نئی تعلیمی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے

منگل 19 جنوری 2021

Professor Zahoor Ahmed

پروفیسر ظہور احمد

ملک عزیز میں کرونا بحران کے تناظر میں تعلیمی عمل سے منسلک حکام کے سامنے آئندہ  کی حکمت عملی کے حوالہ سے نصاب میں کمی اور کئی دوسرے اقدامات زیر بحث رہے ہیں ۔یہ بہت حساس نوعیت کے معاملات ہیں  اور ان پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضروت ہے ۔ڈگری یا سند جاری کر نے کا مقصد اصولا اس بات کی تصدیق کرنا ہے کہ کوئی شخص متعلقہ شعبہ میں کیا مہارت حاصل کر چکا ہے اور اس میدان میں اس حوالہ سے اس کے پاس کس درجے کی  صلاحیت ہے ۔

یہاں اصولا اس بات کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہوتی کہ کسی شخص نے اس بارے میں مہارت حاصل کرنے میں بھر پور دلچسپی کا اظہار کیا تھا مگر کچھ وجوہات کی بنا پر وہ ایسا نہیں کر سکا لہذا اس کی دلچسپی کے تناظر میں اسے سند عطا کردی جاے ۔

(جاری ہے)

اصول  یہ بنتا ہے کہ صلاحیت حاصل کرنے میں کوئی بھی رکاوٹ درپیش ا جائے اس کی نوعیت کسی بھی طرح کی ہو بات بڑی واضح ہے کہ اگر  کسی بھی وجہ سے کسی بھی طور پر اگر کوئی مطلوبہ صلاحیت حاصل نہیں کر سکا تو وہ اس کا اہل نہیں نہ ہی وہ  اس سند کا حقدار ہے ۔

اقوام کی تباہی کا سبب بننے والی بہت سی دیگر وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی رہی ہے کہ ایک شخص جس بات کی صلاحیت نہیں رکھتا اسے اس بات کی تصدیق دےدی جائے کہ وہ وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہے کیا یہ انصاف ہے کیا یہ سب محض خود فریبی میں مبتلا ہونے کا سامان نہیں ۔  اس طرح کے اقدامات محض اپنی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے اور قوم کی تباہی کا سامان ہے۔

ہماری بدقسمتی یہی رہی ہے کہ ہم نے اپنے اوپر ان لوگوں کو مسلط کیے رکھا جن میں یہ صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ ہمیں صحیح سمت میں لے جاسکتے ان کے نزدیک ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی نقلی کا فرق نہیں۔ ۔ اگر ہماری قسمت کا فیصلہ کرنے والوں میں حقائق کے کے تناظر میں منصوبہ سازی کی صلاحیت ہوتی تو ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔
بات یہ ہے کہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہر حال میں ڈگریاں تھمانا لازمی کیوں ہے کیا ڈگری ہاتھ میں آجانے سے تمام معاملات حل ہو جاتے ہیں ایسا نہیں ہے۔

۔اس وقت ملک عزیز میں معاشی مسائل اور بے روزگاری کی جو صورتحال جارہی ہے اس کا بہت حد تک ز مہ   دار یہ طرز عمل ہے کہ ڈگریوں کا حصول بہت سہل بنا دیا گیا ہے ۔نوجوانوں کی کثیر تعداد ہاتھوں میں ڈگریاں لیے بڑے اور باوقار کے عہدوں کے حصول کا خواب دیکھتے دیکھتے بوڑھی ہو جاتی ہے ۔ کسی کو خوش قسمتی سے کوئی مقام مل بھی جائے تو اسے اتنے مسائل کا سامنا ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کی بےتکی منصوبہ بندی کے تناظر میں کہ سمت کا تعین ہی نہیں کر پاتا  ۔

بہت اچھے عزائم لے کر آنے والا بھی بطریق احسن اپنا فریضہ سر انجام دینے سے قاصر رہتا ہے اور یوں ہم ایک عرصہ سے بے سمت سفر کرتے ہوے اپنی منزل سے قربت کی بجائے دور ہوتے جارہے ہیں۔  
ضرورت اس مر کی ہے کہ اس حوالہ سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوے گرتے ہوے معیار تعلیم کو جو فی الواقع بڑی تشویشناک صورتحال سے دوچار ہے اس معیار تعلیم کو  مزید گرنے سے بچایا جائے ۔

  اس  حوالہ سے کئی سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ ۔کورس کم کرنے یا اس طرح کا کوئی اور فیصلہ کرنے  کی بجائے تعلیمی ادارے کھل کر اوقات کار بڑھا کر منظم منصوبہ بندی کرتے ہوئے تمام کورسز کی تدریس کو یقینی بنایا جائے ۔اگر آئندہ امتحانات کو ایک دو ماہ کے لیے مزید ملتوی یا مناسب مدت کےلیے آگے کرنا پڑتا ہے تو بھی ایسا کیا جا سکتا ہے اگر امتحانات لیٹ ہونے وجہ سے اس وقت کے طلباء کو ملازمت یا داخلہ وغیرہ کےلیے عمر کی بالائی حد میں رعائیت کی ضروت پڑے تو دی جاسکتی ہے شاید کچھ ایسے اقدامات زیر غور بھی ہیں ۔

لیکن کسی صورت میں بھی کورس مختصر کرنا یا کوئی بھی شارٹ کٹ تلاش کرنا پہلے سے کمزور نظام کو مزید کمزور کرنے والی بات ہوگی۔یہ سب کچھ  تعلیمی مفاد میں نہیں ہو گا لہزا کورس مختصر کرنے یا اس طرح کی کسی اور روائیتی تجویز کی  بجاے دیگر آپشنز پر غور کیا جانا چاہیے ۔
اس کے علاؤہ اس سال گرمائی اور سرمائی تعطیلات بہت مختصر ہونی چاہییں زیادہ سے وقت تدریسی کے لیے مختص ہو۔

تمام مسائل کے حل کے لیے ان دنوں منصوبہ سازی کر لی جاے۔ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے اکثر سٹاف کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں یہ بہت اہم معاملہ ہے ۔اس اہم معاملہ پر بھی خصوصی توجہ دی جائے ۔
یہ بھی دیکھا جائے کہ اگر کہیں تدریسی امور کے لیے اضافی پیریڈز کے اہتمام کے سلسلہ میں عارضی بنیادوں پر سٹاف کی ضرورت ہے تو کنٹریکٹ پر سٹاف لے لیا جائے
 اور دیگر بھی جو مسائل اداروں کو درپیش ہیں  ان پر بھی غور ہو سربراہان ادارہ جات سے خصوصی میٹگنز کی جائیں ان کی مشاورت سے   اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایک عرصہ بعد تعلیمی عمل بحال ہونے پر تدریسی امور کے بطریق احسن سر انجام پانے میں کوئی دشواری حائل نہ ہو ۔

قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع بڑے اہم ہوا کرتے ہیں اور بڑی آزمائش بھی ۔ ہم اپنے محدود وسائل اور بے پناہ مسائل کے باوجود اکثر دوسرے ممالک کے مقابلہ میں کرونا وبا کنٹرول کرنے میں ایک حد کامیاب رہے۔ ہم نے اپنی بساط بھر کوشش سے اس کے پڑنے والے بہت سے مضر اثرات کو بھی کم کیا یہ بات یقینا ہمارے لیے باعث افتخار ہے لیکن اس کی وجہ سے مستقبل میں پڑنے والے کئی دیگر اثرات کو گہری نظر  سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے اہم توجہ طلب شعبوں میں سے ایک اہم شعبہ تعلیم کا ہے جس پر فری خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ تعلیمی عمل کی مکمل بحالی ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ہمارے لیے ایک بڑا امتحان ہے ۔
امید ہے میرے عظیم ہم وطن اس بڑے امتحان میں باوقار انداز سے کامیاب ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :