جھوٹ لکھیں کہ سچ ؟

بدھ 9 ستمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

میں سوچتا ہوں کہ قلم کا "سر قلم"کر دوں یا زبان پر تالا لگا دوں؟ایسا کیا تو موت ھے، ارباب حل و عقد سے سوال ھے کہ زندگی کو ترجیح دی جائے یا موت کو؟دکھ اس بات کا ھے کہ سچ کو سچ نہیں سمجھا جاتا اور جھوٹ دوڑ کر سچ کی جگہ سنبھال لیتا ہے، کیا ایک قلم کار ، بے کار سمجھا جاتا ھے اور بولنے والا زبان دراز، مگر جنوں کی حکایت لکھنے میں کیا حرج ہے؟فیک نیوز ایک بڑے بڑے بحران جنم دے رہی ہے، قلم دولت لکھتا ہے یا بہتان، یا کسی مخصوص ایجنڈے کا داعی ھے ھمارے ملک میں لکھنے والوں کے لیے مشکلات ضرور ہیں اور سچ لکھنے والوں کو پل صراط سے گزرنا پڑ رہا ہے مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو میں لکھ یا بول رہا ہوں یہ فساد فی الارض کے زمرے میں تو نہیں آتا، بہتان تو نہیں ھے، اپنی انا کی تسکین تو نہیں ھے، اگر اتنے فیلٹر کو سامنے رکھا جائے تو آپ کا لکھنا اور بولنا لوگوں کو فایدہ دے گا میری نظر میں اگر ایک آدمی کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے تو بھلا ھے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں لکھنے کی آزادی پر بہت سوال اٹھتا ہے اور اس کا جب تجزیہ کیا جائے تو آپ حیران ھوں گے یہ وہ واحد ملک ہے جہاں کیا کیا نہیں لکھا جاتا اور کیا کیا نہیں بولا جاتا، شخصیات ھوں، ادارے، حکومت اور یہاں تک کہ ریاست تک پر الزامات، بہتان اور سچ کے دعوے میں ویسٹرن انٹرسٹ کو فروغ دینے کے لیے سب کچھ لکھا جا رہا ہے، جو ھم ایک تھڑے، ھوٹل، حویلی کی دیواروں کے اندر ، دیوان خانوں اور چھپ کر بولتے تھے وہ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات و رسائل کی زینت بن چکا ہے، جبکہ اس جدید دور میں، بڑی بڑی جمہوریتوں کے اندر کسی ظلم، کسی ظالم اور استحصالی نظام کے خلاف لکھتے ہوئے لوگ کانپتے اور بولتے ہوئے گنگ ھو جاتے ہیں، دوسرا یہاں صحافت کا معیار، اخلاق، علمی اور تحقیقی نوعیت کا  کام نہ ھونے کے برابر ہے، خبروں کا فالو اپ کا نظام نہیں تو کوئی کیسے سچ مانے، انہی وجوہات کی بنا پر سچ کہیں چھپ کر رہ جاتا ھے، جس کو کسی پر الزام دھر کر ھیرو ازم تخلیق کیا جاتا ہے، من حیث القوم ہم سب اسی مخمصے کا شکار ہیں، اخبارات ٹی وی، سوشل میڈیا لاشوں کے انبار ، بیماریوں کا ھجوم لے کر گھر گھر گھومتے ہیں اور صرف پیسہ کماتا ہیں، باقی کسی تہذیب، ثقافت کسی کی دل آزاری، یا اندوزوں پر خبریں شائع کرنے پر کوئی پچھتاوا نہیں، پروا نہیں، تین بڑے طبقات ہیں اگر یہ مثبت رول ادا کرتے رہیں، ذاتی مفادات کو ترجیح نہ بنائیں تو معاشرہ بڑی تبدیلی سے ہم کنار ھو  سکتا ھے، صحافی، استاد، اور خطیب یہ تین طبقات قوم کا سب سے بڑا اور اہم طبقہ ہیں، اللہ سب سے زیادہ ان سے ہی پوچھے گا، یہ خوف تو خیر ھے ھی نہیں، اعتراض یہ ہے کہ جی لکھنے نہیں دیا جاتا، بول نہیں سکتے، سرعام آپ گالی تو دیتے اور لکھتے تو ہیں، ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر ارد گرد کے ممالک کا تجزیہ تو کریں، حال ہی میں دیکھیں، وائس آف امریکہ کے نمائندوں کے ساتھ کیا ہوا، مودی کے خلاف صحافیوں کی کیا درگت ھوتی ھے، روس میں تو آپ ھوٹل میں بھی بیٹھ کر بات نہیں کر سکتے، میں دیکھتا ہوں ارد گرد سب کچھ تو بولا جا رہا ہے، ایک ترقی پزیر ملک، جو چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوئے ملک میں آپ آزادی اظہار رائے کو کس پیمانے پر پرکھتے ہیں ، میں قلم کا "سر قلم"کروں یا زبان پر تالا لگاؤں؟میری کوئی تحریر کسی فساد کے زمرے میں آتی ہے تو بتائیں قارئین، قلم چھوڑ دیں گے، زبان بند کر دیں گے، لیکن ھم مر جائیں گے، لکھنا اور بولنا ھی خون میں توازن پیدا کرتا ہے ورنہ بلند فشار خون میں کتنا جی سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :