
پیپلز پارٹی:کیا کیا جائے؟
ہفتہ 18 جون 2016

قمر الزماں خان
(جاری ہے)
اگلی گلی میں پہنچا دیتا ہے۔اس پچیدہ کیفیت کو پارٹی قیادت اپنی طاقت،قوت اور حمائت سے تعبیر کرتی ہے۔پاکستان کے کروڑوں محنت کشوں ،غریبوں ،کسانوں اور پچھڑے ہوئے طبقات کے پاس متبادل سیاسی پلیٹ فارم کی عدم موجودگی کا خلاء سردست پیپلز پارٹی ہی پُر کرتی چلی آرہی ہے۔اس کیفیت میں متذکرہ بالا طبقات کے سیاسی اظہار (خواہ وہ نیم دلی سے ہی کیوں نہ ہو)کا پلیٹ فارم بننے کی وجہ سے‘ پیپلز پارٹی کی قیادت بہت سی نظریاتی ،سیاسی اور حکمت عملی کی غلطیوں کا تدارک کرنے کی بجائے ان کو اور زیادہ گہرا کرنے کی طرف راغب ہوجاتی ہے ۔ شمالی پنجاب سے کشمیر تک ریلی کے ذریعے سیاسی قوت کے اظہار اور پھر کشمیر میں کچھ جلسوں میں موجودہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری کے متغیر اور متضاد نعروں اور موقف سے نظریاتی ہیجان،غیر واضع سیاسی موقف اور کافی حد تک موقع پرستی کے عوامل نظر آتے ہیں۔خاص طور پر ریاست اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے بیانات ماضی میں انکے نانا کی بھارت مخالف بڑھک بازیوں کی بھونڈی نقالی نظر آتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر انکا موقف کشمیریوں کی منشاء یا کسی ایک خطے کی اپنی آزادانہ اور خود مختیار حیثیت میں بحالی کے برعکس سامراجی خواہشات اور ریاست پاکستان کے حاوی حکمران ٹولے کی ’طے کردہ ‘ ٹون سے مطابقت رکھتاہے۔یہ وہی موقف ہے جن سے عدم دستبرداری کی مستقل خواہش کے سبب ’بھارت اور پاکستان‘ کی ریاستیں ‘مسئلہ کشمیر کو نہ حل ہونے والا اور ہمیشہ باہمی جنگ وجدل کی حالت میں رہنے کا اوزار بناچکی ہیں۔‘پاکستانی سیاست میں لنگوٹا کسے ہوئے پہلوان خواہ کسی بھی پارٹی سے متعلق ہوں‘فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بالمقابل آزادانہ سوچ استوار کرنے کی ہمت رکھتے ہیں نہ ہی ان میں لگی بندھی(اور ناکام ترین) راہوں سے ہٹ کر چلنے کی صلاحیت موجود ہے۔سرمایہ داری کے تقاضوں، سرحدوں،باڑوں اور انسانوں کو انسانوں سے جدا رکھنے والے نظام کے سبب جنگ یا حالت جنگ (عملی یا نظریاتی) کی موجودگی میں امن کا نعرہ ایک فریب اوردھوکے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ایک سامراجی نقطہ نظرکی پیروی کرتے ہوئے ‘کشمیر میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی ایک ”پپٹ حکومت“ بنانے کا کام پوری جانفشانی سے کرتی چلی آئی ہے،موجودہ انتخابی مہم بھی اس مقصد سے جڑی ہوئی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی میں حکمت عملی مرتب کرنے اور اسکی توسیع کرنے کا کوئی باقاعدہ شعبہ منظم انداز میں کام نہیں کرتا البتہ وقتاََ فوقتاََ پینٹاگان اور دیگر سامراجی مراکز سے اس ضمن میں پورا نصاب مہیا کیا جاتا ہے جس میں کبھی (طبقاتی)”مفاہمت“کی حکمت عملی پر گامزن ہونے کادرس دیا جاتا ہے اور کبھی (فوجی آمریتوں کی حمائیت کے بعد)نام نہاد جمہوریت کے نام پر منڈی کے جبر کو قائم رکھنے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔اس روش نے پارٹی کے زوال اور حمائت میں کمی کے مسلسل عمل کو مہمیز بخشی ہے۔ محنت کش طبقہ ‘جس کی حمائت سے پاکستان پیپلز پارٹی ساٹھ اور سترکی دھائی میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی کو ‘اور اسکے طبقاتی مفادات کو ‘یکسر جھٹک دینے سے جہاں ’طبقے ‘کو منڈی کی معیشت کی بے رحم طاقتوں،قوانین اور حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہاں خود پارٹی بھی اپنے بنیادی نظریات سے الگ ہوکر زمین سے معلق ہوچکی ہے۔ سرمایہ داروں کی کلاسیکل پارٹیاں اور انکی طبقاتی حمائت موجود ہے۔ مسلم لیگیں بالخصوص نو ن لیگ اسکی ایک مثال ہے،جسکا اپنا طبقاتی کردارسرمایہ داروں ،تاجروں ،آڑھتیوں اور دیہی اشرافیہ کے مفادات کا نگہبان ہے۔یہیں سے ان کو سیاسی ،مالیاتی ،سماجی قوت اور کمک ملتی ہے۔حتہ کہ عسکری حلقوں کے ساتھ تمام تر فروعی اختلافات اورمالیاتی سرمائے پر کنٹرول کے ٹکڑاؤ کے‘ نون لیگ انکی فطری حلیف ہے۔یہیں سے پیپلز پارٹی کا دوسری طرف کا بحران بھی جنم لیتا ہے ۔اپنی حقیقی اساس سے منہ موڑ کر،دشمن طبقات کے مفادات کی پاسداری کرنے اور اپنی سیاسی قوت پر حملوں کے باوجود‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ مخالف سیاسی قوت کے(بالائی اور زیریں) مراکز سے اپنا ناطہ مستقل طور پر جوڑنے کی قدرت سے محروم ہے۔ووٹ لینے ،سیاسی حمائت حاصل کرنے یا (مالیاتی جرائم، بدعنوانی اوردیگر معاملات پر )اپنے دفاع کی ضرورت کے تحت‘ بالآخر پارٹی قیادت کو انہی طبقات
کی طرف دیکھنا پڑتا ہے جنہیں وہ مسلسل دھتکارتی آرہی ہے۔ یہ ایک واضع تضاد اور بحران ہے ،جس کا تدارک انہی پوزیشنز پر رہنے سے ممکن نہیں ہے۔حالیہ(2008-16)زوال کے دائرے سے نکلنے کے لئے پیپلز پارٹی قیادت نے جس حکمت عملی کا سہارا لیا ہے،اسکا دامن محدود اوریہ بہت ہی کم مدتی نسخہ ہے۔یہ نظریاتی،سیاسی اور تنظیمی زوال پذیری کا مستقل حل نہیں ہے۔2جون کو رحیم یارخاں میں ‘جنوبی پنجاب پارٹی تنظیم کے زیر اہتمام ”ورکرز کنونشن“ کے نام پر ایک جلسہ کیا گیا۔اس جلسے کا مقصد ضلعی باڈیوں کی تنظیم نو کے لئے ”کارکنوں“ کی رائے لینا تھا۔ یہ کنونشن سٹی اور تحصیل سطح پر کسی قسم کی تیاری کے بغیر یکا یک منعقدکیا گیا تھا۔اس لئے اس کے ایجنڈے اور مقاصد سے شرکاء شمولیت سے قبل ناواقف تھے۔اس لئے فوری طور پر ان سے ضلعی تنظیم کے لئے مانگی گئی تجاویز پر کسی بھی مقرر کے لئے بات کرنا ممکن نہ تھا۔صرف وہ مقررین جو ایک خاص ایجنڈے کے تحت اپنے مخالفین پر حملے کرنے کے لئے تیار کئے گئے تھے انہوں نے اپنے خطابت کے فن کا مظاہرہ کیا۔پنتالیس لاکھ آبادی والے ضلع رحیم یارخاں سے‘ جو پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے‘تین چار کارکنوں کو خطاب کو موقع دیا گیا مگران کے خیالات اور تجاویز بدنظمی،شورشرابے اور برے انتظامات کی نذر ہوگئے۔جب کہ پارٹی وائس چیئرمین مخدوم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود کو اپنی ذاتی تشہیر اور ناکردہ کارناموں کی تفصیلات فراہم کرنے کا خوب موقع مل گیا۔سیاسی پارٹیوں کے تنظیمی بحران بھی نظریاتی وجوہات کی بنا پر ہوتے ہیں یہاں تو سارا بحران ہی نظریاتی زوال پذیری کی وجہ سے ہے۔ اس قسم کے نام نہاد کنونش ‘ پارٹی کو نہ صرف وہ نظریاتی بنیادیں فراہم نہیں کرسکتے‘ جن کی بنیاد پر پارٹی(تازہ دم اور قوت سے بھرپور) نئی سیاست کا آغاز کرسکے بلکہ اس قسم کے ”طے شدہ“ اورنتائج سے محروم پروگراموں سے پارٹی کی تنظیم نو بھی حقیقی بنیادوں پر نہیں ہوسکتی۔1992ء میں سویت یونین کی کیمونسٹ پارٹی دنیا کی سب سے بڑی پارٹی تھی ،مگر نظریاتی زوال پذیری کے باعث ایک ہی رات میں منہدم ہوگئی،اسکے تنظیمی ڈھانچے،دفاتر،اخبارات اور دیگر انفراسٹرکچر اسکو گرنے سے نہیں بچاسکا۔اسی طرح 1967ء میں بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس ممبرشپ تھی اور نہ ہی پارٹی ڈھانچے،دفاتر اور اخبارات‘ مگر اپنے انقلابی نظریات کے سبب جو عہد کے تقاضوں کے مطابق راہنما کردار اداکرسکتے تھے‘ وہ ایک ہی دن میں اس ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی تھی۔یہی وہ سیاسی اثاثہ اور حوالہ ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کو ہمہ قسم کے بحرانوں اور زوال پذیری سے نکال کر ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت بنا سکتا ہے۔پارٹی کی بنیادی دستاویزات آج بھی تروتازہ اور موجودہ معروض میں راہنمائی کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہیں۔سن اور سال بدلے ہیں مگر بھوک،بیماریاں،جہالت،اونچ نیچ اور طبقاتی کشمکش وہی ہے اور انکا حل بھی وہی ہے جو آج سے انچاس سال پہلے پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں پیش کیاگیا تھا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
قمر الزماں خان کے کالمز
-
یہ گراؤٹ انہیں برباد کر دے گی !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
بانجھ شور
ہفتہ 5 جون 2021
-
جنگ آزادی 1857ء کی سرکشی۔۔ابھی سفر باقی ہے!
پیر 10 مئی 2021
-
یوم مئی۔۔’سامراجی یلغار اورمزدورتحریک‘کیا کیا جائے؟
اتوار 2 مئی 2021
-
فرسودہ اوزاروں کی مشقیں
جمعرات 15 اپریل 2021
-
لال خان‘تاریخ کا نیا جنم
اتوار 21 فروری 2021
-
مزدور چارٹر
پیر 8 فروری 2021
-
اکتوبر1917:، جب فرمان مزدورجاری ہوا
پیر 9 نومبر 2020
قمر الزماں خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.