احساس ایمرجنسی پروگرام

پیر 1 جون 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

کرونا وائرس نے دنیا بھر کے سیاسی معاشی اور معاشرتی حالات کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔یہ اپنی نوعیت کی ایسی واحد وبا ہے جس نے ہر شعبہ زندگی کو برابر متاثر کیا ہے۔شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہو جو اس وائرس کے ۔اثرات سے بچ سکا ہوں۔لیکن غریب ملکوں کی معیشت اس وبا کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہے۔
دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے عوام کو اس وبا کے معاشی اثرات سے نکالنے کے لیے اقدامات کیے۔

امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی سمیت یو رپ کے تمام ممالک نے اپنے شہریوں کے معاشی مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے لیے اقدامات کیے۔پاکستان بھی ان ممالک میں سے ایک تھا جس نے کرونا کے معاشی اثرات سے سے محفوظ رہنے کے لئے یے کہ عملی اقدامات اٹھائے۔
وزیراعظم پاکستان نے 24مارچ کو کرونا وائرس کے باعث مالی مشکلات سے دوچار طبقات کے لیے 1.2 کھرب روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا۔

(جاری ہے)

ساتھ ہی ساتھ وزیراعظم کی طرف سے سے خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کے لیے نقد رقم کے امداد کا بھی اعلان کیا گیا۔وزیر اعظم یہ بھی کہتے رہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال اس قابل نہیں ہیں کہ اس معاشی بحران کا کماحقہ مقابلہ کیا جا سکے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے پاکستان میں اربوں روپے کی مالی امداد غریب افراد میں بانٹنے کا اعلان کیا۔

ہمیں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہیے کہ کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ دیہاڑی دار ہے جو روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرکے اپنے بچوں کے لئے نان ونفقہ کے کا بندوبست کرتا ہے۔اگرچہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس طبقہ کے ساتھ ساتھ چھوٹے دکاندار اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔حکومت پاکستان نے دنیا بھر کے معاشی اور امدادی ٹرینڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی قوم کے لیے ایک بھاری پیکج کا اعلان کیا۔

پاکستان جیسی کمزور معیشت رکھنے والے ملک کے لئے اصل امتحان یہ تھا کہ اس امدادی پروگرام کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔ملک میں ترقیاتی سرگرمیاں پہلے ہی انجماد کا شکار ہیں۔روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے کاروباری سرگرمیوں کو بریک لگ چکی ہے۔جبکہ حکومتی سطح پر ہر روز تبدیل ہوتے نے نئے فیصلوں نے تاجروں اور کاروباری طبقے کو شش و پنج کا شکار کر دیا۔

ٹیکس وصولی خطرناک حد تک کم ہے۔جی ڈی پی گروتھ ریٹ منفی کی طرف جارہا ہے۔ان حالات میں ملک کے غریب طبقات کے لیے کیش رقم کا بندوبست کرنا ایک انتہائی مشکل ٹاسک لگ رہا تھا۔
حکومت کی طرف سے ڈاکٹر ثانیہ نشتر جیسی باصلاحیت اور نیک نام خاتون کو اس پروگرام کا سربراہ نامزد کیا گیا۔جنہوں نے آتے ہی کچھ ایسے اقدامات کئے کہ قوم کا ان پر اعتماد قائم ہوگیا۔

اور یہ تاثر قائم ہونے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر سیاسی دباؤ سے آزاد ہوکر حقیقی معنوں میں غربا تک حکومتی امداد پہنچانے کا بندوبست کریں گی۔
گذشتہ سال جب وفاقی بجٹ کا اعلان کیا گیا اس وقت سوشل پروٹیکشن کے لیے 187 ارب روپے مختص کیے گئے۔جن میں سے ایک سو اسی ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نام احساس پروگرام کے لئے رکھے گئے۔

احساس پروگرام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ تمام سماجی خدمت کے منصوبوں کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے مختص 180 ارب روپوں میں سے 167.5ارب روپے حکومت پاکستان کی طرف سے تھے جبکہ باقی 12.5 ارب روپے ڈونرز کی طرف سے تھے۔ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بتایا کہ احساس پروگرام کے تین حصے ہیں۔1. کفالت 2.تحفظ۔3. روزگار۔کفالت ان لوگوں کیلئے جو ایک سروے کے ذریعے حکومت کے علم میں آئے۔

جبکہ تحفظ ان لوگوں کے لیے جن پراچانک کوئی آفت آجائے روزگار ان لوگوں کے لئے جن سے کرونا وائرس نے روزگار چھین لیا۔۔
پہلی دو کیٹگریوں کے لیے مارچ کے آخر میں ہی رجسٹریشن کے سلسلے کا آغاز ہوا۔وفاقی بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ کیلئے مختص رقم میں سے 128ارب روپے کیش گرانٹ کے طور پر مختص ہیں جبکہ تحفظ پروگرام کے لیے 7.3 ارب روپے مختص کیے گئے۔

وزیر اعظم کے اعلان کردہ احساس ایمرجنسی پروگرام کی طبعی خدوخال کے مطابق ایک کروڑ بیس لاکھ سے لے کر ایک کروڑ 30 لاکھ تک خاندانوں کو فی خاندان 12 ہزار روپے ایک دفعہ چار مہینوں کے لیے ادا کیے جائیں گے۔اس پروگرام سے مستفید ہونے والوں میں سے 45 لاکھ خاندان وہ ہیں جو پہلے ہی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں ان کے علاوہ 40لاکھ دیہاڑی دار ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے ہیں مگر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید نہیں ہو رہے جبکہ 35 لاکھ خاندان وہ ہیں جن کی نشاندہی ضلعی انتظامیہ کر رہی ہے۔

اس پروگرام کی رجسٹریشن کے لیے شناختی کارڈ کو بنیادی اکائی قرار دیا گیا۔ملک بھر سے کروڑوں افراد نے اپنا شناختی کارڈ نمبر حکومت کی طرف سے دیے گئے نمبر پر ارسال کیا۔ایک خودکار نظام کے تحت اس شناختی کارڈ کے متعلق جملہ معلومات کی تحقیقات کی گئیں۔ ان تحقیقات کی بنیاد پر کسی بھی صارف کے اہل یا نااہل ہونے کا فوری فیصلہ کیا گیا۔
احساس ایمر جنسی پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں انسانی مداخلت کا امکان کم سے کم رکھا گیا۔

زیادہ انحصار نادرا پر کیا گیا اور وہیں پر موجود ان کی معلومات کو بنیاد بنا کر کسی شخص کے اس پروگرام کے لئے اہل ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ان درخواستوں کی چھان بین کرتے ہوئے ایسے تمام افراد اس پروگرام کے لیے نااہل قرار پائے گئے جن کے نام پر پر کوئی گاڑی تھی یا انہوں نے بیرون ملک سفر کیا تھا یا ان کے بینک اکاؤنٹ میں ایک مخصوص رقم موجود تھی۔

یہ ساری تصدیقات نادرا کے ڈیٹا بیس سے مطابقت کرکے کے ان کو حتمی شکل دی گئی۔ملک بھر میں سینکڑوں مراکز قائم کیے گئے جہاں پر بائیو میٹرک تصدیق کے بعد اس پروگرام کے لئے منتخب افراد کو بارہ بارہ ہزار روپے دے دیے گئے۔بعض مقامات پر انفرادی غلطیوں اور کوتاہیوں یا انتظامی معاملات میں معمولی غلطیوں کو علاوہ کوئی بڑی بے قاعدگی دیکھنے میں نہیں آئی۔

حکومت کے احساس ایمرجنسی پروگرام کے تحت ابتدائی طور پر لاکھوں خاندان مستفید ہوئے۔
یہ حکومت کا پہلا منصوبہ ہے جس کی شفافیت پر بہت کم سوال اٹھائے گئے۔مختلف صوبوں کی طرف سے معمولی نوعیت کے اعتراضات کئے گئے۔لیکن مجموعی طور پر اس پروگرام کے حوالے سے بھی بڑا اعتراض سامنے نہیں آیا۔جب ایک معروف صحافی کی جانب سے اس پروگرام کی شفافیت پر سوال اٹھایا گیا تو ڈاکٹر ثانیہ نشتر بذات خود میدان میں آئیں اور انہوں نے پریس کانفرنس کر کے اعدادوشمار قوم اور ساتھیوں کے سامنے رکھے۔

اس کے بعد مذکورہ صحافی کو اپنا موقف واپس لینا پڑا اور اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پڑا۔حکومت کے اس پروگرام کے ملک کے معاشی منظر نامے پر کس حد تک مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔اور ان اثرات کا ابتدائی نظارہ ہم نے تب دیکھا جب لاک ڈاؤن کھولنے کا اعلان کیا گیا تو عوام کی طرف سے بازاروں میں جس طرح ہجوم دیکھنے میں آیا اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کے لیے 12 ہزار روپے ایک معقول رقم ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ماہرین معاشیات کی اس رائے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ اس طرح کے منصوبے ملک کی معیشت کے لیے ایک بوجھ اور زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔کوئی بھی باوقار ملک اپنے شہریوں کو بھکاری بنانے کے بجائے ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے دیگر ذرائع اختیار کرنے پر زور دیتا ہے یہ رائے رکھنے والے ماہرین کے مطابق اگر اس بھاری رقم کو کم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تو تمام طبقات اس سے برابر مستفید ہوسکتے۔

لیکن بدقسمتی سے مہنگائی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔احساس ایمرجنسی پروگرام کے ذریعے مہنگائی پر تو کاری ضرب نہیں لگائی جاسکے گی۔لیکن معاشرے کے ایک مخصوص طبقے کی ذاتی ضروریات کو کسی حد تک پورا کرنے میں مدد ملے گی۔حکومت پاکستان اس امر پر مبارکباد کی مستحق ہے کہ پہلی دفعہ اتنی بڑی رقم بغیر کسی سکینڈل کے تقسیم ہوئی۔
وزیراعظم کے احساس پروگرام کے تیسرے مرحلے میں بے روزگار ہونے والے افراد کے لیے بھی سکیم کا اعلان کیا گیا۔

ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے یہ پروگرام ان افراد کے لیے لانچ کرنے کا اعلان کیا جو کرنا وائرس کے باعث ملازمت سے محروم ہوچکے ہیں۔اس پروگرام کے لیے حکومت کی طرف سے جاری کردہ پورٹل پر ہی رجسٹریشن ہو سکتی ہے۔اس میں بھی شناختی کارڈ کو بنیادی اکائی تسلیم کیا گیا۔حکومت کی طرف سے یہ پورٹل دو یا تین ہفتوں کے لیے کھلا رہے گا۔
درخواست گزار کی طرف سے فراہم کی گئی معلومات کی تصدیق کے بعد منظم انداز میں مستحقین میں رقم کی تقسیم کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔

اس عمل سے بھی امید کی جاسکتی ہے کہ معاشرے کے غریب طبقات اور ملازمت سے محروم ہو جانے والے افراد کے حالات کار کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔لیکن ماہرین معاشیات مسلسل اس بات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں کہ ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے معیشت کا پہیہ چل سکے۔حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن کھولنے کے فیصلے کو اگرچہ تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے تاہم اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان جیسا غریب ملک طویل عرصہ لاک ڈاؤن برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔

امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرے شروع ہوچکے ہیں اور وہاں پر بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کیے جا رہے ہیں ان حالات کے تناظر میں حکومت کی طرف سے معاشی سرگرمیوں کا اجراء ایک مثبت قدم ہے۔
دیہاڑی دار طبقہ کو ان معاشی سرگرمیوں کا سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔کرونا کے خوف کے باوجود بازاروں کے کھلتے ہیں ملک کی رونق بحال ہوگئی ہے۔

لوگ اپنے روزمرہ معمولات کی طرف لوٹ رہے ہیں۔لیکن ساتھ ساتھ عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔کاروبار کرتے ہوئے کرونا جیسی وبا ہمارے گھروں میں داخل ہوگئی تو اس سے نمٹنا آسان کام نہیں ہوگا۔عوام میں اس شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈاکٹر کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے حفاظتی انتظامات کو یقینی بنایا جائے اور روزمرہ کے امور کو سرانجام دیا جائے۔امید کی جاسکتی ہے کہ بہت جلد کرونا کے اثرات سے نکل کر ملک اپنی معمول کی سرگرمیوں کی طرف چل نکلے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :