پاکستان میں روایتی کھیلوں کا خاتمہ

پیر 15 فروری 2021

Onaiz Humayun Sheikh

اُنیر ہمایوں شیخ

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں بیٹھا سوچ ہی رہا تھا کہ کسی موضوع پر ایک تحریر لکھی جائے کہ اچانک مجھے میرا بچپن اور اس میں کھیلتا ہوا میں یاد آگیا. جب اُس سوچ سے بیدار ہوا تو اپنے اس پاس ہر کسی کو موبائل، ٹی وی میں مصروف پایا. گھر کا صحن خالی پایا اور بچوں کو موبائل پر گیمز کھلتے دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ ہم ڈیجیٹل دنیا میں کس قدر مصروف اور بے حوش ہو گئے ہیں.
ایک وقت تھا جب ہماری زندگیوں میں سکون تھا۔

ہر ایک اپنے آپ سے مطمئن تھا۔ وقت تیزرفتاری کے ساتھ نہیں بڑھ رہا تھا۔ لوگ خوشحال اور خوشگوار زندگی بسر کر رہے تھے۔ چاروں طرف خوشی تھی۔ پارک اور باغات معصوم بچوں سے بھرے ہوے تھے جو کہ مزیدار کھیل جیسے  ، پٹھو گرم، کھو کھو، کوکلہ چھپکی ، اونچ نیچ، بنتے ، بارف پانی وغیرہ کھیلتے اور ان سے بھر پور لطف اندوز ہوتے.
مجھے آج بھی اپنے اسکول کے دن یاد آتے ہیں جب میں اپنے دوستوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلتا تھا۔

(جاری ہے)

  یہ بہت خوشی کی بات تھی۔ میرے دوست میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر انھیں ڈھک دیتے تھے اور پھر انہیں ان کی پوشیدہ جگہوں سے ڈھونڈنا بہت ہی خوش کن اور لطف اندوز ہوا کرتا تھا ۔ وہ دن بہت اچھے اور ایک طرح کے تفریحی تھے لیکن آج اس دورِ جدید میں میں انھیں تلاشتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ وہ ٹکنالوجی کے پہاڑوں کے پیچھے کہیں گم ہو گئے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی آئی ہے اس نے ہماری ذہنیت اور طرز زندگی کو تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کے گیمنگ طرز کو بھی تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے اور انہیں ڈیجیٹل گیمنگ کی دنیا میں کھینچ لیا  ہے، جو روایتی گیمنگ سے تھوڑی سی پرکشش ہے لیکن ، یہ ایک ڈیجیٹل دنیا کا کنوا جہاں آپ ایک بار گر جائیں تو واپس آنا ناممکن ہوتا ہے.
اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے ، میں روایتی کھیلوں میں بہت زیادہ کمی محسوس کرتا ہوں۔

بہرحال ، یہ کھیل روایتی طور پر اس ٹیکنالوجی کے اضافے کے ساتھ نسلوں میں گزر چکے ہیں۔
ٹیکنالوجی بری چیز نہیں ہے۔ یہ ایکسویں صدی میں بہت اہم اور مددگار ہے لیکن ہمیں ٹیکنالوجی کے استعمال اور ٹکنالوجی کی عادت کے مابین ایک لکیر کھینچنا ہوگی۔  کیونکہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہماری زندگی متاثر نہیں ہوسکتی  لیکن اس ٹیکنالوجی کی زیادتی سے ہماری نسلیں تباہ ہوجائیں گی۔

لہذا ، ہمیں اس ٹیکنالوجی کو حدود کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے. ایک پرانی کہاوت ہے:
"ہر چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے"
اب ، زیادہ تر کھیل ڈیجیٹل اسکیل پر شفٹ ہو گئے ہیں۔ لڈو ، کرکٹ ، بیس بال ، وغیرہ سبھی کو ڈیجیٹل دنیا میں جدید بنا دیا گیا ہے۔ کچھ لڑائی جھگڑے ، اور جنگ والی گیمز جیسے PUBG ، کال آف ڈیوٹی ، وغیرہ موجود ہیں جو آج کل ہماری نوجوان نسل میں بہت مشہور ہیں۔

ان گیمز میں دلکش گرافکس ہوتے ہیں جو شخص کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ بچوں اور نوجوانوں میں ہی نہیں ،  بلکہ یہ گیمز بالغوں میں بھی مقبول ہیں۔ یہ گیمز ہماری ذہنیت کو امن پسند ماحول سے دور کرکے جنگ پسند ماحول کا عادی بنا رہی ہیں۔
اس قسم کی گیمز کا ذہنوں پر برا اثر پڑتا ہے اور اس نےانسان  کو افسردہ اور چڑچڑا کردیا ہے اور انہیں ہر چھوٹے مسئلے پر غصہ کرنے والا بنا دیا ہے۔

ان گیمز کی عادت نے انہیں معاشرے سے الگ کردیا ہے۔ بچے اور یہاں تک کہ بالغ بھی ان کھیلوں کے لئے اس قدر سست روی کا شکار ہوچکے ہیں کہ وہ باہر جانے سے گریز کرتے ہیں.
اس ڈیجیٹل دور کی وجہ سے ، ہم امن کی زندگی سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ ہمارے جسم نے اس ٹیکنالوجی کو عادت بنا لیا ہے اور اس عادت میں ہم اپنے مستقبل کو تباہ کررہے ہیں۔ ہمیں اس عادت کے مابین ایک لکیر کھینچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس ٹیکنالوجی کو مسائل پر قابو پانے اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے استعمال کرنا چاہیے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :