تحریک انصاف آزاد کشمیر میں

جمعرات 31 دسمبر 2020

Professor Zahoor Ahmed

پروفیسر ظہور احمد

وطن عزیز میں مرکزی سیاست کی غیر یقینی اور متزلزل صورتحال ایک طرف لیکن  کشمیر کے دو حصوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں مرکز کی نسبت اپنے انداز کی سیاست روبہ سفر ہے کشمیر کے باشعور باسیوں کا وطن عزیز کے دیگر حصوں کے مقابلہ میں یہ امتیاز  رہا کہ یہاں نسبتا پرامن اور قدر پرسکون  سیاسی فضا رہی ہے۔  ۔ اگرچہ مرکز کے زیر انتظام ہونے کی وجہ سے ہمیشہ یہاں کی مقامی سیاست پر وہاں کے گہرے اثرات مرتب ہوتے رہے لیکن یہاں کی سیاست مرکز اسلام آباد سے کچھ حوالوں سے مختلف بھی نظر آئی ہے۔


گلگت بلتستان کے انتخابات کے بعد آزاد کشمیر میں انتخابات میں حصہ لینے کےلیے تمام سیاسی جماعتیں تیار ہو رہی ہیں ۔ تحریک انصاف آزاد کشمیر بھی اس دعوے کے ساتھ میدان میں موجود ہے کہ آنے والی حکو مت ہر حال میں ان کی ہو گی۔

(جاری ہے)

اس حوالہ سے جو بڑی دلیلیں دی جارہی ہیں ان میں وزن ضرور ہے ۔ سچ یہ ہے کہ یہ دلائل ہماری غیرت حمیت اور خودداری کے خلاف ہیں ہمیں ان باتوں کو بالائے طاق رکھتے ہو حقائق کے تناظر میں اپنے مستقبل کا باوقار انداز میں فیصلہ کرنا چاہیے  لیکن حالات و واقعات نے ہمیں جس طرح جکڑ رکھا ہے ان باتوں کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتے  ۔

ایک یہ کہ اس سے قبل جس جماعت کی بھی مرکز میں حکومت تھی وہی یہاں آرام سے جیت گئی دوسری بات اسی تناظر جی بی کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی ہے ۔ لیکن ساز گار فضا کے  حوالے سے ایک بڑی بات اس وقت پی ڈی ایم کا بظاہر بیک فٹ پر چلا جانا بھی ہے ۔ پی ڈی ایم تحریک نے کچھ دن قبل تک تحریک انصاف کو پریشان ضرور کر دیا تھا ۔اس کا اظہار پارٹی کی طرف سے سینیٹ کے قبل از وقت انتخابات کی بات سے عیاں ہے۔


اس طور پر اگر دیکھا جاے تو بلا شبہ تحریک انصاف کی بات میں وزن ہے لیکن اس وقت مرکز میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے آئندہ چند ماہ میں کیا اثرات مرتب ہوں گے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
  تاہم تحریک انصاف آزاد کشمیر اگر عمران خان کے ان نظریات کی روشنی میں کہ جو وہ لے کر سیاست میں آنا چاہتے تھے یہاں کی اس وقت کی زمین ان کے لیے خاصی ہموار ہے۔  ان کے وہ سچے صاف نیک جزبات  اور تعمیری سوچ  جس کے تناظر میں وہ  حقیقی منشور کے ساتھ سیاست آنا چاہتے تھے ۔

وہ منشور وہ سوچ وہ جزبات جن کی روشنی میں ملک سے جہالت غربت اور لوٹ مار کا خاتمہ ممکن تھا وہ منشور وہ عزائم جن کے تناظر میں ملک عزیز کے زمہ دار محب وطن باصلاحیت لوگ آپ کے پاس اے تھے کہ ملک عزیز کے وسائل کو بہتر انداز میں استعمال میں لاکر عوام کے لیے آسودگی کا سامان مہیا کیا جاے ۔
لیکن  بدقسمتی سے  وطن عزیز میں مرکزی سطح کی سیاست پر مفاد پرستوں کے مفادات دولت پرستی کے رجحانات خاندانی سیاست کا غلبہ  اور ان بیرونی سازشوں  کی ریشہ دوانیوں جو ہر حال میں پاکستان کو کمزور کرنے کے درپے ہیں ، کی وجہ سے اس منشور پر وہاں اگر عمل نہیں ہو سکا تو اس کے یہ معنی نہیں کہ ملک عزیز میں کہیں بھی اور کبھی بھی ایسا نہیں ہو سکتا ۔

اگر کسی کو یاد پڑتا ہو تو غور کرسکتا ہے کہ عمران خان نے پہلی مرتبہ ملکی انتخابات میں حصہ لیتے ہوے جو ٹیم میدان میں اتاری تھی اس میں لٹیرے نہیں تھے وڈیرے نہیں تھے پارٹیاں بدل کر بھیس بدل کر انداز بدل کر قوم کو دہوکا دینے والے نہیں تھے وہ تقریبا سارے کے سارے مخلص دیانتدار محب وطن اور وطن عزیز کی خاطر اپنا تن من دہن لگا کر کام کرنے کا عزم لے کر کارکردگی دکھانے والے لوگ سامنے اے تھے تو قوم نے انہیں کیا رسپانس دیا تھا۔

مقام افسوس ہے کہ ان مخلص ایماندار اور قابل لوگوں کو جو صرف اور صرف تعمیر کے جزبہ کے تحت اس پلیٹ فارم کے ساتھ منسلک ہوے تھے قوم نے موقع نہیں دیا وہ مایوس ہوئے ۔ان میں سے کئی دوسری جماعتوں میں چلے گئے تو کئی سیاست کے مشکل کھیل سے ہی دور ہو گئے  ۔اس کے بعد ایک طویل عرصہ تک عمران خان تعداد میں نہ ہونے کے برابر رہ جانے والے  مخلص دیانتدار اور وطن پرست دوستوں کے ساتھ میدان  سیاست میں موجود رہے تو سواے آبا ی علاقے کی نمائندگی کے ان کے پاس کیا تھا ۔

مگر جب حالات و واقعات نے جناب عمران خان کو روائیتی ماہرانہ فنکارانہ ظالمانہ  مفاد پرستانہ منافقانہ سوچ کے علمبردار سیاستدانوں کی طرف آنے کےلیے مجبور کیا گیا تو مختصر عرصہ میں وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے یہ انتہائی اہم اور غور طلب  نقطہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ سیاست میں آنے والے کن لوگوں کو مسترد کیا گیا اور کن لوگوں کے آنے سے ہی پارٹی میں بہار آگئی یہ تبدیلی  کون لوگ    کن مقاصد کے کے لیے لاے تھے طویل  بحث کی ضرورت نہیں حالیہ آٹا چینی ادویہ کی قیمتوں میں راتوں رات خوفناک اضافہ کی  مثال ہی کافی ہے۔


۔اب عمران خان کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے یہاں پہنچانے والوں کی بات سننا ان کی راے کا احترام کرنا ان کی لوٹ مار کو نظر انداز کرنا ۔پینترے بدلنے کی سیاست جسے آج وہ یو ٹرن کہ رہے ہیں کی سیاست کرنا  ان کی مجبوری ہے اور ا س قوم کا المیہ ہے۔ ہم لاکھ تاو یلیں لے کر بیٹھ جائیں دن رات کہانیاں سنتے سناتے رہیں۔ہر دو سال بعد الیکشن بھی ہوتے رہیں مگر حالات تبدیل نہیں ہوں گے کہ جب تک عوام تبدیلی نہیں چاہیں گے ۔

عوام کی سوچ میں حقائق کے تناظر میں تبدیلی سے ہی ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں گے ورنہ ہم اپنی سونا اگلنے والی دہرتی اور بے پناہ قدرتی وسائل کے باوجود دو وقت کی روٹی کومحتاج رہیں گے ۔ ہم خاردار جھاڑیوں اگا کر اعلی قسم کے پھل ملنے کی توقع کرتے رہے یہ زمہ دارانہ سوچ نہیں تھی اس قوم کے ساتھ ایک عرصہ سے کیا ہو رہا ہے اس کا زمہ دار کون ہے ٹھنڈے دماغ سے اس پر غور ہونا چاہیے۔

۔ بہت ہو چکا قوم کو اب اپنے مفاد کا تحفظ کرنا ہوگا۔ بہت سی دیگر قباحتوں کے ساتھ دوسو ملین سے زائد کی ابادی کو دو گھروں کی ملکیت سمجھ لینا ؟دانشمندی نہیں ۔
ان حقائق کی روشنی میں جناب عمران خان صاحب کے پاس اس وقت اپنے تصور سیاست کو حقیقی روپ دینے کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ اس وقت آزاد کشمیر کی سیاست کو اپنے حقیقی منشور کا جامہ پہناتے ہوئے آزاد کشمیر کے الیکشن میں پڑھے لکھے زمہ دار باوقار اور نفیس سیاست کے داعی کشمیریوں کو  آزمائیں ۔

ایک عرصہ سے آپ کی تعمیری سوچ کا ساتھ دینے والے اور بہتری کی امید رکھنے والے کارکنوں کو آگے آنے کا موقع دیں ۔جمہوری انداز کا وہ رخ جس کے ساتھ آپ نے ملک عزیز کی مرکزی سیاست کا دھارہ بدلنے کی کوشش کی تھی مگر روائیتی سیاستدانوں نے  اسے پروان نہیں چڑھنے دیا تھا یہاں پروان چڑھنے کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ خدا راہ محض کسی کے ارب پتی ہونے کو معیار سمجھ کر کشمیری عوام پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کیجیے گا ورنہ ان ہی مسائل کا آپ کو یہاں بھی سامنا ہوگا جن کا مرکز میں ہے۔

اگر کوئی ارب پتی نیک نیتی اور تعمیری جزبہ سے اپنے لوگوں اپنی ریاست کی خدمت کرنا چاہتا ہے تو عوام میں اے عوام میں رہ کر حالات و واقعات کے تناظر میں اپنا مقام بناے ۔لیکن اگر کوئی روائتی ڈرائنگ روم کی سیاست کو آگے بڑھاتے ہوے اقتدار کا پروانہ اسلام آباد سے  لاکر یہاں مسلط ہونا چاہے گا تو وہ بھی ناکام ہو گا اور اسے لانے والے بھی شرم سار ہوں گے۔

اسلیے جناب عمران خان اپنی حقیقی جمہوری اور تعمیری سوچ کے تناظر میں آزاد کشمیر کی سیاست کے حوالہ سے فیصلے کریں تو یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ مرکز میں بھی آپ کے لیے حالات بہت ساز گار ہو جائیں ۔ یہاں کی نفاست کے ساتھ پروان چڑھای گئی سیاست وہاں بھی مثال بن سکتی ہے اور اس کے تناظر میں آپ کو روائیتی سیاست سے جان چھوٹ سکتی ہے جو آپ کے لیے وابال جان بنی ہوئی ہے۔

  آپ کے اصل تصور سیاست کے تحت صرف اور صرف حقیقی جمہوری انداز اور عوامی خدمت کا جذبہ لے کر آگے آنے والے بہتر نتائج دکھائیں گے جیسا کہ جی بی انتخابات میں کچھ بہتر پڑھے لکھے اور باوقار لوگوں کے سامنے آنے سے بہتری کی امید کی جا رہی ہے  ۔ اس طرح پورے   وطن عزیز میں بھی ایک نئی سوچ اس امید کے ساتھ  پرون چڑھے گی کہ صرف مفاد اور پیسے کی سیاست نہیں دوسری سوچ کی گنجائش بھی موجود ہے۔

آزاد کشمیر کی سیاسی منصوبہ سازی کرتے ہوے جی بی کے انتخابات میں کی جانے والی بعض کوتاہیوں کو بھی سامنے رکھنا ہو گا اور صرف یہ بات یہاں کے لیے کافی نہیں کہ پارٹی وہاں کامیاب ہو گئی  بلکہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پارٹی کے لیے ایک عرصہ سے مخلصانہ کوششیں کرنے والے مخلص کارکنوں کو نظر انداز کرکے مکارانہ انداز میں نئے وارد ہونے والے مفاد پرستوں کو وہاں عوام نے مسترد کرتے ہوے عمران خان کے حقیقی تصور سیاست کے علمبرداروں کو بطور آزاد امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب کروا کر جس سیاسی تدبر کا اور غیرت و حمیت کا مظاہرہ کیا اور اپنے باشعور ہونے کالوہا منوایا وہ بہت اہم پہلو ہے ۔

  یہاں بھی اگر ایسی ہی ہوا کہ ایک عرصہ سے یہاں کے بہتر پڑھے لکھے مخلص اور باوقار کارکن جو پارٹی کو آزاد کشمیر منظم کرنے کے لیے سر دہڑ کی بازی لگا رہے ہیں انہیں نظر انداز کرکے پیرا شوٹ کے ذریعہ اترنے والوں کو نوازے کی کوشش کی گئی  تو یہ بات پارٹی کے لیے ہزیمت کا سامان ہو گا۔
یاد رہے کہ آزاد کشمیر کے باشعور عوام نے کچھ عرصہ قبل روائیتی خاندانی اور مفاد پرستانہ سیاست کو مسترد کرتے ہوے  موجودہ وزیر اعظم جناب فاروق حیدر کو جو یہاں کے سیاسی منظر نامے پر دیانتدارانہ سیاست کے داعی سمجھے جاتے تھے کا بھر پور ساتھ دیا تھا اور ایک نئی سیاسی تاریخ رقم کی تھی انہیں گزشتہ انتخابات میں دو تہائی سے زائد کی اکثریت دے کر اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا تھا۔

جناب فاروق حیدر نے بساط بھر عوامی فلاح وبہبود کے لیے کام کیا ۔میرٹ پر نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع دینے کے علاؤہ کئی قابل تعریف اقدامات اٹھا ے لکین اس وقت وہ بھی اسی روائیتی خاندانی سیاست کے علمبردار نظر آرہے ہیں جس کے خلاف انہوں نے الم بغاوت بلند کیا تھا یہ بات یہاں کے غیور عوام کو نا گوار گزر رہی ہے۔یہ نقطہ بھی تحریک انصاف کے لیے سود مند ثابت ہو سکتا ہے اگر تحریک انصاف میرٹ اور اصول کو اپنی سیاست کا محور قرار دے کر نفیس سیاست کا نعرہ لے کر آگے چلے تو آزاد کشمیر کی سیاسی فضا ان کے لیے بہت ہی ساز گار  ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :