ہمشکل رسول،حضرت سیدنا شاہ علی اکبر بن حسین و شھادت سیدنا علی اصغر رضی اللہ عنہ

جمعہ 28 اگست 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

میدان کربلا میں خاندان رسالت نے اپنی جانیں قربان کر کے دین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا ایسا حق ادا کیا کہ آج تک اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔مذاہب عالم کی تاریخ میں بہت کم ایسا ہوا کہ کسی پیغمبر کی اولاد نے اتنے بڑے پیمانے پر اپنی جانوں کی قربانی پیش کی ہو۔خاندان رسالت کی قربانی کا واحد مقصد یہی تھا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے جو اصول متعین فرمائے ان کے خلاف ورزی نہ ہو۔

میدان کربلا میں اپنے خون سے شجر اسلام کی آبیاری کرنے والوں میں ایک نمایاں نام حضرت سیدنا علی اکبر رضی اللہ عنہ کا ہے جنہوں نے عین جوانی کے عالم میں اپنے جد امجد کے دین پر اپنی جان قربان کر دی۔حضرت سیدنا علی اکبر،حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے فرزند تھے۔

(جاری ہے)

آپ 11 شعبان 43ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔(مستدرک) آپ کی تاریخ پیدائش کے متعلق مختلف اقوال منقول ہیں لیکن مورخین میں سے اکثر نے زیادہ راجح قول اسی کو سمجھا ہے۔

آپ کی والدہ ماجدہ کا نام لیلیٰ بنت مرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی ہے۔حضرت لیلی کی والدہ میمونہ بنت ابی سفیان کا تعلق بنو امیہ سے تھا۔(اصفہانی)اس طرح حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ عرب کے تین بڑے قبیلوں سے رشتے میں جڑے ہوے تھے۔اپنے والد کی طرف سے بنی ہاشم کے ساتھ ان کا تعلق تھا۔جس میں پیغمبراسلام سرکارِ دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم،سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا،حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ،اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ شامل تھے۔

جبکہ والدہ کی طرف سے دو قبائل کے ساتھ آپ کا تعلق بنتا تھا۔ایک تعلق تو بنو امیہ سے تھا۔اور دوسرا تعلق بنی ثقیف سے تھا۔اپکے عروہ بن مسعود معزز سردار تھے۔زوجہ رسول حضرت سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ ساتھ آپ کے رشتہ داری کا تعلق تھا۔۔یہی وجہ تھی کہ اہل عرب اپکو بے پناہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ابوالفرج اصفہانی تحریر کرتے ہیں کہ ایک دن جناب معاویہ اپنے مصاحبین میں بیٹھے تھے اور پوچھا کہ تم لوگوں کی نظروں میں خلافت کے لئے کون لائق اور مناسب ہے۔

ان کے ساتھیوں نے جواب دیا کہ ہم تو آپ کے بغیر کسی کو خلافت کے لائق نہیں سمجھتے۔جناب معاویہ نے کہا ایسا نہیں ہے بلکہ خلافت کے لئے سب سے لائق اور اہل شخص علی بن الحسین ہے۔جن کا نانا رسول خدا ہے۔اس میں بنی ہاشم کی دلیری،بنو امیہ کی سخاوت اور بنو ثقیف کی فخر و فخامت جمع ہے۔
حضرت علی اکبر کی شخصیت
حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ کی شخصیت کے بارے میں مؤرخین نے لکھا کہ وہ خوبصورت،وجیہ، شیریں زبان،اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔

ان کا اٹھنا بیٹھنا اور ان کی چال ڈھال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھا۔آپ کا چہرہ باررنق،پیشانی کشادہ اور سینہ چوڑا تھا۔آپ کے کندھے گوشت سے بھرے ہوئے تھے اور سینہ چوڑا اور نکلا ہوا تھا۔آپ قدوقامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔ نہ تو اتنے لمبے کہ بد صورت دکھائی دیں اورنہ اتنے پست قد کہ حقیر محسوس ہوں۔آپ کے بال لمبے اور ملائم تھے۔

عرب کے رواج کے مطابق ان کے بال کندھوں تک رہتے۔ان کا جسم خوشبودار اور چال ڈھال میں ایک وقار تھا۔گفتگو کرتے تو دھیمے لہجے میں بات کرتے۔جوانی کے باوجود کسی سے ترش روئی سے مخاطب نہ ہوتے۔آپ کی گفتگو سن کر یوں محسوس ہوتا کہ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کلام کر رہے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ خاندان رسالت میں جس کو بھی اقاے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد آتی،وہ حضرت سیدنا علی اکبر کی زیارت کر کے اپنی روح کو شاد کام کرلیتا۔


تعلیم و تربیت
حضرت سیدنا علی اکبر رضی اللہ عنہ کا پہلا مکتب آپ کے دادا حضرت سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کی گود تھی۔مدینہ العلم کی گود میں بیٹھ کر علوم معارف کا ایک جہان اپنے اندر سمو لیا۔مدینہ منورہ اور کوفہ میں امام چہارم علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے حسن تربیت نے آپ کو کمال تک پہنچایا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ان کی تربیت فرمائی۔قرآن کریم اور معارف اسلامی کی تعلیمات حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے بذات خود ان کو دی۔ان کے شخصیت کو اپنے اخلاق سے ایسا مزین کیا کہ آپ نے تو اپنے،آپ کے جانی دشمن بھی امام علی اکبر کی ثناخوانی سے خود کو نہ روک پاتے۔حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی اس تربیت کا نظارہ دنیا نے میدان کربلا میں دیکھا۔

ابھی تک آپ نے اپنی زندگی کی کچھ بہاریں ہی دیکھی تھی کہ معرکہ کرب و بلا پیش آگیا۔واقعہ کربلا نے جہاں ایک طرف تو حق و باطل میں ایک لکیر کھینچ دی تو دوسری طرف خاندان رسالت کے جری نوجوان حضرت سیدنا علی اکبر نے شجاعت کی نئی داستانیں رقم کردیں۔کہا جاتا ہے کہ خاندان بنو ہاشم سے حضرت سیدنا علی اکبر پہلے نوجوان تھے جنہوں نے کربلا کے میدان میں جام شہادت نوش کیا۔

کربلا کے میدان کے اندر غلامان امام عالی مقام ایک ایک کر کے جام شہادت نوش کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت امام علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میدان جنگ میں جانے کی اجازت طلب کی۔امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ نے استقامت اور بہادری کا پیکر بن کر اپنے جوان بیٹے کو اس راہ کی طرف روانہ کیا جس سے کوئی بھی زندہ واپس نہیں آ سکا۔

۔امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے عظیم نانا کے دین کو بچانے کے لئے،دین کو فاسق اور فاجر لوگوں کے تسلط سے محفوظ رکھنے کے لیے،اسلام کو کفار نما مسلمانوں کی دستبرد سے بچانے کے لیے اپنے کڑیل جوان بیٹے حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ کو تھپکی دے کر اللہ کے حوالے کیا۔تاریخ کے مستند حوالے اس موقع پر تو خاموش ہیں کہ خاندان رسالت کی خواتین کا اس موقع پر کیا طرز عمل تھا،لیکن چشمِ تصور سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک کڑیل نوجوان کو مقتل میں جانے کے لیے ماں اور بہنوں نے کیسے رخصت کیا ہوگا؟جناب زینب سلام اللہ علیھا نے کیسے ان کے سر پر بوسہ دیا ہوگا؟آپ کی والدہ جناب لیلی نے وقت رخصت کیسے انہیں اپنی باہوں میں لے لیا ہو گا؟ان کی ہمشیرہ محترمہ سیدہ سکینہ سلام اللہ علیھا نے کیسے اپنے بھائی کو قتل گاہ کی طرف روانہ کیا ہوگا؟یہ ایسا منظر ہے جس کو الفاظ کے قالب میں نہیں ڈالا جا سکتا،ہر ماں تصور کر سکتی ہے کہ بیٹوں کو قتل گاہ کی طرف جانا کتنا مشکل ہے،ہر بہن بھی اندازہ کر سکتی ہے کہ اپنے سر کو بے ردا کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے،ہر باپ بخوبی جان سکتا ہے اپنے کڑیل نوجوان بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے راہ شہادت پر روانہ کرنا کتنا مشکل کام ہے۔

یوم عاشور کو بنی ہاشم کے پہلے شہید ہونے کا اعزاز پانے والے علی اکبر جب میدان جنگ میں اترے تو آپ نے جو رجز پڑھا اس میں واضح طور پر اپنی نسبت بنی ہاشم کی طرف کی۔بنو ثقیف یا بنو امیہ کی طرف نسبت کرنا پسند نہ فرمایا۔آپ نے رجز پڑھتے ہوئے ارشاد فرمایا۔میں علی، حسین بن علی کا بیٹا ہوں۔خدا کی قسم ہم پیغمبر اسلام کے سب سے زیادہ نزدیک ہیں۔

میں اس طرح نیزے سے تمہارے اوپر وار کروں گا کہ نیزہ ٹیڑھا ہو جائے گا۔اس طرح تلوار سے تمہاری گردنیں ماروں گا کہ تلوار کند ہو جائے گی۔ایسی تلوار چلاؤں گا جیسیے بنی ہاشم عرب کا جوان چلاتا ہے۔خدا کی قسم۔تم ہم پر حکومت نہیں کر سکتے۔بعض روایات کے مطابق عمر بن سعد نے حضرت علی اکبر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمھارے رشتہ داری بنو امیہ سے ہے لہذا تم واپس چلے جاؤ آپ نے عمر بن سعد کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا خدا تمہاری رشتہ داری ختم کرے،اور ایسا شخص ہمارے اوپر مسلط ہو جو بستر پر تمہارا سر کاٹ دے،تم لوگوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتے کا حیا نہیں کیا۔

پھر یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ اللہ نے آدم، نوح، ابراہیم کے خاندان، اور عمران کے خاندان کر چن کر تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی۔
یہ رجز اور آیات طیبات پڑھتے ہیں آپ دشمن کے کے قافلے پر ٹوٹ پڑے۔آپ نے اپنے حملوں سے دشمن کی صفوں کو چیر کر رکھ دیا۔

یہاں تک کہ ان کی صفوں سے چیخوں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی۔معتبر کتب تاریخ میں منقول ہے ہے حضرت سیدنا علی اکبر نے سب سے پہلے حملہ میں 120 دشمنوں کو قتل کر دیا۔دشمن کی صفوں سے آہ و بکا بلند ہوئی۔آپ پانی کی تلاش میں اپنے والد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف پلٹے۔امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے اپنی زبان حضرت علی اکبر کے منہ میں دے۔

حوض کوثر کے مالک کے نواسے دریاے فرات کے کنارے اپنے صاحبزادے کیلئے پانی کا سوال کرنے کے بجائے اپنی زبان سے سیراب کرنا زیادہ مناسب خیال فرمائایا۔۔خون محمدی نے یہ گوارا نہ کیا کہ جن فاسق و فاجر لوگوں کے خلاف اعلان جہاد کیا ہے، ان سے پانی کا سوال کیا جائے۔اپ دوبارہ میدان جنگ کی طرف پلٹے۔آپ نے ایک مرتبہ پھر رجز پڑھا۔جس کا مفہوم یہ ہے کہ جنگ کے حقائق آشکار ہوگئے،۔

میں تمھارے لشکر سے اس وقت دور نہیں ہوگا جب تک تمہاری تلوار غلاف میں نہ چلی جایں۔حضرت علی اکبر یہ رجز پڑھنے کے بعد دشمن کی صفوں پر ٹوٹ پڑے۔آپ نے داد شجاعت دی۔بہادری کے وہ جوہر دکھائے دشمن کے دانت کھٹے پڑگئے۔آپ دشمن کی صفوں میں اندر تک چلے گئے۔ یزیدی لشکر میں افراتفری مچ گئی۔آپ جس طرف جاتے کشتوں کے پشتے لگا دیتے۔حضرت علی اکبر کی تلوار زنی میں مولا علی شیر خدا کی بہادری کی جھلک نظر آرہی تھی۔

ان کے آگے بڑھنے میں امام حسین رضی اللہ عنہ کی شجاعت نظر آرہی تھی۔ان کے رعب اور جلالت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا رعب و جلال نظر آرہا تھا۔آپ کی شمشیر خارا شگاف جب فضا میں بلند ہوتی تو اس کی چمک سے سورج بھی شرمندہ ہوجاتا۔جب آپ کی تلوار قہر بن کر دشمنوں پر ٹوٹتی تو زمین کی اتھاہ گہرائیوں سے پہلے ان کو پناہ نہیں ملتی۔زرہ بکتر میں ملبوس یزیدی سپاہی تلوار علی اکبر کے سامنے گاجر مولی کی طرح کٹتے رہے۔

لوہے کی زرہ پہن کر آنے والا یزیدی حضرت علی اکبر کی تلوار کی زد میں آتا تو وہ کٹ مرتا۔یزیدی لشکر میں ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی۔ان کی مجلس مشاورت منعقد ہوئی۔ان کے سینئر کمانداروں نے کہا کہ یہ نوجوان علی المرتضیٰ کا پوتا ہے۔حسین بن علی کا بیٹا ہے۔شبیہ مصطفی ہے۔اس کا مقابلہ کرنا کسی اکیلے کے بس کی بات نہیں۔یزیدیوں نے جنگی حکمت عملی تبدیل کی۔

حضرت امام علی اکبر کا محاصرہ کیا۔آپ محاصرہ میں چاروں طرف وار کرتے رہے۔اس دوران ایک بد بخت منقز بن مرہ نے چلاک لومڑیاں کی طرح پیچھے سے وار کیا۔زخموں سے چور حضرت علی اکبر کے لئے یہ وار کاری ثابت ہوا۔دشمنوں نے آپ کے اطراف میں حلقہ ڈال لیا۔اور یک بارگی وار کر کے آپ کو منصب شہادت پر فائز کر دیا۔
السلام علیک یا اول قتیل من نسل خیر سلیل من سلالت ابراہیم الخلیل علیہ
سلام ہو آپ پر اے شہید اول۔

بے شک آپ اولاد ابراہیم کی بہترین ذریت میں سے ہیں۔آپ کی شہادت کی خبر سن کر خاندان رسالت میں کیا کہتی ہوئی ہوگی؟امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اپنے جوان بیٹے کی لاش کو اٹھا کر کس طرح اپنے خیموں میں واپس لے آئے ہوں گے، آپ کی والدہ نے آپ کے ٹکڑے ٹکڑے جسم کی زیارت کیسے کی ہوگی؟آپ کی بہن نے آپ آپ کا چہرہ کیسے دیکھا ہوگا؟آپ کے بھائیوں کے دلوں پر کیا گزری ہوگی؟اردو لغت میں بھی ایسے الفاظ تخلیق نہیں ہوئے جو ان کیفیات کا اظہار کر سکیں۔

ایسا سانحہ تو کسی پہاڑ پر گزرے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں؟کسی سرسبزوشاداب درخت کو یہ کیفیت محسوس کرنا پڑے تو لمحوں میں خشک ٹہنی میں تبدیل ہو جائے،ہری بھری زمین پر یہ کیفیت طاری کر دی جائیں تو وہ لمحوں میں بنجر ہوجاے،لیکن لاکھوں سلام خاندان رسالت پر،کروڑوں درود آل فاطمہ پر۔ لاتعداد سلام اولاد علی پر جنہوں نے اس سانحے پر صبر کیا۔صبر و عزیمت کی وہ مثال قائم کی انسانی تاریخ دوبارہ وہ مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

حضرت علی اکبر شبیہ رسول تھے،امام عالی مقام رضی اللہ عنہ ان کے چہرے کی زیارت کر کے اپنے نانا کو یاد کر لیا کرتے تھے،انکا لاشہ سامنے پڑا تھا،کہاں سے لاؤں وہ الفاظ اس کیفیت کو بیان کر سکیں۔کاش ہم اولاد رسول کی قربانی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا سکے۔ال محمد کے اکرام و احترام کا حق ادا کر سکیں۔
خاندان رسالت کا ایک اور شہید اس کو سیدنا علی اصغر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے شہادت کے وقت ان کی عمر میں 6 ماہ تھی۔

امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی گود میں دشمن کا تیر لگنے سے وہ اپنے نانا کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔بعض غیر محتاط لوگ یہ کہتے ہیں کہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے معصوم علی اصغر کے لیے یزیدیوں سے پانی کا سوال کیا تھا۔میں نے اپنے والد حضرت ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمة اللہ علیہ کی زبانی سنا کہ حسینی غیرت یہ کیسے گوارا کرسکتی ہے کہ جن لوگوں نے دین اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کی ہے نواسہ رسول ان سے اپنی اولاد کے لئے پانی کا سوال کریں۔۔انہوں نے اپنی گود میں اپنے معصوم بچے کی شہادت قبول کر لی لیکن ان سے پانی مانگنا گوارہ نہ کیا    
قتلِ حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :