ہم اُس دیس کے باسی ہیں

پیر 28 جنوری 2019

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ہم اُس دیس کے باسی ہیں جو ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، قبضہ مافیا اور کرپشن کے مگرمچھوں کی جنت۔ جہاں جھوٹ، تعصب، نفرت اور منافقت کا مینابازار سجا ہے۔جہاں لسانی جھگڑوں میں ایک دوسرے کے گلے کاٹے جاتے ہیں۔ جہاں ”تعلیمی منڈیاں پیسہ بنانے کی مشینیں ہیں۔ جہاں نجی ہسپتالوں میں مریضوں کو کُند چھری سے ذبح کیا جاتا ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض،راہداریوں میں مریض، فرش پر مریض، سڑک پر مریض۔

جہاں حکمران فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی تجوریاں بھرنے میں مصروف (47 فیصدکمپنیاں سیاستدانوں کی اور 23 فیصد پرائیویٹ ہسپتالوں اور بڑے بڑے ڈاکٹروں کی جنہیں خوش کرنے کے لیے ادویات کی قیمتیں 20 فیصد تک بڑھا دی گئیں)۔ ۔ جہاں عادل اپنے فیصلوں سے زیادہ خود بولتے ہیں حالانکہ مسلمہ اصول یہی کہ عادل خود نہیں بولتے، اُن کے فیصلے بولتے ہیں۔

(جاری ہے)

جہاں طالع آزما جب جی چاہے عنانِ حکومت سنبھال لیتے ہیں، جہاں سیاست میں کثافت ہی کثافت اورثقافت اہلِ ہند سے مستعار۔

جہاں عالم بے عمل اور فرقوں میں بٹے ہوئے۔ جہاں شیعہ سُنّی فسادات میں ہزاروں جان سے گئے۔ جہاں سیاستدانوں کو اپنی سیاست چمکانے کے لیے لاشیں درکار۔ جہاں مزدور کے ماتھے کا پسینہ لے کر محل تعمیر کیے جاتے ہیں اور امراض کے تنوروں سے نکلے ہوئے مزدوروں کی حالتِ زاربقول اقبال یہ کہ
دستِ دولت آفریں سے مُزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
ہم اُس دیس کے باسی ہیں جہاں بسنے والے انسانوں کی قدروقیمت حشرات الارض سے بھی کمتر۔

جو دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز سے بچ نکلتا ہے، اُسے پولیس مار دیتی ہے۔ جہاں سانحات پر مٹی ڈالنے اور مَن مرضی کے فیصلے حاصل کیے جا سکیں اور جہاں ضرورت محسوس ہووہاں قتلِ عمد کو یوں چھپایا جاسکے کہ
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
سانحات تو بہت لیکن ہم صرف ماضی قریب کی بات کریں گے۔

کئی بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والا پولیس کی وردی میں ملبوس ”ٹارگٹ کِلر“راوٴ انوار آج بھی دندناتا پھر رہاہے، اُسے تاریخ پہ تاریخ دی جا رہی ہے۔ یقیناََ سانحہ قادرآباد میں بھی یہی تاریخ دہرائی جائے گی۔ سانحہ قادرآباد پر بننے والی جے آئی ٹی میں جھول عیاں لیکن حکومتی رویہ اُس سے بھی زیادہ شرمناک۔ پنجاب کے وزیرِقانون راجہ بشارت کہتے ہیں کہ آپریشن 100 فیصد درست تھا حالانکہ قادرآباد میں حیوانیت کا ننگاناچ کئی لوگوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا اور وڈیوز بھی بنائی گئیں۔

پہلے کہا گیا کہ 4 اغواکار مارے گئے اور 3 مغوی بچوں کو بازیاب کروا لیاگیا لیکن جب اپنے ماں باپ اور بہن کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھنے والے 10 سالہ معصوم عمیرکا بیان سامنے آیاتو سارا بھید کھُل گیا۔ پھر ایک یوٹرن سامنے آیا اور کہہ دیاگیا کہ گاڑی میں سوار 4 دہشت گرد مارے گئے۔ گاڑی سے اسلحہ، بارود اور خودکش جیکٹس بھی برآمد ہوئیں۔

آئی جی صاحب کے دفتر سے پریس ریلیز سامنے آئی کہ دہشت گرد گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر سوار تھے۔ پولیس نے اُن کا پیچھا کیا تو فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ 4 دہشت گرد مارے گئے اور موٹرسائیکلوں پر سوار دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ بہتر ہوتا کہ پریس ریلیز میں یہ بھی لکھ دیا جاتا کہ 13 سالہ ”دہشت گرد“ اریبہ نے خودکش جیکٹ پہن رکھی تھی تاکہ کچھ تو بات بنتی۔

حقیقت یہ کہ ، بَس سے بنائی گئی وڈیو سے صاف ظاہرکہ پہلے کار کو ٹکر مار کر کھڑا کیا گیا، پھر بچوں کو باہر نکال کر سیدھی فائرنگ کی گئی جس سے بوریوالہ میں اپنے بھائی کی شادی پر جانے والا خلیل، اُس کی بیوی اور بیٹی شہید ہوئے۔ وڈیو سے یہ بھی عیاں کہ کار سے کوئی ایک گولی چلائی گئی نہ اسلحہ بارود اور خودکش جیکٹس برآمد ہوئیں۔
 اِس سانحے میں پولیس گردی کا شکار ہونے والے ذیشان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا ساتھی اور سہولت کار تھا البتہ خلیل، اُس کی بیوی اور بیٹی بیگناہ تھے(یقیناََ ذیشان دہشت گردوں کا ساتھی ہی ہوگا کیونکہ پاکستان میں ہر داڑھی رکھنے والا مشکوک سمجھا جاتا ہے)۔

یہ بھی کہا گیاکہ پولیس کئی دنوں سے ذیشان کا پیچھا کر رہی تھی۔ اُس کے گھر میں مَنوں کے حساب سے بارود پڑا تھا۔ اگر پولیس اُس کے گھر پر ”ریڈ“ کرتی اور وہ بارود پھاڑ دیتا تو بڑی تباہی مچتی اِس لیے اُس کے باہر نکلنے کا انتظار کیا گیا۔ بجا ارشاد، سوال مگر یہ کہ ذیشان کے گھر سے ابھی تک بارود کیوں برآمد نہیں کیا گیا؟۔ اگر گاڑی سے اسلحہ، بارود اور خودکش جیکٹس برآمد ہوئی تھیں تو پھر بم ڈسپوزل اسکواڈکو کیوں نہیں بلایا گیا؟۔

۔۔۔ اور ہاں وڈیو میں نظر نہ آنے والے موٹر سائیکلوں پر سوارمفرور دہشتگردوں کا کیا بنا؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر ذیشان واقعی دہشت گرد تھا تو پھر اسے زندہ کیوں نہ پکڑا گیا تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی نشاندہی بھی کرسکے۔ رَبّ ِ جبار وقہار سب سے زیادہ غضبناک اُس وقت ہوتا ہے جب بیگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے جاتے ہیں۔ جے آئی ٹی میں کم از کم یہ تو تسلیم کر لیا گیا کہ تین بیگناہ تھے۔

تو کیا اُن پر سیدھی گولیاں چلانے والے اللہ کے غضب کا شکار نہیں ہوں گے۔ سچ کہا ہے لاہورہائیکورٹ کے چیف جسٹس سردار شمیم خاں نے کہ پولیس کو سیدھی گولی مارنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟۔
 اپوزیشن نے تو جے آئی ٹی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ کیا حکمران سچائی کی تلاش میں ایسا کوئی کمیشن بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟۔

رہی وزیرِاعظم اور وزیرِاعلیٰ کے مستعفی ہونے کی بات تو پاکستان میں ایسا کوئی رواج نہیں۔ پہلے کپتان صاحب سانحہ ماڈل ٹاوٴن پر سابق وزیرِاعظم میاں نوازشریف اور وزیرِاعلیٰ میاں شہبازشریف سے مستعفی ہونے کا پُرزور مطالبہ کرتے رہے لیکن وہ مستعفی نہ ہوئے کہ وہ ”پرانے پاکستان“ کے باسی تھے لیکن اب تو ”نیاپاکستان“ بن رہا ہے اور”ریاستِ مدینہ“ کی باتیں ہو رہی ہیں، کیا وزیرِاعظم صاحب مستعفی ہو کریہ ثابت کریں گے کہ وہ جو کہتے ہیں، کرتے بھی ہیں یا پھر قوم ایک نئے یوٹرن کا انتظار کرے۔


ماڈل ٹاوٴن اور قادرآباد جیسے سانحات جنم لیتے رہیں گے، بھوکوں مرتے مفلس خودکشیاں کرتے رہیں گے اور حکمران اچھے دنوں کی نوید سناکر صبر کی تلقین بھی کرتے رہیں گے لیکن ہوگا وہی جو گزشتہ سات عشروں سے ہوتا چلا آرہا ہے البتہ تاریخ کا سبق یہی کہ جب حالات اِس نہج پر پہنچ جائیں تو پھر انقلاب آتا ہے، خونی انقلاب، فرانس جیسا انقلاب۔ روسو نے کہا ”انسان آزاد پیدا ہوتا ہے لیکن جہاں دیکھو پابہ زنجیر ہے“۔

روسو کا یہی جملہ بعد میں انقلابِ فرانس کا ابتدائیہ ٹھہرا۔ فرانس کے شاہ لوئی اور اُس کے حواریوں کو بھی اپنی طاقت کا بہت زعم تھا، وہ بھی ”بَدبودار“ کسانوں کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھاکہ جب یہی بدبودار کسان اُٹھے تو کھوپڑیوں کے مینارلگ گئے، ہر سفید
 پوش کو بلاامتیاز قتل کر دیا گیا اور شاہ لوئی کی کھوپڑی سے پیرس کی گلیوں میں فُٹ بال کھیلا گیا۔

عظیم فرانسیسی کیمیادان انتونی لاوئزرکو بھی شاہ لوئی کا حامی ہونے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔ اُس کے دوست نے جج کو کہا کہ ایسے سَر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، معاف کردی جائے۔ جج نے جواب دیا ”فرانس کوفطین لوگوں کی ضرورت نہیں“۔
دور مت جائیے، پڑوسی ملک ایران کا انقلاب تو سب کو یاد ہوگا۔ ایران کے رضاشاہ پہلوی کو بھی اپنی طاقت پر بڑا مان تھا۔

وہ ہمہ مقتدر تھا جسے فوج سجدہ کرتی تھی لیکن فرانس میں جلاوطن امام خمینی کی تگ ودَو سے ایران میں انقلاب کی راہ ہموار ہوئی۔ پھر جب امام خمینی نے ایران واپسی کا قصد کیا تو اُن کی وطن واپسی سے پہلے ہی شاہ ایران ملک سے فرار ہوگیا۔ اُس کی کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ کوئی دوست ملک اُسے پناہ تک دینے کو تیار نہ تھا۔ وہ وطن سے دور بے بسی کی موت مرا۔

ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے بھی کھوپڑیوں کے مینار سجائے۔ آج وطنِ عزیز بھی اُنہی راہوں پہ چل نکلا ہے جو خونی انقلاب کی طرف جاتی ہیں۔ ڈَر ہے کہ کہیں روسو کی طرح حضرت اقبال کے یہ اشعار بھی انقلاب کا پیش خیمہ نہ بن جائیں
اُٹھو ! میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمراء کے دَرودیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلا دو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :