المیہ صرف مری کا نہیں سماج کا ہے!

پیر 10 جنوری 2022

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

یہ 2005ء کا زلزلہ تھا ھم چار دوست راولاکوٹ روانہ ھوئے،  ڈینش مسلم ایڈ کے پاکستان چپٹر کے ڈائریکٹر ھمارے ساتھ تھے، اسلام آباد سے روالاکوٹ اور باغ سے مظفرآباد تک "ھو کا عالم تھا،" سانحہ بھی بہت بڑا تھا، دکھ اور کرب بھی اندوہناک کچھ راستوں میں خواتین بھی مانگنے کے لیے کھڑی تھیں، مجھے شدید صدمہ اس وقت ھوا کہ وہ سماج، وہ معاشرہ کہاں گیا، جہاں بزرگ آیک آواز لگاتے تھے اور ھزاروں لوگ مدد کے لیے جمع ھو جاتے تھے، کیا ارد گرد کے محفوظ لوگ یہ کام جس میں زندہ بچ جانے والوں کو نکالنا، جو کچھ گھر میں ھے لیکر پہنچ جانا ممکن نہیں تھا؟ کتنے لوگوں کو بچایا جا سکتا تھا، میں بالاکوٹ بھی گیا مگر بے حسی کا یہ عالم تھا کہ جن لوگوں کے گہےھر نہیں گرے وہ افسوس کر رہے تھے کہ ھمارا گھر کیوں نہیں گرا، ھمیں بھی امداد ملتی؟ اس دن لگا سماج مر گیا ہے، سیاست تو کب کی مر گئی تھی، سماج بھی مر گیا، سردار عتیق خان صاحب کی حکومت تھی ، ان کی اپنی فیملی بھی متاثر تھی مگر ان کی کیا ذمہ داری تھی، کہ وہ دو دن تو نظر بھی نہیں آئے؟، اور وہ اسلام آباد میں موجود پائے گئے، کیا انہیں اپنی سماجی روایات کا  پتہ نہیں تھا، پورا کشمیر اور پہاڑی علاقہ بالاکوٹ، ایبٹ آباد ایک روایت کا پاسدار تھا مگر افسوس کہ سب" امداد نگر" بن چکا تھا، مظفرآباد میں ھزاروں لوگ مگر بچوں کو ملبے سے نکالنے کے لیے کدال، بیلچے لے کر نہیں پہنچا ، ھائے کاش مرتے کیا نہ کرتے! سماجی بے حسی نے ھمیں المیوں اور سانحات کی نذر کر دیا ہے، ایسے میں مظفرآباد کا ایک بریگیڈر مجھے زندہ انسان لگا جو اپنے بیٹے کی لاش روانہ کر کے ، فوجی ساتھیوں کی لاشیں بھیج کر، امدادی کاموں میں مصروف تھا، کیا آج مری جیسے سانحے میں انتظامیہ کی غفلت اپنی جگہ، کاش سیاسی دکان کچھ دن بند ھوتی، سماج کو زندہ کر لیتے سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ھوا کہ شاہد خاقان عباسی صاحب پنڈی میں بیٹھ کر مری پر سیاست کر رہے تھے، کوئی شہباز شریف کے قصیدے پڑھ رہا تھا، کہیں مدحت نواز تھی مگر کوئی بندا نواز نہ تھا، کوئی مرحوم حکومت کا مرثیہ خواں تھا، کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم خوار ہوتا ایسا کچھ نہیں تھا،
  ہر سال مری میں کوئی نہ کوئی سانحہ ھوتا ھے، اس مرتبہ برف بھی بڑی، اور سانحہ بھی بڑا مگر کیا چار گنا زیادہ مال بٹورنے والے افراد اسی دنیا کے باشندے ہیں؟ جو ایک چھت تلے کھڑے ہونے کے بھی پیسے لیتے ہیں، کیا پہاڑی دوست اتنے درشت اور بے حس ھو چکے ہیں، مہمان نوازی، مددگار اور غم خواری کا تمدن ختم ہو چکا ہے، کیا مری، مر ہی گیا ہے؟ کیوں نہیں دوڑ کہ لوگ آتے، کیوں انسانیت بیدار نہیں ھوتی، نماز میں آگے، نعروں میں آگے، مگر سماج کو بچانے کے لیے ھم کیوں آگے نہیں ہیں؟ کیا کوئی اے ایس آئی نوید اقبال ساتھ گھر نہیں لے جا سکتا تھا؟پھر کئی سال سے مری کے تاجروں سے لوگوں کو شدید شکایت ھے، تجارت، منافع سب کچھ ضرور کریں، مگر دوسرے کا بھی خیال رکھیں، وہ ایک مہمان بن کر آپ کے پاس آیا ھے، کیا یہ سماج اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کی رہنمائی، مدد اور حفاظت کے لیے نہیں پہنچ سکتا تھا، بیلچہ تو آپ کے گھر میں ھوگا، سوکھی روٹی اور گرم پانی تو ھوا ھو گا، پرانے گرم کپڑے تو ھوں گے، جو کسی کا سر پر چادر بن کر حفاظت کا احساس دلاتا،
انتظامیہ کی غفلت کا کیا کہنا ہے، این ڈے ایم اے بن تھا زلزلے کے بعد بڑے وعدے ھوئے تھے مگر 70 ھزار افراد کی ھلاکتوں کے بعد بھی کوئی ادارہ مسلسل ورکنگ کا اصول نہیں سیکھ سکھا، پیش بندی کے طور پر اقدامات کرنے کا تصور ہی ختم ہو گیا، کیا اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں کو روکا نہیں جا سکتا، یا اس موسم میں تعداد متعین نہیں کی جا سکتی، کوئی ٹوکن، پاس نہیں بنایا جاسکتا محض کچھ دنوں کے لیے، مگر ھم سب لوگ اس میں شامل ہیں،  حکومت کا کیا کہنا وہ سدا ایک جیسی ہی ہوتی ہے مگر سماج کہاں گیا،؟ کوئی ھے، ابن مریم جو اس معاشرے پر کم باذن اللہ پڑھے اور یہ سماج زندہ ھو جائے، یہ درجنوں افراد کی موت کا ذمہ دار یہ معاشرہ بھی اور  قوم نہیں ھجوم بھی ہے، کچھ میری خطا، کچھ تیری خطا، ٹوٹ گیا بھرم، بے نقاب ہوگیا، وہ سماج جو جنگل میں رہتا ہے، جہاں صرف شکار کرکے خود کھانا ھے، کوئی خود بیداری کا چارہ ھو جائے یہ سماج زندہ دوبارہ ھو جائے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :