
ہم اُس دیس کے باسی ہیں
پیر 28 جنوری 2019

پروفیسر رفعت مظہر
(جاری ہے)
جہاں طالع آزما جب جی چاہے عنانِ حکومت سنبھال لیتے ہیں، جہاں سیاست میں کثافت ہی کثافت اورثقافت اہلِ ہند سے مستعار۔
جہاں عالم بے عمل اور فرقوں میں بٹے ہوئے۔ جہاں شیعہ سُنّی فسادات میں ہزاروں جان سے گئے۔ جہاں سیاستدانوں کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے لاشیں درکار۔ جہاں مزدور کے ماتھے کا پسینہ لے کر محل تعمیر کیے جاتے ہیں اور امراض کے تنوروں سے نکلے ہوئے مزدوروں کی حالتِ زاربقول اقبال یہ کہاہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
اِس سانحے میں پولیس گردی کا شکار ہونے والے ذیشان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا ساتھی اور سہولت کار تھا البتہ خلیل، اُس کی بیوی اور بیٹی بیگناہ تھے(یقیناََ ذیشان دہشت گردوں کا ساتھی ہی ہوگا کیونکہ پاکستان میں ہر داڑھی رکھنے والا مشکوک سمجھا جاتا ہے)۔ یہ بھی کہا گیاکہ پولیس کئی دنوں سے ذیشان کا پیچھا کر رہی تھی۔ اُس کے گھر میں مَنوں کے حساب سے بارود پڑا تھا۔ اگر پولیس اُس کے گھر پر ”ریڈ“ کرتی اور وہ بارود پھاڑ دیتا تو بڑی تباہی مچتی اِس لیے اُس کے باہر نکلنے کا انتظار کیا گیا۔ بجا ارشاد، سوال مگر یہ کہ ذیشان کے گھر سے ابھی تک بارود کیوں برآمد نہیں کیا گیا؟۔ اگر گاڑی سے اسلحہ، بارود اور خودکش جیکٹس برآمد ہوئی تھیں تو پھر بم ڈسپوزل اسکواڈکو کیوں نہیں بلایا گیا؟۔ ۔۔۔ اور ہاں وڈیو میں نظر نہ آنے والے موٹر سائیکلوں پر سوارمفرور دہشتگردوں کا کیا بنا؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر ذیشان واقعی دہشت گرد تھا تو پھر اسے زندہ کیوں نہ پکڑا گیا تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی نشاندہی بھی کرسکے۔ رَبّ ِ جبار وقہار سب سے زیادہ غضبناک اُس وقت ہوتا ہے جب بیگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے جاتے ہیں۔ جے آئی ٹی میں کم از کم یہ تو تسلیم کر لیا گیا کہ تین بیگناہ تھے۔ تو کیا اُن پر سیدھی گولیاں چلانے والے اللہ کے غضب کا شکار نہیں ہوں گے۔ سچ کہا ہے لاہورہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار شمیم خاں نے کہ پولیس کو سیدھی گولی مارنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟۔
اپوزیشن نے تو جے آئی ٹی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ کیا حکمران سچائی کی تلاش میں ایسا کوئی کمیشن بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟۔ رہی وزیرِاعظم اور وزیرِاعلیٰ کے مستعفی ہونے کی بات تو پاکستان میں ایسا کوئی رواج نہیں۔ پہلے کپتان صاحب سانحہ ماڈل ٹاوٴن پر سابق وزیرِاعظم میاں نوازشریف اور وزیرِاعلیٰ میاں شہبازشریف سے مستعفی ہونے کا پُرزور مطالبہ کرتے رہے لیکن وہ مستعفی نہ ہوئے کہ وہ ”پرانے پاکستان“ کے باسی تھے لیکن اب تو ”نیاپاکستان“ بن رہا ہے اور”ریاستِ مدینہ“ کی باتیں ہو رہی ہیں، کیا وزیرِاعظم صاحب مستعفی ہو کریہ ثابت کریں گے کہ وہ جو کہتے ہیں، کرتے بھی ہیں یا پھر قوم ایک نئے یوٹرن کا انتظار کرے۔
ماڈل ٹاوٴن اور قادرآباد جیسے سانحات جنم لیتے رہیں گے، بھوکوں مرتے مفلس خودکشیاں کرتے رہیں گے اور حکمران اچھے دنوں کی نوید سناکر صبر کی تلقین بھی کرتے رہیں گے لیکن ہوگا وہی جو گزشتہ سات عشروں سے ہوتا چلا آرہا ہے البتہ تاریخ کا سبق یہی کہ جب حالات اِس نہج پر پہنچ جائیں تو پھر انقلاب آتا ہے، خونی انقلاب، فرانس جیسا انقلاب۔ روسو نے کہا ”انسان آزاد پیدا ہوتا ہے لیکن جہاں دیکھو پابہ زنجیر ہے“۔ روسو کا یہی جملہ بعد میں انقلابِ فرانس کا ابتدائیہ ٹھہرا۔ فرانس کے شاہ لوئی اور اُس کے حواریوں کو بھی اپنی طاقت کا بہت زعم تھا، وہ بھی ”بَدبودار“ کسانوں کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھاکہ جب یہی بدبودار کسان اُٹھے تو کھوپڑیوں کے مینارلگ گئے، ہر سفید
پوش کو بلاامتیاز قتل کر دیا گیا اور شاہ لوئی کی کھوپڑی سے پیرس کی گلیوں میں فُٹ بال کھیلا گیا۔ عظیم فرانسیسی کیمیادان انتونی لاوئزرکو بھی شاہ لوئی کا حامی ہونے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔ اُس کے دوست نے جج کو کہا کہ ایسے سَر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، معاف کردی جائے۔ جج نے جواب دیا ”فرانس کوفطین لوگوں کی ضرورت نہیں“۔
دور مت جائیے، پڑوسی ملک ایران کا انقلاب تو سب کو یاد ہوگا۔ ایران کے رضاشاہ پہلوی کو بھی اپنی طاقت پر بڑا مان تھا۔ وہ ہمہ مقتدر تھا جسے فوج سجدہ کرتی تھی لیکن فرانس میں جلاوطن امام خمینی کی تگ ودَو سے ایران میں انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔ پھر جب امام خمینی نے ایران واپسی کا قصد کیا تو اُن کی وطن واپسی سے پہلے ہی شاہ ایران ملک سے فرار ہوگیا۔ اُس کی کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ کوئی دوست ملک اُسے پناہ تک دینے کو تیار نہ تھا۔ وہ وطن سے دور بے بسی کی موت مرا۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے بھی کھوپڑیوں کے مینار سجائے۔ آج وطنِ عزیز بھی اُنہی راہوں پہ چل نکلا ہے جو خونی انقلاب کی طرف جاتی ہیں۔ ڈَر ہے کہ کہیں روسو کی طرح حضرت اقبال کے یہ اشعار بھی انقلاب کا پیش خیمہ نہ بن جائیں
کاخِ اُمراء کے دَرودیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلا دو
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.