نیب کے خاتمہ کی تیاریاں!

بدھ 6 مئی 2020

Professor Zahoor Ahmed

پروفیسر ظہور احمد

دنیا اس وقت کرونا وبا کا مقابلہ کرنے کے جتن کر رہی ہے ۔ہر ملک اپنی اپنی بساط کے مطابق اس سلسلہ میں کوشاں نظر ارہا ہے ۔ایسے میں میرے وطن عزیز کے باسی بھی نہ صرف اس میدان میں بر سر پیکار ہیں بلکہ حسب روائیت مزید محاذکھولنے کےلیے بھی  کوشاں نظر اتے ہیں ۔ایک طرف روائیتی سیاسی محاذ آرای تو دوسری طرف غیر ضروری مباحث الزام تراشیاں اور مایوسی پھیلانے کا سامان لانے والی باتیں ۔

یہ سب کچھ کیوں کس لیے اور نتیجہ کیا نکلےگاان باتوں کا اس  پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس وقت کرونا وباکے ساتھ ساتھ موضوع بحث دیگر معاملات میں سر فہرست نیب قوانین میں ترامیم اور اٹھارہویں ائینی ترمیم ہیں ۔پہلی بات یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ان دونوں باتوں کو پہلی ترجیحی کے طور پر زیر بحث لانے کی ضرورت ہی نہیں اس لیے کہ اس وقت ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اس وبا سے چھٹکارا پانے پر صرف کرنا چاہییں۔

(جاری ہے)

لیکن اگر ان پر اسی وقت بات کرنا بہت ضروری ہے تو پھر جہاں تک اٹھارہویں ترمیم کا تعلق ہے اس معاملہ کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوے بات کی جانی چاہیے ۔ائین  کسی بھی قوم اور ملک کےلیے سب سے مقدس پلیٹ فارم ہوتا ہے ۔بد قسمتی سے ابتدا سے اج تک ہمارے  حکمران بجاے عوامی مفاد کے اس میں اکثر اپنے مفاد کی ترامیم کرتے رہے۔ ایسانہیں ہونا چاہیے۔اج اگر حقیقی معنوں میں اس میں ترمیم کی مزید ضرورت ہے تو جمہوری اصولوں کی روشنی میں اسے دونوں ایوانوں میں لایا جاے اس پر کھل کر بحث ہو پھر اگر منتخب نمائندگان کی مطلوبہ اکثریت کسی بات اتفاق کرتی ہے ترمیم کر دی جاے تو یہ ان کا حق ہے اسی کا نام جمہوریت ہے ۔

تاہم سیاسی سودے بازی کی افسوسناک روائیت کو پھر سے دوہراے جانے کی خبریں ارہی ہیں کہ ایک بڑی سیاسی جماعت اپنے لیے نیا این اراو لینے کے لیے قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر اٹھارہویں ترمیم پر حکومت کا ساتھ دینے کےلیے تیار ہورہی ہے  ۔اگر ایسا ہی تو یہ قوم کے ساتھ ایک اور بہت بڑا اور برا مزاق ہو گا ۔
اج کا زیر بحث دوسرا اہم موضوع نیب قوانین میں ترمیم ہے ۔

یہ بھی بظاہر سراسربدنیتی پر مبنی کوشش ہے جس کا مقصد صرف اور صرف بدعنوان عناصر کو تحفظ فراہم کرنا ہے معلوم نہیں حکومت وقت کو کون سی قوتیں ایسی بے تکی حرکات پر مجبور کر رہی ہیں  ۔ زرا غور فرمایےکہ مبینہ طور پر نئےقانون کی روشنی میں ایک ارب تک کی کرپشن کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاے گا شاید اسلیے کہ پاکستانی عوام کےلیے ایک ارب روپے کوی چیز ہی نہیں جبکہ حالت ہماری یہ ہے کہ ہمارا مزدور اور کسان اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرکے بھی اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی مہیا نہیں کر سکتا ۔

اور دوسری بات یہ کہ چند سال قبل کےمعاملا ت کو بھی نہیں چھیڑا جاے گا غالبااس سے مراد صرف ایک سیاسی جماعت کا صرف ایک دور حکومت ٹارگٹ کرنا مقصود ہے خدا راہ کوی عقل کی بات  کیجیے ۔اس ملک میں کرپشن اور لوٹ مار کی داستانیں تو شروع سے ہی زبان زدعام رہی ہیں مگر کرپشن کو جاءز قرار دینے کا سلسلہ اس طرح شروع ہوا وا  اج سے بیس سال قبل ایک  امر نے اقتدار پر قابض ہو کر احتساب کے نام پر ڈرامے شروع کر دیے تھے اور نہ صرف اندرون ملک بلکہ پوری دنیا سے کرپٹ پاکستانیوں کو لاکر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کا سامان کیا ۔

قوم نے دیکھا کہ اربوں لوٹنے والے چند کروڑ اور کروڑوں لوٹنے والے چند لاکھ دے کر پاک صاف ہو کر شامل اقتدار ہو گئے اور یوں لوٹ مار کرنے والوں کی جو حوصلہ افزای ہوی کہ پھر کرپٹ عناصر نے اس قوم چودہ طبق روشن کر دیے ۔اس سے قبل لوگوں کے ذہنوں میں کچھ تو خوف تھا مگر اس کے یہ لائسنس جو جاری ہوگیا کہ کسی طرح اقتدار میں اور جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹ لو اگر کبھی کوئی مسلہ بن جاے تو چند فی صد خزانے میں جمع کروا اور بس اتنی سی بات ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ہو گا ۔


۔سوچنے کا مقام یہ ہے کہ نیب کی اس وقت تک کی مجموعی  کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوے نیب قوانین مزید سخت کرنے  کی ضرورت ہے یا نرم کرنے کی  جو لوگ نیب قوانین کو نرم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں ان کےلیے بقول شخصے یہی کہا جا سکتا ہے کہ کوی شرم ہوتی ہے کوی حیاء ہوتی ہے قوم کے ووٹوں سے اقتدار میں انے والو یہ کیا کرنا چاہتے ہو ۔چوروں کو کھلی چھٹی دینے کی باتیں کر۔

نے والو تمہیں خدا کے اگے جان نہیں دینی ۔اس وقت جبکہ ہر چند روز بعد اربوں نہیں کھربوں کی کرپشن کاکوئی نہ کوئی سکینڈل منظر عام پر ارہا ہے اور یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے  قوم پوچھتی ہے پوری دنیا پوچھتی ہے کہ اتنے بڑے بڑے معاملات سامنے ارہے ہیں کسی کے خلاف کوئی کارروای کیوں نہیں ہوتی تو جواب اتا ہے قوانین کے ہاتھوں مجبور ہیں ایک طرف یہ کہا جاتا ہے ہمارے ہاں چین یا سعودی عرب جیسے اختیارات نہیں کہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاسکے تو دوسری طرف جو تھوڑی بہت گنجائش موجود ہے اسے بھی ختم کرنے کے درپے ہو جانا کونسی دانشمندی ہے ۔

ابھی ان دنوں خبریں ارہی ہیں کہ سندھ میں صرف ایک (گندم) مد سے پندرہ ارب چوری کی واردات ہوی نیب نے موجودہ قوانین کی روشنی اپنی بھرپور کوشش کی تو بمشکل اٹھ یا دس ارب روپے کور ہو سکے باقی جن لوگوں کے زمہ ہیں قانون ان تک رسای کی اجازت نہیں دے رہا ۔ایسے میں ان قوانین میں جو مزید نرمی لائی جاے گی تو اس کی روشنی میں ہمارا کیا  بنے گا ملک عزیز یہ ستم کس حد تک سہار سکے گا  اللہ ہی حافظ ۔

اس قوم کے ساتھ ایک عرصہ سے  جو کچھ ہورہا اسے یہ بظاہر مجبور قوم برداشت کیے جارہی ہے مگر اس وقت لمحہ فکریہ حکمران جماعت تحریک انصاف کےلیے ہے کہ کیا یہی وہ انصاف ہے جس کےلیے قوم اپ کو اقتدار میں لائی تھی کیا یہی وہ انصاف کی تحریک ہے جس کےلیے بیس سال جدوجہد کی گئ تھی ۔یادرہے کہ اس قوم کے انصاف پسندوں نے اپ کو انصاف اور قانون کی سر بلندی کےلیے ووٹ دیا تھا چوروں کو  تحفظ دینے کےلیے نہیں ۔

اگر اپ چوروں اور لٹیروں کے سامنے اتنے بے بس اور مجبور ہو چکے ہیں کہ ان کی مرضی کے مطابق انکے تحفظ کا قانون لانے کے سوا اپ کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا تو اپ کےلیے بہترین راستہ یہ ہے کہ معروف جمہوری اصولوں کی روشنی میں دوبارہ عوام کے پاس جائیں اور اپنی بات عوام کے سامنے رکھیں کہ اس غیر واضح مینڈیٹ .  میں اپ کےلیے کیا مشکلات رہی ہیں تو امید واثق ہے کہ قوم اپ کو دوبارہ واضح مینڈیٹ سے اقتدار میں لاے گی ۔

لیکن اگر اپ اس کی بجاے این ار او کی کسی نئ قسم کی طرف جاتے ہیں تو یہ اپ اپنے ہاتھوں اپنی سیاست کا خاتمہ کریں گے اس لیے کہ اپ لوگ احتساب کا نعرہ لے کر اے تھے اس سے روگردانی اپ کےلیے خود کشی کے مترادف ہوگی ۔ لٹیروں کو تحفظ دینا  ایسی خبر ہے کہ قوم پر بجلی بن کر گرنے والی بات ہوگی ۔یقین تو نہیں ارہا کہ اس قوم کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہونے جارہا ہے مگر وطن عزیز کی المناک سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ایسے نامعقول اقدامات ہماری تاریخ کا سیاہ باب ضرور ہیں ۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک کو درپیش مساءل میں  کرونا وبا کے علاوہ سب سے بڑے مسلے جسے اگر اج ام المسائل کہا جاے تو غلط نہ ہو گا بہت سنجیدہ لیا جاے۔ کرپشن ایک عرصے سے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی مگر اب بظاہر جس طرح اس کی مزید حوصلہ افزای ہونے جارہی ہے اس طور پر تو  یہ طوفان بن کر سب کچھ ملیا میٹ کرتی نظر اتی ہے  ۔
نیب نے خامیوں کے باوجود ملک میں موجود دوسرے اداروں کے مقابلہ میں نسبتا بہتر کارکردگی دکھای اور لوٹی گءی دولت کا کچھ حصہ واپس خزانے میں اسکا ہے  اس وقت کچھ بہتری  دکھانے والےاس  ادارے کو مفلوج  کرنے کی بجاے اس میں مزید بہتری لا ے  جانے کی ضرورت ہے اور اسے ایک طاقتور ادارے کے طور پر کام کرنے کا قوقع دیا جاے نا چاہیے  اس تناظر میں نیب قوانین کو ضرور دیکھا جاے مگر اس نقطہ نگاہ سے کہ نیب قوانین میں جو ایسے سقم موجود ہیں جن کی وجہ سے ملک لوٹنے والے لٹیرے چھوٹ جاتے ہیں تو دوسری بعض لوگوں کو چھ ماہ تک ضمانت نہیں ملتی چھ ماہ ضمانت نہ ہونا بھی سوال بنتا ہے اس کا اج تک فاءدہ کیا رہا ہے سواے بد نامی کے  ۔

الغرض نیب قوانین کو دیکھا ضرور جاے مگر مطمع نظر ہر حال میں لوٹی ہوی دولت کی واپسی ہو  جو قوانین بظاہر صرف سیاسی مقاصد کےلیے بناے گئے تھے  ان قوانین کی جگہ حقائق کے تناظر میں  ایسے قوانین لاے جائیں کہ نہ صرف لٹیروں کو نشان عبرت بنایا جاے بلکہ ہر حال میں ان سے ایک ایک پائی وصول کی جاے ان کی جائیدادیں ضبط کی جائیں انہیں ہی نہیں ان کی ائندہ نسلوں کو بھی عبرت ہو کہ قوم کے ساتھ بے ایمانی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔

یہ کافی نہیں کہ انہیں کچھ عرصہ کےلیے پورے پروٹوکول اور شاہانہ سہولیات کے ساتھ بظاہر گرفتار کرکے قوم کی انکھوں دہول جھونک کر پھر چھوڑدیا جاے اور یہ عوام میں اکر اس انداز میں اپنے اپ کو پیش کریں کہ کوی محاز فتح کرکے ائے ہیں  اگر احساب کے حوالے سے نیک نیتی ہے تو۔ بہت باتوں کو ایک طرف رکھ کر یہ اصول بنا دیا جاے کہ ہر شخص اپنی جائیداد کے زرائع بتاے جوشخص جس پراپرٹی کے زرائع نہیں بتا سکتا اسے بحق عوام ضبط کرلیا جاے ۔

بات بڑی سیدھی سادی ہے کہ اپنی کمای ہوی یاجائز زرائع والی دولت کی وضاحت دینا کوئی مشکل بات نہیں ہر شخص وہ امیر یا غریب  اگر اس نے دولت محنت سے کمائی ہے تو اس کےلیے وضاحت دینا کوئی مسلہ نہیں ہے  ۔ورثے میں ملی ہوی دولت کے ثبوت پیش کرنا بھی کسی طور مشکل نہیں اگر مشکل ہے تو صرف یہ کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کون کہے۔یہ کس قدر نا نصافی ہوگی کہ ایک ایسی سیاسی جماعت جس کو عوام نے لٹیروں کو نشان عبرت بنانے کےلیے مینڈیٹ دیا وہ ان لٹیروں کو تحفظ دینے کا قانون لے اے ۔

اس قوم کے ساتھ بہت ظلم ہو چکا ہے ۔لہزا خدا راہ اس قوم کو مزید کرب میں ڈالنے کی بجاے حق اور انصاف کی بات کیجیے قوم کو جان ومال کا تحفظ فراہم کیجیے۔
ورنہ اس قوم کی بد دعا اپ کو وہاں پنچا دے گی کہ داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :