پاکستانی سیاست کے رنگ چوکھے

اتوار 6 ستمبر 2020

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

میاں شہبازشریف اور آصف زرداری کی کراچی میں ملاقات پرشیخ رشید یاد آیا جس نے ماضی میں کپتان کی تحریکِ انصاف کے بارے میں کہا تھا، کپتان کے پاس تانگے کی سواریاں بھی نہیں۔ جوابا کپتان گویا ہوئے کہ وہ شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی بھی رکھنے کو تیار نہیں۔ آج کپتان ملک کے وزیرِاعظم ہیں اور شیخ رشید اُن کی کابینہ کا اہم وزیر۔ دونوں یک جان دو قالب کہ لمبی لمبی چھوڑنے میں دونوں کا کوئی ثانی نہیں۔

وزیرِاعظم 100 دنوں میں ملک کی تقدیر تو کیا بدلتے،11 ارب ڈالر سے زائد مزید قرضہ چڑھا بیٹھے۔ ایک کروڑ نوکریوں کی جگہ لاکھوں بیروزگار کر دیئے اور 50 لاکھ گھروں کا وعدہ سب کے سامنے، 2 سال سے زائد ہونے کو آئے ابھی تک کسی ایک گھر کی ایک اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکی البتہ رجسٹریشن کی مَد میں لمبی دہاڑی ضرور لگالی۔

(جاری ہے)

اب قوم کوٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے ہوئے ”نیالاہور“ بسانے جا رہے ہیں۔

شیخ رشید بھی ریلوے کی تقدیر بدلنے کے لمبے چوڑے دعوے کرتے رہے لیکن ریلوے میں نِت نئے حادثات اور انسانی جانوں کے زیاں کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ پیپلزپارٹی کے دورِحکومت میں میاں شہبازشریف اپنے ہر خطاب میں کہتے تھے کہ اگر نوازلیگ کی حکومت آئی تو وہ آصف زرداری کو سڑکوں پر نہ گھسیٹیں تو اُن کا نام بدل دینا۔ آج سفاری سوٹ میں ملبوس میاں شہباز شریف اُسی بلوچ سردار کے درِدولت پر حاضری دیتے ہوئے پائے گئے۔

نام اُن کا البتہ آج بھی میاں شہبازشریف ہی ہے۔ آصف زرداری نے بھی نہیں کہا کہ میاں صاحب اگر ملاقات کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنا نام بدل کر آئیں۔ہم نے تو سنا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن ثابت ہوا کہ غیرت بھی نہیں ہوتی۔ غیرت تو تبھی ہوگی جب اقتدار کی ہوس نہ ہو لیکن ”اِس حمام میں سبھی ننگے ہیں“۔ شاید ایسے ہی مناظر دیکھ کر شورش کاشمیری نے کہا ”گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں“۔


پاکستانی سیاست کی ایک مسلمہ خوبی ”جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس ہے“۔ جمعہ 4 ستمبر کو ایڈیشنل سیشن جج نے نوازلیگ کے کیپٹن(ر) صفدر اور 16 دیگر افراد کی ضمانت کینسل کردی۔ ایس ایچ او نے عدالت کو بتایا کہ لاہورنیب میں مریم نواز کی پیشی کے موقعے پر نیب آفس پر حملہ کیا گیا جو دہشت گردی کے زمرے میں آتاہے۔ اِس لیے ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کر دی گئی ہیں۔

عدالت کا یہ فیصلہ درست اور سرِتسلیم خم مگر ذرا ماضی میں جھانکیں۔ یہ اگست 2014ء ہے، میدان اسلام آباد ڈی چوک۔ کپتان کی بڑھکیں جن میں طاہرالقادری کی آواز بھی شامل ہے۔ پھر وزیرِاعظم ہاوٴس پر قبضے کا فیصلہ ہوتاہے اور مشتعل ہجوم پیش قدمی کرتاہے لیکن فوج کی مداخلت سے وزیرِاعظم ہاوٴس کے بیرونی گیٹ سے واپسی پر سارا غصہ پارلیمنٹ ہاوٴس کے بیرونی گیٹ کی توڑپھوڑ پر نکلتا ہے اور مشتعل ہجوم کا ایک حصہ پارلیمنٹ ہاوٴس کے لان میں ڈیرے جما لیتاہے۔

یہ دہشت گردی نہیں تھی، ہرگز نہیں تھی۔ اگر دہشت گردی ہوتی تو مشتعل ہجوم کو ”لیڈ“ کرنے والا آج ملک کا وزیرِاعظم کیسے ہوتا؟۔ چشمِ فلک نے یہ بھی دیکھا کہ تحریکیوں نے پی ٹی وی پر قبضہ کیا اور پولیس سٹیشن پر حملہ کرکے اپنے ساتھی چھڑوانا بھی دہشت گردی نہیں تھی۔ یوٹیلٹی بلز کا سرِعام جلانا اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ہُنڈی کے ذریعے رقوم پاکستان بھیجنے کی تلقین کرنا بھی دہشت گردی ہے نہ بغاوت کیونکہ زورآوروں کا ایک مضبوط گروہ کپتان کی پُشت پرتھا جس کی طرف جاویدہاشمی باربار اشارہ کرتے رہے۔

شیخ رشید تحریکِ انصاف کے ہر جلسے میں جلاوٴ گھیراوٴ، مارو، مرجاوٴ، جاتی اُمرا پر حملہ کر دو، کہتے رہے لیکن وہ بڑھکیں بھی دہشت گردی کے زمرے میں ہرگز نہیں آتیں۔ ہاں! مریم نواز کی پیشی کے موقعے پر دہشت گردی ضرور ہوئی حالانکہ نوازلیگ کے کسی کارکُن نے نیب لاہور کا گیٹ توڑا نہ اندر گھسنے کی کوشش کی۔ یہ ایکشن دہشت گردی کے زمرے میں محض اِس لیے آیا کہ آجکل نوازلیگ مقہور۔

جس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا چیف جسٹس یہ کہے ”حکومت میں ملک چلانے کی صلاحیت ہے نہ قابلیت“ وہاں فلک پہ ستارے نہیں اُبھر ا کرتے، بس گھور اندھیرا ہی مقدر ٹھہرتا ہے۔
ہم تو ہمیشہ ہلکے پھلکے کالم ہی لکھتے رہے لیکن جونہی سیاست کو ”ٹھونگے“ مارنا شروع کیے طبیعت ”اوازار“ اور پارہ ہائی رہنے لگا۔ سجب سے ”موئے“ اخبار کا ریگولر مطالعہ شروع کیا اور نیوزچینل بدلنے شروع کیے، زندگی کی ساری خوشیاں سمٹ کر رہ گئیں۔

لکھاری ارسطوانہ تجزیے کرتے ہوئے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتے رہتے ہیں حالانکہ جانتے وہ بھی ہیں کہ فیصلے ”کہیں اور“ ہوتے ہیں۔ ہم بھی اُنہی میں سے ایک ہیں اِس لیے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں لکھ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حق ادا ہوگیا۔ ہلکے پھلکے کالموں کی طرف اِس لیے نہیں پلٹ سکتے کہ سیاست کا چَسکا لگ چکا حالانکہ”مردوں کے معاشرے“ میں ہمیں حقوقِ نسواں کا علمبردار ہونا چاہیے۔

یہ ایسا معاشرہ ہے جس میں کچھ لوگ خواتین کی ڈرائیونگ سے چِڑکر پورا کالم ہی لکھ مارتے ہیں اور خواتین کی عمروں پر بھی لطیفے گھڑتے رہتے ہیں۔ دور مت جائیں ہمارے میاں نے پچھلے دنوں جو کالم لکھا، اُس کی روح ”مردانہ“ تھی اور ہمیں اُن سے محض اِس لیے اتفاق کرنا پڑا کہ نقصِ امن کا شدید خطرہ تھا۔ یہ بجا کہ دین نے خواتین کے لیے کچھ حدودوقیود مقرر کر رکھی ہیں لیکن یہ حدودوقیود مردوں کے لیے بھی ہیں۔

جمعہ 4 ستمبر کو یومِ حجاب تھا۔ پاکستان میں ہرسال یومِ حجاب کا اہتمام قاضی حسین احمد مرحوم کی دختر سمیعہ راحیل قاضی کرتی ہیں اور جماعت اسلامی کی خواتین اِس میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔ ہمیں اور کہیں یومِ حجاب نظر نہیں آتا۔ ہمارا خیال ہے (جس کے غلط ہونے کے 100 فیصد امکانات ہیں) کہ یہ کورونا سمیعہ راحیل قاضی کی دعاوٴں کی بدولت وارد ہوا جس نے خواتین کے ساتھ ہی ساتھ مردوں کو بھی ”حجاب آلود“ کردیا۔

جن ملکوں میں حجاب پر پابندی تھی، وہاں بھی یہ پابندی اٹھا لی گئی۔ ہم پاکستانیوں کی حالت یہ کہ امیروں کا ماسک اور ہے اور غریبوں کا اور۔ بلاول زرداری نے سندھی ماسک ”اوڑھ“ رکھا ہوتاہے۔ اشرافیہ ”کھوپانما“ قیمتی ماسک میں نظر آتی ہے جسے N-95 اور KN-95 کہتے ہیں۔ خیر اب کوئی باحیا ہو یا نہ ہو ”باحجاب“ ضرور ہے۔ ہم ہرگز ایسے لغو نعروں کے قائل ہیں نہ اِنہیں پسند کرتے ہیں جو یومِ خواتین پر سنائی دیئے۔

نہ ہی ہم اہلِ مغرب کی طرح مادرپدر آزاد معاشرے کے قائل ہیں۔ ہم تو دین میں دیئے گئے حقوق کی عملداری کی بات کرتے ہیں جو فی الحال مفقود ہے۔ اِسی لیے یہ کہنا پڑا کہ اگر خواتین پر کچھ پابندیاں ہیں جن کا مرد حضرات پرچار کرتے رہتے ہیں تو وہ اپنی اداوٴں پہ غور کرتے ہوئے قُرآنِ مجید فرقانِ حمید کا مطالعہ کرلیں شاید اُن کی آنکھیں کھل جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :