مذاق ڈاوٴن ختم

اتوار 10 مئی 2020

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

سوشل میڈیا پر بیٹھے کچھ شرپسند ہر وقت ہمارے خانِ اعظم کا ”ایویں خوامخواہ“ مذاق اُڑاتے رہتے ہیں۔ ہم تو جب بھی اُن کی تقریر دِلپذیر سُنتے ہیں تو دیر تلک سَر دھنتے ہیں۔ کیا ہوا جو اُن کی زبان کبھی کبھی غوطہ کھا جاتی ہے، وہ لکھی ہوئی پرچیاں تو نہیں پڑھتے۔ یہ سوشل میڈیا کے شَرپسند خانِ اعظم کی طرح ہر روزگھنٹوں بلکہ پہروں فی البدیہہ تقریر کرکے دکھائیں تو مانیں۔

اُن پر لگائے جانے والے الزامات بھی بس ”ایویں ای“ ہیں۔ اگر اُنہوں نے کہہ دیا ”پاکستان میں12موسم ہیں“ تو کیا بُرا کیا۔ موسم بڑھائے ہی ہیں، کم تو نہیں کیے۔ خانِ اعظم نے جرمنی اور جاپان کی سرحدیں آپس میں ملا کر فاصلے مٹا دیئے جس پر وہ دونوں قومیں خانِ اعظم کی تہ دِل سے شکر گزار ہیں۔

(جاری ہے)

اُن کے ہاں تو فاصلے مِٹ جانے پر ”ہر روز روزِعید است ہر شب شبِ برات“ کی سی کیفیت ہے، اِس پرخانِ اعظم کو نشانہٴ تضحیک بنانا بھلا کہاں کا انصاف ہے؟۔

خانِ اعظم نے فرمایا ”قرآنِ مجید میں حضرت موسیٰ علیہ کا ذکر تو ہے، حضرت عیسیٰ علیہ کا نہیں“۔اِس بیان میں ہمیں تو مذاق اُڑانے والی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ بھئی! ہم نے آکسفورڈ کے پڑھے خانِ اعظم کو ملک کی قیادت سونپی ہے، کسی عالمِ دین کو نہیں۔ اب جبکہ وہ ریاستِ مدینہ کی تشکیل کی تگ ودَو میں ہیں تو دینی علم کی یہ کمی بھی دور کر ہی لیں گے۔

کیاآپ نے دیکھا نہیں کہ سیاسی حرکیات سے نابلد اور میدانِ سیاست کے ”چِٹے اَن پڑھ“ خانِ اعظم نے کتنی جلدی سب کچھ سیکھ کر اپوزیشن کو ”نَتھ“ ڈال دی۔ اُن سے منسوب اور بھی بہت کچھ لیکن شَرپسندوں کوجواب دینا کوئی اتنا ضروری بھی نہیں کہ ہم ”ایویں ای“ اپنے دماغ کی لَسی بناتے پھریں، اِس لیے پلٹتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔
حاسد کہتے ہیں کہ پاکستان میں لاک ڈاوٴن نہیں، مذاق ڈاوٴن ہے۔

اِس کی توجیہہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ لاک ڈاوٴن کرنے یا نہ کرنے پر خانِ اعظم کے نقطہٴ نظر کی ”کَکھ“ سمجھ نہیں آتی۔ ایک طرف یہ فرمان کہ وہ لاک ڈاوٴن کے خلاف ہیں کیونکہ لاک ڈاوٴن سے معیشت برباد ہو جائے گی اور غریب بھوکوں مر جائیں گے جبکہ اُسی زبان سے یہ بھی کہتے ہیں کہ لاک ڈاوٴن سے اموات میں کمی ہوئی۔ فرمایا ”لاک ڈاوٴن کا اعلان اشرافیہ نے کیا“ جبکہ یہ فرمان بھی ”لاک ڈاوٴن کرکے بڑے نقصان سے بچ گئے“۔

شرپسند کہتے ہیں ”کیہڑی مَنیے تے کیہڑی نہ مَنیے“۔ شرپسندوں کا یہ دعویٰ بھی فضول کہ تاریخِ پاکستان میں آج تک تو کوئی بھوک سے مرا نہیں، مجوزہ ریاستِ مدینہ میں مَر جائے تو پتہ نہیں۔ ہمارے خیال میں ایسے اعتراضات کرنے والے سبھی فاتر العقل ہیں کیونکہ خاں صاحب تو بہت پہلے وضاحت کر چکے ” اپوزیشن والے یوٹرن نہ لے کر جیلوں میں چلے گئے اور میں یوٹرن لے لے کر وزیرِاعظم بن گیا“۔

کیا اُنہوں نے نہیں کہا تھا کہ عظیم لوگ ہمیشہ یوٹرن لیتے ہیں۔ اب اگر اِس بَدبخت ”کورونا“ کی وجہ سے خانِ اعظم کو جلدی جلدی یوٹرن لینے پڑ رہے ہیں تو یہ اُن کی فہم وفراست اور عظمت کی نشانی ہے، اِس پر اعتراض کیوں؟۔یاد رکھیں!یہ خانِ اعظم کے کورونا وائرس کے سلسلے میں تیزی سے یوٹرن لینے کی برکت ہی ہے کہ اندرونی و بیرونی امداد سے ہمارے خزانے دھڑادھڑ بھر رہے ہیں۔

ٹوٹے پھوٹے لاک ڈاوٴن پر خانِ اعظم کے چُپ رہنے میں یہ مصلحت تھی کہ اقوامِ عالم کو بھی خبر پہنچ جائے کہ ہم بھی ”کورونا گزیدہ“ ہیں، تبھی تو امداد ملتی۔ ہماری دِلی خواہش ہے کہ خانِ اعظم آئین کے آرٹیکل 62/63 میں یوٹرن کی شِق کا اضافہ بھی کر دیں اور الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کر دیں کہ جس اُمیدوار کے کھاتے میں کوئی یوٹرن نہ ہو، اُسے نااہل قرار دیا جائے۔

منشور ونشور کو ماریں گولی کہ یہ سب سیاستدانوں کی چال اور عوام کو ”گولی کرانے“ کے مترادف، قوم بس یہ دیکھے کہ کس نے کتنے یوٹرن لیے، پھر جو جیتاوہی سکندر۔
 خانِ اعظم کے یوٹرنوں پر تو کورونا بھی حیران وپریشان کہ وہ کس ملک میںآ ن پھنسا ہے۔ کورونا کو یہی پتہ نہیں چل رہا کہ اُس سے دو، دو ہاتھ کرنے کے لیے کونسا حربہ استعمال کیاجائے گا۔

کبھی ”کورونا“ خوش ہوتا ہے کہ جب سربراہ ہی لاک ڈاوٴن کے خلاف ہے تو پھر ”گلیاں ہو جان سُنجیاں، وِچ مرزایار پھرے“ کے مصداق کِس بات بات کا خوف اور کاہے کا ڈر، شکار میں خوب مزہ آئے گا۔ جب وہ سربراہ کی زبان سے یہ سنتا ہے کہ لاک ڈاوٴن کرنے کی وجہ سے بڑے نقصان سے بچ گئے تو پریشان ہو جاتا ہے۔ خانِ اعظم کی اِسی حکمت عملی نے کورونا کو بھی بوکھلا کے رکھ دیا ہے۔

اب خانِ اعظم نے حتمی طور پر 9 مئی کو لاک ڈاوٴن ختم کر دیا لیکن ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دے دی کہ اگر لوگوں نے حکومتی ہدایات پر عمل نہ کیا تو وہ پھر سے لاک ڈاوٴن کر دیں گے۔ یہ دھمکی دراصل قوم کو نہیں، کورونا کو ہے کہ وہ اپنا ”ہَتھ ہَولا“ رکھے کیونکہ مَنچلوں نے تو پہلے ہی لاک ڈاوٴن کو مذاق ڈاوٴن بنا رکھاتھا۔ اب تو منچلوں کو کھُلی چھُٹی مِل گئی، پھر کہاں کا سماجی فاصلہ اور کہاں کی احتیاط۔


حکومتِ سندھ دو کشتیوں میں سوار، وہ لاک ڈاوٴن کے خاتمے پر خوف زدہ اور مرکزی حکومت کے ساتھ قدم سے قدم ملاکرچلنا بھی چاہتی ہے۔ اب پنجاب حکومت بھی خوفزدہ، پنجاب کے وزیرِاطلاعات فیاض چوہان نے کہاکہ لاہور سمیت پنجاب کے کم از کم 6 بڑے شہروں میں تو لازماََ سخت لاک ڈاوٴن ہونا چاہیے کیونکہ وہاں کیسز کی تعداد روزبروز بڑھ رہی ہے۔ بلوچستان بھی گومگو کی کیفیت میں۔

وجہ سب کی ایک کہ کورونا کیسز کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔ ایک جائزے کے مطابق بلوچستان میں کورونا کیسز کی تعداد 7 فیصد سے 13 فیصد تک پہنچ چکی۔ پنجاب میں یہ کیسز 8سے 18 فیصد تک بڑھ چکے۔ صرف کراچی میں8 مئی کو تقریباََ 600 نئے کیسز سامنے آئے۔ نئے کیسز جوپہلے روزانہ زیادہ سے زیادہ 500 تک ہوتے تھے، اب صرف 8 مئی کو اُن کی تعداد 1764 ہے۔ اگر یکم سے 9 مئی تک کا جائزہ لیا جائے تو نئے کیسز کی تعداد فی دِن 1000 سے بھی زیادہ بنتی ہے۔

ہیلتھ پروفیشنلز کے خیال میں لاک ڈاوٴن کے خاتمے کے بعد مئی کے آخر یاجون کے پہلے ہفتے تک حالات بے قابو ہو جائیں گے۔ اپوزیشن کے خیال میں لاک ڈاوٴن کے خاتمے سے کورونا کا پھیلنا اظہر مِن الشمس لیکن خانِ اعظم کو یقین کہ قوم اُن کی ہدایات پر ضرور عمل کرے گی، ہم اُن کے یقین کے ساتھ۔ کورونا نے تو آخر ختم ہو ہی جانا ہے لیکن اِس کی برکت سے بیرونی امداد کے ذریعے ہمارے ہسپتال تو لَش پَش کرنے لگیں گے۔ رہی اموات کی بات تو ہم مسلمان ہیں جن پر بچے پیدا کرنے کی کوئی پابندی نہیں۔ یہ کمی ہم بہت جلد پوری کر لیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :