لاک ڈاون اب کیا ہو!

جمعرات 23 اپریل 2020

Professor Zahoor Ahmed

پروفیسر ظہور احمد

ملک عزیزمیں کرونا واریس کی وجہ سے ایک طرف جہاں پریشانی اور غیر یقینی کی صورتحال ہے وہاں میری ارض پاک کے غیور عوام اس خوفناک وبا کے سامنے سیسا پلای دیوار بن کر کھڑے ہیں اور جوانمردی سے تاحال اس انداز سے مقابلہ کر رہے ہیں کہ باقی دنیا کے مقابلہ میں بہت حد تک صورتحال کو اطمینان بخش قراردیا جاسکتاہے اس وقت دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں جنہیں اپنی طاقت دولت اور ٹیکنالوجی پر بڑا گھمنڈ تھا بلکل بے بس اور لاچار نظر ارہی ہیں اور بعض نے تو اس کے سامنے ایک حدتک ہتھیار پھینک دیے ہیں اور اپنے عوام کو واضح پیغام بھی دے دیا ہے کہ ہمارے پاس نہ اب ہسپتالوں میں گنجائش ہے نہ اس وبا کا مقابلہ کرنے کی کوی ترکیب لہزہ عوام اب جیسے بھی ہیں اپنے گھروں میں ہی رہیں ۔

اب بظاہر صرف اموات اور ایک حد تک متاثرین کی تعداد بتای جارہی ہے اور بس ۔

(جاری ہے)

جبکہ میرے غریب مگر جرتمند عوام ابھی تک سینہ تان کر اس مصیبت کے سامنے ڈٹے ہوے ہیں ۔قلیل وساءل اور نہ ہونے کے برابر صحت کی سہولیات کے باوجود الللہ کا نام لے کر جنگ جاری رکھے ہوے ہیں اور انشالللہ نہ صرف یہ جنگ اپنے ملک کی حد تک جیتیں گے بلکہ دوسرے ممالک کو بھی اس مصیبت سے چھ ٹکارا حاصل کرنے کے لیے مدد فراہم کریں گے ۔

یہ میری قوم کی تاریخ کا سنہری باب رہا ہے کہ ہر مشکل وقت میں ہم اپنے تمام سیاسی اختلافات بھولا کر یکجان ہو کر سامنے اے ہیں اور اپنے مدمقابل کو خواہ وہ ہما رے سامنے کسی بھی صورت میں سامنے ایا اسے ہم نے باور کروایا کہ ہم زندہ قوم ہیں ۔اج بعض حوالوں سے محدود حد تک اختلافی باتیں بیانات بھی ضرور سام۔نے ارہے ہیں یہ ہماری کمزور سیاسی رواءیتکا حصہ ہے ہم نے جہاں بڑے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کیا اور کامیابیاں حاصل کیں وہاں بد قسمتی سے جمہوری. اقدار کو صحیح انداز سےاگے نہیں بڑہا سکےاسی لیے اس مشکل وقت میں بھی ایک دوسرے کے خلاف پواءنٹ سکورنگ سے باز ۔

نہیں ارہے مگر بحیثت مجوعی ہم ایک زندہ قوم کے طور پر اس وبا کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ ہم نے اپنی بساط کے مطابق اس وبا کا مقابلہ کیا ہے اور انشالللہ اسی جزبے اور حوصلے سے اس وقت تک مقابلہ کریں گے جب تک کہ اس سے جان نہیں چھوٹ جاتی ۔تاہم ہمیں اسوقت بطور ایک زندہ قوم اس پریشانی سے نکلنے کےلیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے ۔اس وقت تک ہم باقی دنیا خصوصا ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں ا س وبا کے ساتھ کم سے کم وساءل کے ساتھ نبردازما ہیں اور نسبتا محفوظ بھی ہیں تو یہ میرے مالک کا کرم رہا ہے ۔

ہم نے اپنی بساط کے مطابق کوشش کی بہت حد تک کامیاب رہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم یہ ج۔نگ جیت چکے ہیں کیا ہم یا کوی بھی دوسرا ملک یہ کہ سکتا ہے کہ کرونا اب اس کے لیے کوی مسلہ نہیں رہا ہے ۔ایسا نہیں یہ مصیبت ابھی دنیا کے سر پر کھڑی ہے دنیا کو اس سے چھٹکارا پانے کےلیے ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔مزیدحفاظتی اقدامات کے حوالے سے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ حالیہ دنوں میں ہم کہاں کامیاب رہے اور کہاں ہم سے کوتاہی ہوی ۔

مزید کیا کیا جانا چاپیے تھا اور کون سے اقدامات کی ضرورت نہیں تھے ۔ ابتدا میں دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح ہمیں بھی یہی خد ش ات تھےکہ چین سے ہی زیادہ تر یہ وبا پھیلے گی اور ہم نہ صرف چین کے پڑوسی بلکہ کئ حوالوں سے بہت قربت ہیں اسلیے بچنا مشکل ہے مگر ہم نے بروقت مناسب فیصلے کیے چین نے اپنی بے پنا مشکلات کے باوجود ہماری مدد کی اگر خدانخواستہ چین کی طرف بھی اسی طرح کے مساءل کا سامنا ہوتا جو ایران کی طرف سے رہا تو صورحال کیا ہوتی ۔

وبا کے پھیلاو کے حوالے دیکھیں کہ ہم نےایران سے واپس انے والے زاءرین کے حوالے سے ضرور احتیاطی تدابیر اختیار کیں مگر وہ سب کچھ نہ کر سے جو کیا جانا چاہیے تھا ۔ہماری سول انتظامیہ یہاں بہت حدلاپرواہی اور سستی کی مرتکب نظر ای ۔اگرزاءرین کو پوری احتیاط کےساتھ انکےگھروں تک پہنچانے کی زمہ داری فوج کو دےدی جاتی یاکوی زمہ دارانہ کمیٹی تشکیل دی جاتی تو بہت حد تک مزید محفوظ رہا جاسکتا تھا ۔

ایران سے انے والے زاءرین کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑی کوتاہی ہمارے اءیرپورٹس پر نظر ای جہاں ابتدای دنوں میں چیک اپ کا کوی سسٹم سرے سے نظر ہی نہیں ایا یہ معمولی لاپرواہی نہیں بہت بڑی لاپروواہی تھی ۔ اس حوالے سے تیسری بڑی کوتاہی تبلیغی اجتماع کے حوالے سے ضروری اقدامات نہ اٹھانا تھی اگر علماء کرام سے بروقت درخواست کرکے تبلیغی جماعت کے بھایوں کو اعتماد میں لے لیا جاتا تو اس حدتک بھی بہت کنٹرول کیاجا سکتا تھا ۔

اس طرح کئ اور امور کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جن پر توجہ دینے سے ہم مزید کئ گنا محفوظ رہ سکتے تھے مگر بد قسمتی رہی کہ ہم ایسا نہیں کرسکے ۔ اج ہم بحیثت قوم انشا الللہ متحد بھی ہیں متحرک بھی ہیں اور حالات مقابلہ بھی کرہے ہیں تاہم ہمیں بعض امور کی طرف مزید سنجیدگی سے غور کرناہوگا ۔ہمیں بحیثیت قوم اپنی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ اپنی کوتاہیوں پر بھی نظر رکھنا ہوگی ۔

ہماری سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف پوانٹ سکورنگ کی بجاے تحمل سے ایک دوسرے کو سننا ہو گا ہمارے ایلیٹ طبقہ کو اپنی حیثت کے مطابق کردار ادا کرنا ہوگااور تمام اہل وطن کو برابر کے شہری تسلیم کرنا ہوگا ۔ جبکہ فوری طور پر ! سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس مرض کو پھیلنے سے روکناہے اس کےلیےہم جو محنت کر رہے ہیں اس کے نتاءج واثرات پر غور کرتے ہوے دیکھنا یہ ہو گا کہ ہم ایک محاز پر کامیابی کےلیے کہیں مزید محاز تو نہیں کھولنے جارہے ۔

اپنے ملک کی مجموعی فضا ہمیں کس طرح کے اقدامات کی اجازت دے رہی ہے ۔دنیا کے ترقی یافتہ امیر ترین ممالک کس احتیاط سے کام لے رہے ہیں اور کیوں ۔ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اگرخدانخواستہ حالات مزید بگڑتے ہیں تو ہم کیا کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور بہتری کی طرف جانے کی صورت میں بھی مستقبل کی کون سی منصوبہ بندی ہمارےیے سود مند ہوگی ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ لاک ڈاون کے دوران کیا کوتاہیاں رہیں اور کون کون سے اقدامات کو تحسین کی نظر سے دیکھا جاسکتا ہےہمیں بہت ہی محتاط اندازمیں مزید اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

۔ہمارے ہاں ایک طبقہ اس وقت ایسے خوفناک لاک ڈاون کے حق میں ہے کہ جس میں کوی بھی شخص دروازے سے باہر قدم نہ رکھ سکے دلیل یہ دی جارہی ہے کہ چین میں ایسے اقدامات سے ہی حالات پر قابو پایا گیا ہے ۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اس طرح کا لاک ڈاون کر سکیں یا کوی اور ملک کر سکا ہے ۔یہ بات تقریبا ناممکن ہے لہزا لازم ہے کہ ہم جو کر سکتے ہیں اس کےطابق اگے بڑھیں اور ہم اج ایک حد تک کر بھی ہی رہے ہیں ۔

اسی طور پر اگے بڑھتے ہوے ہم دیکھیں کہ ہمار وہ علاقے جو الللہ کے کرم سے اج تک تقریبا محفوظ ہیں وہاں باہر سے انے والوں پر نظ ر ضرور ہو مگر مقامی طور پر لوگوں کو احتیاط کے نام پر بلا وجہ پریشان نہ کیا جاے جیسا کہ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے بعض علاقوں یا بعض اضلاع میں ایک کیس بھی سامنے ایا نہ ہی مقامی طور پر کوی خدشات ہیں وہاں باہر سے انے والوں پر نظر رکھی جاے اور صرف انتہای ضروری اقدامات کے لیے مقینوں کے معمولات زندگی میں خلل اندازی ہو ۔

لازم نہیں کہ ایک گھر کے متاثر ہونے کو لے کر پورے علاقے کو قید خانہ میں تبدیل کردیا جاے ۔ اگے چل کر جومزید حفاظتی تدابیر اخیار کر۔نے ک ی ضرورت ہے اس میں بیرون ممالک سے واپس انے والے پاکستانیوں کےحوالے سے بہت زیادہ محتاط رہنے کی بات ہے ۔ان می سے کسی بھی صورت میں کسی ایک کو بھی مکمل اطمینان سے قبل قرنطینہ ہاوسز سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے ۔

ان میں سے جو حضرات افورڈ کر سکیں یا کرنا چاہیں انہیں ان کے اپنے اخراجات پر بہتر رہاش اور سہولیات مہیا کی جاءیں اس کےلیے کئ بڑے ہوٹل لیے بھی جاچکے ہیں مزید بھی لیے جاسکتے ہیں ۔لیکن عام لوگوں کے لیے بھی احتیاط کے ساتھ مناسب اور معقول انتظامات کیے جا سکتے ہیں مثلا سکولز کالجز اور کئ دوسری سرکاری عمارات اس وقت بند پڑی ہیں ان میں چند دنوں کےلیے رہاءش کا بندوبست مشکل بات نہیں ۔

دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ جیسا ظاہر کی جارہا ہے کہ وبا کا شکار ہونےوالوں میں باہر سے انے والوں کے مقابلہ میں اب مقامی طور پر وبا کا شکار ہونے والوں کی تعداد زیادہ نظر ارہی لے تو اس وجہ بھی صاف ظاہر ہے کہ مقامی طور جس طرح کی احتیاط کی ضرورت تھی یا کئ اور ممالک اپنے ہاں اقدامات کر گئے ہم ۔نیں کر سکے ۔اس عرصہ میں لفظ لاک ڈاون تو ہر شخص کی زبان پر رہا مگر اس کی وضاحت واضح انداز کم ہی سننے کو ملی کہ شہریوں کےلیے واضح ہدایات کیا ہیں ۔

لاک ڈاون کا مقصد افراد کو ایک دوسرے سے چند فٹ فاصلا پر رکھنا تھا اس لیے ضروری تھا کہ یہ مہلک واءریس ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ۔نہ ہو سکے اس بنیادی بات پر زیادہ سے زہادہ زور دینے کی بجاے دیگر مباحث میں قوم کو الجھایا گیا ۔ایک طرف اس طرح کی سختی دیکھنے کو ملی کہ کوی نوجوان جو پڑہالکھا زمہ دار باوقار شہری ہے انتہای مجبوری میں گھر سے باہر نکلا تو پولیس نے اسے سر عام شاہرہ پر کان پکڑوا لیے اس کے بعد وہ زمہ دار نوجوان کس زہنی ازیت سے گزر رہا ہوگا اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔

وہ اس بے عزتی بدلا اپنے سماج سے کس طور پر لے گا یہ الگ بحث ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس گہناونی حرکت کے علاوہ کوی اور راستہ نہیں رہ گیا تھا ۔اب غور فرماہیے کہ ایک طرف یہ عمل اور دوسری یہ دیکھا گیا کہ مخلتلف حوالوں سے لوگوں کے اجتماعات دیکھنے کو ملے ۔کھانےپینے کی اشیا کی تقسیم تھی یا رقوم کی تقسیم جس طرح عوام خصوصا خواتین جو مختلف گھروں سے مختلف علاقوں سے اکر کئ گھنٹے ایک ساتھ ایک جگہ بیٹھی یا کھڑی رہیں اور بڑے ارام سے ایک دوسرے کو واءریس منتقل کرتی رہیں اس بات کو کیوں سنجیدہ نہیں لیا گیا ۔

اس کے ساتھ لاری اڈوں بعض پلوں اور کئ دوسرے مقامات پر لوگوں کا رش نظر ایا کیا یہ سب کنٹرول کرنا ناممکن تھا۔اگر ناممکن تھا تو جہاں جہاں بہترین انداز میں معقولیت کے ساتھ لوگوں میں راشن اور امداد تقسیم ہوتے دکھی دی ایسا کیوں ہوسکا تھا وہ مثالیں کیوں سامنے نہیں رکھی گئں ۔بات بڑی واضح ہے کہ ہم نے اپنی قابلیت بھی دکھای اور نالائقی بھی اور یہ سب اسی وقت نہیں ہوا ستر سال سے کچھ ایسے ہی چل رہا ہے ۔

اس وقت ایک طرف ہمارے زمہ دار فرض شناس محب وطن انسا ن دوست ڈاکٹرز اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کرونا مریضوں کا علاج کررہے ہیں قوم ان کے اس جزبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو دوسری طرف چند ڈاکٹرز ان کی محنت پر پانی پھیرنے اور مفاد پرستی کالیبل لگوانے کےلیے بڑے بڑے مطالبات لے کر بیٹھ گئے ہیں ۔اسی طرح ایک طرف ہماری پولیس کے جانباز اہلکار پوری تندہی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو انہی میں سے چند ایک اج بھی معیوب حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔

اسوقت پوری دنیا جس غیر یقینی صورحال کا شکار ہے اس کا یہی تقاضا ہے کہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھا جاے ۔جناب صدرمملکت کی کوششوں سے علماء کرام نے جن امور پر راے دی ہے اس کا بھی خیال رکھا جاے اور حالات واقعات کے تناظر جو بھی اچھی تجویز سامنے اس پر غور کیا جاے ۔ ۔تمام زمہ داران ایک دوسرے کی بات تحمل سے سنیں دنیا کے حالات وواقعات کو بھی سام۔نے رکھیں اور پوری زمہ داری اور تندہی کے ساتھ اس جنگ کو جیتنے کی کو شش کریں ۔اپنے مالک حقیقی سے سچے دل سے اپنے۔گناہوں کی معافی مانگیں ۔ میرا ایمان ہے کہ میرا مالک حقیقی جسے مجھ سے ستر ماووں سے زیادہ پیار ہے مجھے اور میری اس دنیا کو جو اج بےبسی کی تصویر بنی ہوی ہے جلد اس مصیبت سے چھٹکارا دےگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :