امریکا میں فسادات!

جمعہ 5 جون 2020

Professor Zahoor Ahmed

پروفیسر ظہور احمد

ظلم جب انتہا سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔یہ قانون قدرت ہے ۔یہ حقیقت ہے اسے تسلیم نہ کرنے والے حقائق سے نا اشنا ہیں ۔تاریخ انسانیت کا مطا لعہ کرنے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ ظلم تادیر قائم نہیں رہتا ظالم کو جلد یا بدیر ظلم کا حساب دینا پڑتا ے اس وقت دنیا کو عموما اور ترقی یافتہ ممالک کو خصوصا جن حالات کاسامنا ہے اس طرح کے واقعات انسانوں کو باور کرواتے ہیں کہ ما لک کائنات ہی اصل میں حاکم اعلئ ہے اور اس کی گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔

دنیا میں بے بس اور مجبور اقوام کو مختلف حربوں سے جکڑ کر جس طرح سے یہ سفاک اپنے اپنے مقاصد پورے کرتے رہے وہ سب واضح ہے ان بے بس اور مجبور انسانوں کے ساتھ رواں رکھنے والے مظالم اور نا انصافی کا ارتکاب کرنے والوں کو مالک کائنات کبھی خوفناک زلزلوں اور طوفانوں کبھی طوفانی بارشوں اور سیلابوں اور کبھی کرونا جیسی وباوں کی جھلک دکھا کر سبق سکھاتا ہے مگر طاقت کے نشے میں چور طاقتیں ان باتوں سے سبق سیکھنے کی بجاے مخلوق خدا پر مظالم میں اضافہ کرتے ہیں ۔

(جاری ہے)

ایسے میں مالک کائنات مزید جھلکیاں دکھاتا ہے ۔
کاش کوئی اج کشمیریوں پر ڈھائےجانے والے مظالم کا اندازہ کر سکے وہ لوگ ایک سال ہونے کو آرہا ہے لاک ڈاون کی کیفیت میں ہیں اور دنیا ایک ڈیڑھ ماہ کا لاک ڈاون برداشت نہیں کر سکی۔ ایک عرصہ سے عراق شام اور لیبیا میں کیا ہو رہا ہے دنیا کے کئی اور ممالک ان بڑوں کےستم کا شکار ہیں۔ان سب باتوں پر زمہ دارانہ حیثیت سے سوچنے اور اقدامات اٹھانے کی پوزیشن میں جو لوگ ہیں اگر وہ کہیں ظلم کرنے میں خود پیش پیش ہوں گےاور کہیں محض تماشائی بن کر دیکھتے رہیں گے تو مالک کائنات کے غیض وغضب کا نشانہ بنیں گے۔


امریکی وہ قوم ہیں جو خود بھی محکوم رہے مگر بڑی طویل جدوجہد اور محنت سے انہوں نے ازادی حاصل کی ۔مسلسل محنت اور کاوش سے ایک عرصہ بعد اپنے اپ کو اس قابل بنا دیا کہ وہ ملک جس کے وہ غلام رہے نہ صرف اسے زیر نگیں کردیا بلکہ دنیا کو اپنی طاقت تسلیم کرنے پر مجبور کیا ۔یہ سب کچھ یقینا ایک طویل جدوجہد کا ثمر ہے۔امریکییوں نے پہلے اپنے اپ کو منظم اور طاقت ور تسلیم کروایا پھر حاکم اعلئ مگر بڑی احتیاط اور منصوبہ بندی سے ایسا نہیں تھا کہ شروع سے ہی ان کے تیور تحکمانہ تھے بلکہ اہستہ اہستہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہے ۔

امریکیوں نے دنیا کو جینے کے نئے ڈھنگ بھی سکھائے ترقی کے راستے بھی دکھاے ۔انسانیت کی بہترین مثالیں بھی پیش کیں مگر انسانی فطرت کا ایک تاریک پہلو  بھی ان کے ہاں پروان چڑھتا رہا جس کا مقصد انسانی ازادی کو صلب کرنا اور اپنے اپ کو طاقتور تسلیم کروانا تھا ۔اس مقصد کے لیے ان لوگوں نے انسانیت کا جنازہ نکالا تمام انسانی اور اصولوں کو پاوں تلے روندا انسانیت تڑپتی بلکتی رہی اور اس سفاکانہ سوچ کے حامل امریکی محظوظ ہوتے رہے ۔

انسانیت کا خیال رکھنے والے انسان دوست امریکی انہیں بارہا لگام دیتے رہے ۔ان دو سوچوں والے امریکیوں کے درمیان شروع سے اج تک جنگ جاری ہے ۔انسانیت کوپاوں تلے روندنے والے بش جیسے سفاک (پہلے باپ پھر بیٹے) کو اقتدار میں لاے تو انسانی اقدار کے پاسداران وہ داغ دھونے کےلیے ردعمل میں اوبامہ کو اقتدار میں لے اے ۔یہ بات بظاہر ناممکن سی بھی تھی مگر یہ کارنامہ سرانجام دے کر امریکیوں نے یہ ثابت کیا کہ وہاں انسانی سوچ کا یہ پہلو بھی زندہ ہے ۔

اوبامہ کو دو مرتبہ اقتدار سونپ کر امریکیوں نے نی صرف اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی  بلکہ دنیا کو یہ بھی باور کرایا کہ امریکہ انسانی عظمت وقار اور انسانی صلاحیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے والا ملک ہے ۔
امریکا کی جنگوں اور جارحانہ پالیسیوں کی بدولت نہ صرف امریکی معیشت کمزور ہو رہی تھی بلکہ بہت سے دیگر خدشات بھی جنم لے رہے تھے اور اب وہ چودہراہٹ قائم رکھنا مشکل نظر ارہا تھا ایسےمیں امریکیوں نے فوری اقدام کے طور پر اقتدار ایک ایسی کاروباری شخصیت کو سونپ دیا  جو بظاہر امریکی معیشت اور کاروبار کو سہارا دے سکتا تھا یہی اس مسلہ کافوری حل تھا ۔

ان صاحب نے اپنی بساط کے مطابق امریکی معیشت کو تو سہارا دیا مگر سپر پاور امریکہ کے اسرار ورموز کے مطابق حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا ۔پہلے کرونا کے حوالہ سے بروقت اقدامات  اٹھانے سے قاصر اور غیر زمہ دارانہ بیانات ، انتظامیہ پر گرفت انتہائی کمزور نتیجہ کے طور پر اج کی پریشان کن صورتحال کا سامنا اس سپر پاور کو کرنا پڑ رہا ہے ۔


مسلہ اج وہاں  صرف ایک شخص کے قتل کا نہیں بلکہ یہ واقعہ بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے کہ بات یہاں تک کیوں پہنچی ، اس وقعہ کے فوری بعد ان لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں فوری گرفتار کیوں نہیں کیا گیا جو زمہ دار تھے ۔پہلے تو مقدمہ درج کرنے میں اتنی تاخیر پھر صرف ایک اہلکار کے خلاف مقدمہ جبکہ فوٹیج کے تحت دیگر دو تین اہلکاروں کاکردار بھی واضح ہو جاتا ہے ایسے میں صرف ایک اہل کا ر کے خلاف مقدمہ اور وہ بھی خاصی دیر بعد ۔

اس کے بعد مظاہرے ایک فطری عمل تھالیکن یہاں بھی مظاہرین سے نمٹنے کے حوالے سے سنجیدگی نظر نہیں ائی اوردنیا حیران رہ گئی کہ یہ امریکہ ہے یا بنانا ری پبلک۔الغرض ایسے معاملات کے حوالے سے ایک زمہ دار ملک سے جو توقع کی جاسکتی تھی وہ دیکھنے کو نظر نہیں ای۔
_امریکہ میں حالات کا یہ رخ اختیار کرنا نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔

اگراس طرح دنیا میں ہنگامے اور فسادات کا رجحان فروغ پایا تو مجموعی طور پر دنیا میں امن وامان کی صورتحال کیا شکل اختیار کرے گی یہ تشویشناک بات ہے اس لیے اس معاملہ کو صرف امریکہ کا داخلہ معاملہ قرار دے کر انکھیں نہیں چرای جاسکتیں اس لیے کہ امریکہ کا عالمی منظر نامے میں کردار بڑا واضح ہے اس تناظر میں دنیا کے اہل فکر ودانش کو بھی بہت کچھ سوچنا ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :