کورونا وبا اور غیر واضح حکمت عملی !

اتوار 28 جون 2020

Professor Zahoor Ahmed

پروفیسر ظہور احمد

ملک عزیز کے تمام حصوں میں  کرونا وبا کے حوالہ سے غیرواضح پالیسی اور اس کے مضر اثرات کی اطلاعات نے زمہ دار پاکستانیوں کی  نیندیں حرام کردی ہیں کچھ روز قبل وبا اس قدر تیزی سے پھیلنا شروع ہو گئی تھی کہ لگتا تھا بہت جلد دنیا کے اکثر ممالک سے ہماری حالت ابتر ہو جائے گی ابھی نئے مریضوں کا اندراج کم نظر ارہا ہے مگر بات واضح نہیں کہ مریض کم رپورٹ ہونے کی اصل وجہ کیا ہے ۔


  ابتدا میں بحثیت مجموعی ہم اس وبا سے بہت حد تک محفوظ رہے مگر اگے چل کر ہم بطور زمہ دار قوم اپنی زمہ داری بطریق احسن نبھانے سے قاصر رہے ہیں ، گزشتہ ایک دو ماہ میں ہمیں کیا کرنا تھاکیا نہیں کرنا تھا یہ بھی تفصیل طلب بحث ہے ہم سے جو کوتاہی سرزدہوئی اس کا اصل زمہ دار کون ہے مرکزی حکومت ، صوبائی حکومتیں یا مختلف محکمیں ۔

(جاری ہے)

با ت  بڑی واضح ہے کہ ہم سے کوتاہیاں ہوئی ہیں ۔

مختصر طور پر اگر ہم اپنی کوتاہیوں پر نظر دوڑا سکیں تو ہمیں بہت کچھ نظر اجاے گا ۔
بات اج کی جائے تو تقریبا چھ ماہ ہونے کو ہیں اس عرصہ میں ہم نے بہت کچھ کیا اگر یہ سب کچھ نہ کرتے تو خدشہ تھا کہ ہماری اموات لاکھوں اور مریضوں کی تعداد ملینز میں ہوتی۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم مزید وہ اقدامات کیوں نہیں اٹھا سکے جنکی وجہ سے ہم مزید محفوظ رہ سکتے تھے ۔

ٹھنڈے دماغ سے غور کریں تو ہمیں اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہم !
1-ہم قومی سطح کی ایک ایسی واضح پالیسی بنانے میں ناکام رہے جس کی روشنی میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں اسانی ہوتی ۔اگر تمام بڑی سیاسی جماعتیں اور اہل فکر ودانش اتفاق راے یا اکثریت راے سے ہی  احتیاطی تدابیر کے حوالہ ایک اعلامیہ جاری کر نے میں کامیاب ہو جاتے  تو وبا کنٹرول کرنے میں بہت مدد ملتی ۔

جس طرح  من حیث القوم کسی مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے زندہ قومیں کھڑی ہوا کرتی ہیں ہم بد قسمتی اس طرح کھڑے نظر نہیں اے۔ جبکہ اس مشکل وقت میں ایسا کرنا بہت ضروری تھا اور اگر وطن عزیز کے اہل فکر ودانش کو یہ زمہ داری سونپ دی جاتی تو وہ بہت حد تک اتفاق راے کی فضا ہموار کرنے میں کامیاب رہتے ۔
2-ہمارے لاکھوں سرکاری ملازمین اس عرصہ میں گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے رہے ہم ان سے کام لینے کی بجاے سیاسی فائدہ اٹھانے کے چکر میں رہے اور خاص کر برسر اقتدار جماعت  نے انتہائی غیرزمہ دارانہ انداز کا مظاہرہ کرتے ہوے اپنی جماعت کے نوجوانوں پر مشتمل ٹائیگر فورس بنانے کا اعلان کیا اس فورس کے بننے میں طویل عرصہ لگ گیا اور جب بنی تواس کی کارکردگی سب نے دیکھ لی ۔

اس کی بجاے تمام سرکاری ملازمین کے گروپ بنا کر چند دنوں ایک بڑی اور منظم فورس تیار کی جا سکتی تھی جو تمام پہلووں پر نظر رکھتی جواب دہ بھی ہوتی اور اس پر کسی کو بھی کسی قسم کا اعتراض نہ ہوتا ۔
3-احتیاطی تدابیر کے حوالے سے پوری دنیا کے ماہرین اس بات پر زور دے رہے تھے کہ لوگوں کا میل جول کم سے کم ہو اس لیے کہ یہ بیماری ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہوتی ہے ۔

اس تناظر میں دنیا کے کئی ممالک نے اصول مرتب کیے معقول انداز میں اس بات پر عمل کیا اور وہاں اس بیماری کے اثرات نہ ہونے کے برابر نظر اگر ابتدا میں وہاں بیماری کی یلغار نظر بھی ائی تو اس پر احتیاطی تدابیر کے تحت فوری قابو پا لیا گیا ۔ہمارے ہاں احتیاطی تدبیر کا بڑا اصول یہ طے کرنے کی کوشش کی گئی کہ لوگوں کو گھروں میں بند کردیا جاے اور بس یہی کافی ہے یہ سوچنے زحمت بہت کم لوگوں کو ہو سکی کہ اپنے گھروں مقید ہو کر رہ جانے والوں کی ضروریات کیا ہو گا اگر ان لوگوں کی بنیادی انسانی ضروریات پوری کیے بغیر انہیں محض کرونا سے بچانے کے نام پر پابند کردیا گیا تو یہ سب لوگ خوراک ادویات ودیگر بنیادی ضرورتوں کے بغیر جان سے ہاتھ دہو بیٹھیں گے اور یوں اپنی کوتاہی سے ہم اپنے ہاتھوں عوام کی ایک بڑی تعداد کو موت کے منہ میں دہکیلنے جارہے ہیں جبکہ کرونا سے اموات کنفر م مر یضوں کا تناسب چند فی صد بھی نہیں یہ بغیر منظم منصوبہ بندی کے اس ملک کے غریب عوام کو موت کے منہ میں دہکیلنے کی بات تھی مگر اشرافیہ بضد کہ فوری مکل لاک ڈاون اور وہ بھی ایسا کہ کوئی دروازے سے باہر قدم نہ رکھ سکے ۔

جوازیت کے طور پر چین اور سعودی عرب  کی مثال دی گئی کہ وہاں سخت ترین لاک ڈاون  کے تحت حالات پر قا بو پا لیا گیا ہے مگر جو انتظامات چین کے شہر ووہان کے شہریوں کے لیے کیے گئے تھے اور سعودی عرب میں اٹھاے گئے اقدامات نظر ارہے تھے ان کے مقابلہ میں ہمارےہاں اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے دوسر اہم بات یہ تھی کہ یہ دونوں ممالک ایک عرصہ سے لاک ڈاون کی سی کیفیت میں ہی ہیں وہاں کی انسانی حقوق کی صورت حال اس کی مثال ہے اس لیے لوگوں کو قید یا پابند کرنے والی وہاں کی مثا ل کوئی اہمیت نہیں رکھتی  ۔

ملکی اشرافیہ نے گھروں میں مہینوں کا راشن ودیگر ضروری سامان سٹور کرلیا تھا اور مزید کسی بھی چیز تک ان کی رسائی کسی بھی صورت میں ان کے لیے مشکل نہیں تھی ۔جبکہ روزکما کر شام کو بچوں کے لیے  روٹی کا سامان کرنے والے کے لیے کیا اقدامات تھے سب کچھ سامنے ہے ۔جس طرح انکھیں بند کرکے غریب عوام کوگھروں میں قید کرنے کی باتیں ہورہی تھیں ان پر سب بڑوں کا اتفاق ہو جاتاتو مختصر وقت میں لاکھوں انسان بھوک کی وجہ سےجان کی  بازی ہار جاتے مگر اللہ تبارک وتعالی کا کرم تھا کہ وہ سب کسی ایک بات پر اتفاق نہیں کر سکے کہ غریب عوام کو کسی طور پر اذیت سے دوچار کیا جاے۔


یہاں اس بات کومرکزی خیال کے طور پر لینے کی بجاے کہ افراد کا جم گٹھ نہ ہونے پاے لوگ ایک دوسرے سے فاصلہ پر رہیں ،ایسی پالیسی بنائی جانی چاہیے تھی کہ لوگ کسی مجبوری کے تحت بھی اکٹھے ہونے سے بچے رہیں ۔ غور طلب بات ہے کہ ایک تجارتی مرکز سے اگر اوسط ایک دن میں ایک ہزار افراد نے خر یداری کرنا ہے تو وہ اوسط وقت کے حساب سے دیکھی جاے اگر ایک مرکز چوبیس گھنٹے میں سے اگر صرف چند گھنٹے کھلے گا تو بات واضح ہے کہ عوام کا رش زیادہ ہو گا یا سولہ اٹھارہ گھنٹے کھلے رہنے سے ۔

یہ کس نے کہ دیا تھا کہ کوئی دکان یا تجارتی مرکز زیادہ دیر کھلنے سے وبا تیزی سے پھیلے گی یا  کوئی ایسی مثال سامنے ائی ہے کہ محض دکان مارکیٹ یا افس وغیرہ کھولنے سےلوگ وبا سے متاثر ہوے ۔ لوگ صرف اور صرف رش بڑھنے سے اور عام میل جول سے متاثر ہوے  ۔اسی طرح بعض دفاتر اور بینک وغیرہ جو پہلے پانچ یا چھ دن ہفتے میں کھلتے تھے لوگ معمول کے مطابق اتے اور چلے جاتے تھے کبھی کبھار رش نظر اتا تھا کرونا منصوبہ بندی کے تحت جب ہفتے میں دو یا تین دن کھلنے کی بات ای تو ان دنوں میں عوام کا کتنا رش بڑھ گیا  پھر مزید ستم یہ کہ کئی بینکوں اور دفاتر کی کئی شاخیں بند کرکے باقی پر عوامی دباو بڑہا دیا گیا ۔

کئی اہم دفاتر بھی جہاں ہر حال میں جانا عوام کی مجبوری تھی ہفتے کے ایک دو دنوں تک محدود کرکے عوام کے جم غفیر کو ایک وقت میں ایک جگہ اکٹھے ہونے پر مجبور کیا گیا۔اس نقطہ نگاہ سے تھوڑی سی بھی منصوبہ بندی کی زحمت کی جاتی تو مسائل کم ہوتے ۔
4-وبا سے متاثر مریضوں کے لیے  غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اربوں روپے ایک ایک مرکز پر خرچ تو ہوے مگر یہاں بھی منظم منصوبہ بندی کا فقدان نظر ایا اور انسانیت کی تزلیل کے ایسے ایسے دردناک قصے سننے کو ملے کہ جوسن کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے پیں  ۔

ہسپتالوں میں علاج کے نام پر لوگوں کو جس ازیت سے گزرنا پڑ رہا ہے اس پر کیوں سنجیدگی سے غور نہیں کیا جارہا بات سمجھ سے بالا ہے۔پھر انتہائی افسوسناک بات یہ کہ اس بیماری اور علاج کرنےوالے ہسپتالوں اور انتظامیہ کے حوالہ سے جو من گھڑت اور غیر زمہ دارانہ کہانیاں سامنے ائیں ان پر کوئی سنجیدہ انکوائری نہیں ہوی ۔وبا کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی گئیں۔

سادہ لوح عوام کےلیے حتمی طور کوئی راے قائم کرنا کہ یہ کس نوعیت کا مسلہ ہے دشوار رہا ، ہسپتالوں میں ایک طرف دیگر امراض میں عرصہ سے سے مبتلا مریضوں کے ساتھ بے رخی اور بعض اوقات اعلانیہ معزرت کہ کرونا بحران کے پیش نظر دیگر مریضوں کی طرف توجہ نہیں دی جا سکتی تو دوسری طرف کرونا مریضوں کے ساتھ نارواں سلوک کیا پیغام دے رہا ہے ۔ایک طرف کرونا مریضوں کے سوا دیگر امراض میں  مبتلا مریضوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے دوسری طرف کرونا مریضوں سے نارواں سلوک ۔

غریب قوم کے کھربوں روپے کس بات پر لگ رہے ہیں ۔کوی وضاحت تو انا چاہیے۔
5-کرونا وبا سے جاں بحق افراد کی عزت واحترام کے ساتھ تدفین کی پالیسی اعلان تو ہوا مگر اس پر عمل نہ ہونے کے برابر نظر ارہا ہے ۔اکثردیکھنے میں ارہا ہے کہ میت کو غسل دینے ، کفنانے کے عمل سے ورثا کو دور رکھا جاتاہے  اس حوالے سے ورثا کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار ہورہا ہے ۔

میت کو تابوت میں بند کرنے کی منطق بھی سمجھ اے بالا ہے ۔اس کی بجاے ایسا کور تیار کیا جاناچاہیے جس سے جراثم باہر نہ اسکیں ںبس یہ کافی ہے ۔نیز یہ بات بھی سمجھ نہیں ارہی کہ اگر کوئی وڈیرہ جا گیردار با اثر شخص کرونا سے جاں بحق ہو جاے تو حکومتی سر پرستی میں ہزاروں لوگ جنازے میں شرکت کریں کوئی مسلہ نہیں لیکن کوئی عام ادمی فوت ہو جاے تو چند افراد سے زیادہ نماز جنازہ شرکت نہیں کرسکتے اس کی کیا وجہ ہے ۔


اسطرح کی متضاد پالیسی ا بہام پیدا کر رہی ہے اور خدشات جنم لے رہے ہیں کہ لوگ کرونا  کا ٹیسٹ کروانا ہی چھوڑ دیں گے اس لیے کہ فی الحال کرونا کا علاج ہی متعارف نہیں تو لوگ محض دہکے کھانے کےلیے یا اپنی لاش کی بے حرمتی کےلیے ہسپتال کیوں جائیں ۔اس طرح کی غیر یقینی اور غیر واضح حکمت عمل بہت نقصان دہ ہے ۔
بہرطوراس وبا سے نمٹنے کےلیے جو کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور جوقدامات اٹھانے کی گنجائش ہے وہ سب کچھ نہیں ہورہا جو انتہائی تشویشناک عمل ہے۔ اس غیر زمہ دارانہ روش اور غیر یقینی صورتحال میں ملک اور قوم کا بہت نقصان ہو رہا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر حقائق کے تناظر میں قابل عمل اور قابل قبول پالیسی مرتب کرتے ہوے قوم کو اعتماد میں لیا جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :