سانحہ قصور، بچوں کے خلاف جرائم میں اضافہ

اتوار 14 جنوری 2018

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

قصور میں سات سالہ بچی زینب کے اغوا،جنسی زیادتی ،قتل کے واقعات نے ایک بار بہت سے بنیادی سوالات کو ابھار کر سماج کے سامنے غورکرنے کیلئے پیش کردیا ہے۔جہاں پاکستان میں سماجی جرائم کی شرح نمو میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے وہاں ان جرائم کے خلاف حکمران طبقات اور انکے سوچ وبچار کے ادارے اور عوام دونوں ہی حقیقت پسندانہ رویے کی بجائے خود کو دھوکے میں رکھنے کی پرانی پالیسی پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔

عمومی ردعمل کے طور پر حکمران طبقے کے تمام دھڑے ہر واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور واقعہ پر عوامی یا سیاسی ردعمل زیادہ ہونے کی صورت میں کسی بھی سطح کی ایک بے مقصد انکوائیری کمیٹی تشکیل دیدی جاتی ہے۔ جملہ بازی ہمارا قومی مشغلہ ہے ،ایسے ہی ایک جملے کے تکرار میں کہا جاتا ہے کہ ’بچے اور نوجوانوں ہمارا ’مستقبل‘ ہیں۔

(جاری ہے)

مگریہ’ مستقبل ‘کسی طور پر بھی قابل رشک حالات میں پرورش نہیں پارہا۔

بدقسمتی سے ہمارے بچے اور نوجوان سب سے زیادہ بے سہارا اورغیر محفوظ ہوچکے ہیں۔پاکستان میں بچے کس قدر غیر محفوظ ہیں اس کاکچھ اندازہ قصورمیں زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کے دلخراش واقعے کے بعد ہونے والی بحث میں ہواہے۔سب سے اہم بات جو سامنے آئی کہ حکومتی سطح پر کوئی بھی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو بچوں پر ہونے والے جنسی حملوں اور مختلف قسم کے جرائم کے اعداد وشمار مرتب کرنے پر معمورکیا گیا ہو۔

حکومتی سطح پر ایسے عمل کا اقرارکرنا ہی محال ہے۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں کی کاوشوں کے بعد ایک کمیٹی نے بچوں کے خلاف جنسی جرائم کے متعلق ایک قانون کا مسودہ تیارکیا تھا ،وہ ایک سال سے قومی اسمبلی میں اپنی منظوری کے انتظار میں ہے۔مگر عمومی طور پر اس قسم کے قوانین کو ’مغرب کی سازش‘ قراردیکر مسترد کردیا جاتا ہے۔ گھروں،مدرسوں،سکولوں،بلیئرڈکلبوں،ورکشاپس میں ہونیو الے جنسی جرائم میں سے زیادہ تر واقعات‘ کسی بھی سطح پر منظر عام پرلائے بغیر خاموشی سے برداشت کرلئے جاتے ہیں۔

کچھ سال پہلے یورپ اور امریکہ میں گرجا گھروں کے پادریوں کے بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات منظر عام پرلانے کی ہمت کی گئی تو انکے تدارک کیلئے نا صرف قانون سازی کی گئی بلکہ تعلیمی نصاب اور بچوں کی گھروں اور سکولوں میں تربیت کو بنیادی اہمیت دی گئی تاکہ بچے جنسی حملوں یا کوششوں کو شناخت کرکے فوری طور پر شدید ردعمل کرسکیں اوروالدین یا اساتذہ سے مدد حاصل کرسکیں۔

بچوں کو انکے جسم کے حساس مقامات کے بارے میں آگہی دی جاتی ہے تاکہ وہ جنسی حملے کی شروعات بننے والے ’ٹچ‘ کوپہچان کر اسکا تدارک کرسکیں۔مگرہمارے ہاں اخلاقیات کے لبادوں اور مصنوعی اقدارنے زندگی کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی ہوئی ہیں۔ یہاں ’صالحین ‘اور نیکوکاروں کی جانب سے عام طور پر جس قسم کا ’معاشرہ ‘پینٹ کرکے دکھا یا جاتا ہے اس کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔

جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں اسکے ایک پہلو کا ہلکا سا خاکہ یہ اعداد وشمارپیش کرتے ہیں جو بچوں کے تحفظ کیلئے کام کرنے والے ایک ادارے’ ساحل ‘نے اکھٹے کئے ہیں۔ سال 2017 کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 768 واقعات پیش آئے۔مگران واقعات کے بعد کسی صوبائی اور وفاقی ادارے کے پاس ایسی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے کہ ان میں سے کتنے کیسیز میں ملزمان گرفتار ہوئے یا انھیں سزائیں سنائی جا سکیں۔

اخباروں سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے پتا چلا کہ جنوری 2017 سے جون 2017 کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں پیش آئے۔ضلع قصور جہاں 2015 ء میں ڈھائی سوسے زائد بچوں کی ’پورن فلمیں‘ بنانے کا ایک سکینڈل پکڑا گیا جہاں ایک ہی گاؤں کے 300بچوں کے ساتھ جبری بدکاری کی فلمیں بنائی گئیں تھیں ،اس سنگین معاملے کودبادیا گیا۔

مبینہ طورپر مجرموں کو مقامی سیاسی وڈیروں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ایسی فلمیں بیرون ملک فروخت کی جاتی ہیں۔متاثرہ کم عمربچوں کیساتھ سالہاسال سے زیادتی ہورہی تھی ۔اس کیس میں شناخت کئے گئے ملزمان کے خلاف گواہی دینے والے پراسرار طریقے سے منحرف ہوتے گئے۔ اب 2016ء میں ضلع قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے کل 141 کیسیز میں سے99 جنسی تشدد اور ریپ اور پھر قتل کیے جانے کے تھے۔

اسی طرح 2017 ء کے پہلے چھ ماہ میں یہ تعداد 68 رہی ہے۔ضلع قصور میں پولیس حکام کے مطابق اغوا کے بعد ریپ اور قتل کے 12 مقدمات درج ہیں۔ ان واقعات میں سے پہلا واقعہ ٹھیک ایک سال قبل چار دسمبر 2016 کو پیش آیا جب کہ زینب کی گمشدگی سے ایک ماہ پہلے ہی کائنات بھی لاپتہ ہوئی تھیں جو اس وقت صدمے کی حالت میں قصور کے ہی ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔اگر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے علاوہ ان پر تشدد اور کم عمری کی شادی اور دیگر مسائل کو بھی شامل کیا جائے تو بچوں کے خلاف جرائم کی کل تعداد 1764 بن جاتی ہے۔

بچوں کے خلاف جرائم کے لحاظ سے2016ء میں پاکپتن شریف 169 واقعات کی وجہ سے سرفہرست رہا،جبکہ ہائی سیکورٹی الرٹ والا شہر اور پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد 156 کیسیزکی بنا پر دوسرے نمبر پر رہا۔ ’ادارہ ساحل‘ کی ششماہی رپورٹ 2017 کے مطابق تناسب کے اعتبار سے زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں پیش آئے۔ان اعداد و شمار سے یہ پتہ چلا کہ گذشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں کل 1764 کیسز میں سے پنجاب میں 62 فیصد، سندھ میں 28 فیصد، بلوچستان میں 58، کے پی میں 42 اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نو فیصد رجسٹرڈ ہوئے۔

گذشتہ دو برسوں میں اسلام آباد، قصور، لاہور، راولپنڈی، شیخوپورہ، مظفرگڑھ، پاکپتن، فیصل آباد، ویہاڑی، خیرپور، کوئٹہ، اوکاڑہ اور سیالکوٹ ایسے اضلاع کے طور پر سامنے آئے جہاں بچوں کے تحفظ کے حوالے سے صورتحال تشویشناک ہے۔ اعداد وشمار کی بھول بھلیوں سے نکل کر ہم اپنے اردگرد دیکھیں توجابجا کھلی مختلف قسم کی ورکشاپس میں ’کاریگروں‘ کے کماؤ پوت ان’چھوٹوں‘کی فوج ظفر موج ہوتی ہے ، جو عمر میں نابالغ ہونے کے باوجود سب سے طویل اوقات کار میں عمومی طور پر بہت ہی کم اجرت میں کام کرتی ہے،سارادن انکو گندی گالیاں سننا پڑتی ہیں اور جنسی استحصال ایک روٹین کا معاملہ ہے جس کو ورکشاپس کی عمومی فضا کی وجہ سے جرم کی بجائے ’معمول‘ سمجھ کر فراموش کردیا گیا ہے۔

یہی سلسلہ ہوٹلوں ،چائے کے ڈھابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔مدرسوں کاماحول کسی طوربھی بچوں کیلئے صحت منداور مثبت نہیں ہے۔زینب کے خون ناحق اور اسکے ساتھ ہوئی بربریت پربالخصوص قصور میں عوامی ابھارپیدا ہوا ہے مگر اسکو گھیراؤ جلاؤ اور بلوے کی شکل دیکر یاپھر کچھ مخصوص سیاسی ایجی ٹیٹرز کی مداخلت کی وجہ سے معاملہ کی سنگینی اور سدھار کے راستوں کے تعین کرنے کی بجائے بہت چھوٹے اور فوری اہداف کے گرد ہی نعرہ بازی کی جارہی ہے۔

زینب کا مجرم صرف اسکے ساتھ جنسی تشدد کرکے قتل کرنے والا وحشی درندہ نہیں ہے بلکہ بہت سے عوامل کے ساتھ ’اپنی بچی کو اکیلا چھوڑکربیرون ملک جانے والے والدین بھی ذمہ دار ہیں‘۔ہمیں سوچنا پڑے گا کہ جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والے اوباش نوجوان کسی اور سیارے سے نہیں آتے بلکہ وہ بھی اسی معاشرے کی پیداوار ہیں جس میں انکا شکاربننے والی بچیاں اور بچے ہوتے ہیں۔

والدین کو بچوں کی تعلیم وتربیت کے ساتھ انکی سرگرمیوں سے بھی آگاہ رہنا لازم ہے۔بے روزگاری،کسی مقصد سے عاری زندگی ،ناکامیوں اور مایوسیوں سے بھری زندگی سے پیدا ہونے والی بیگانگی‘انسان کو مثبت اور منفی افعال سے بیگانہ کردیتی ہے ۔گھٹن اور صحت مندانہ تفریح کے مواقعوں کی عدم موجودگی نوجوانوں کی سرگرمیوں کو کسی بھی جانب لے جاسکتی ہیں۔

وہ نوجوان جواپنے جسموں پر بم باندہ کرخود کواوردوسروں کو گوشت کے لوتھڑوں میں تبدیل کرنے نکل پڑتے ہیں، بیشتر ہمارے سماج کے ’ بیگانگی ذات کا شکار‘ افراد ہوتے ہیں جہاں ان کو اپنے اور دوسروں کے انسان ہونے اور انسانی زندگی کے بیش قیمت ہونے کا ادراک ختم ہوجاتا ہے۔ہمارا تعلیمی نصاب بھی مقدس گائے بن چکا ہے جس پر بات کرنے سے ہی کچھ لوگ آگ بگولاہوجاتے ہیں،مگریادرکھنے والی بات ہے کہ نصاب تعلیم وہ بنیاد ہے جس پر نا صرف فردبلکہ معاشروں کی ترقی کا انحصار ہوتا ہے،ہم کہاں پرکھڑے ہیں ؟یہ کوئی خفیہ راز نہیں ہے اوردنیاکس بلندی کی طرف گامزن ہے یہ بھی کوئی مخفی امر نہیں ہے ۔

جلدیا بدیر پاکستان کے بسنے والوں کو واپس غاروں کی زندگی یا جدید تمدن میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا۔زینب کاقاتل اگرمل گیا تو اسکوپولیس مقابلے میں پار کرنے کی بجائے ،کڑی سے کڑی سزا دینی چاہئے جو ایسے ہی غنڈوں کیلئے عبرت کا مقام بن سکے۔ اسکے ساتھ ایسے عوامل کو بھی زیر غورلانے کی ضرورت ہے جو بچوں کوبلکہ پورے سماج کو ہی غیر محفوظ بنانے کے ذمہ دار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :