جب ان سے معاملات نہ بن رہے ہوں تو انکے کھانے کھاتے ہوئے منہ ہلانے کو بھی دنیا کا سب سے بڑا ظلم کر کے پیش کیا جاتا ہے۔


ان سب سے ہٹ کے نیوز روم میں ایک خوشاآمدی ٹولا بھی ہوتا ہے جسکا کام باس کی ٹائی، سوٹ سے لیکر جوتوں کی تعریف کرنا ہوتا ہے ، یہ ٹولا اپنے ہی صحافی بھائیوں کی شکایتیں لگا لگا کر نمبر بناتے ہیں جبکہ اگر کوئی بیچارہ نیا نویلا بندہ ہو تو اسکو ڈرا ڈرا کر ایسا غلام بناتے ہیں کہ اسے آزادی کی باتیں گالی کی طرح لگتی ہیں۔
اس شعبہ سے اکثریت وہ لوگ منسلک ہیں جو شہر میں کوئی اور کام ڈھونڈنے آئے تھے ناکامی پر واپس لوٹنے کی بجائے شعبہ صحافت میں فٹ ہو گئے، نہ تو انکے پاس کوئی ڈگری ہے اور نہ ہی کچھ اخلاقیات۔

۔۔
انکے پاس بیٹھ کر صحافی سے زیادہ ٹھیکیدار ہونے کا احساس ہوتا ہے،انکے نزدیک بڑا صحافی وہی ہے جو اگر پولیس والا مسجد نماز پڑھنے بھی جائے تو اسے اس انداز میں دیکھنا چاہیئے کہ وہ نمازیوں کے پیسے نکالنے گیا تھا۔۔۔۔
پڑھے لکھے نوجوان مسلسل ڈر اور خوف کی فضا میں کام کرکر کے خوفناک حد تک غلامی کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔
(ایک نیوز روم میں باس پروگرام سے باہر نکلے تو سب نے واہ واہ کے قصیدے پڑھنا شروع کر دیئے ، تجزیہ کار نما باس نے کہیں پوچھ لیا کہ میری کونسی بات آپ کو سب سے زیادہ پسند آئی تو پیچھے سے ایک آواز آئی سر جب آپ بولے تو ٹی وی کا والیوم ہی بند تھا)
میڈیا منڈی میں کامیابی کے لیئے آپکو باسز کے کام جان کی پرواہ کیئے بغیر فل الفور کروانے ہوتے ہیں ، کاموں کی نوعیت قابل اعتراض ہونے کے باعث بتانے سے قاصر ہوں۔

۔۔
چار سال کے مختصر صحافتی کئریر میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس پر انشااللہ بغیر کسی لبادے کے کتاب لکھنے کا ارداہ ہے جس میں آپ دوستوں کو سچ کسی سینسر شپ کے بغیر بتایا جائے گا۔۔۔۔۔
تمام دوستو کے لیئے ایک ہی دعا کہ!!!
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :