زمین زادو! آگے بڑھو

ہفتہ 24 اکتوبر 2020

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

انسانوں کو جاننے کا عمل انسانوں کی طرح ہی مشکل و دقیق ہے۔ باقی جانداروں سے ہٹ کر' انسانی رد عمل صرف جبلی حرکات تک محدود نہیں ہے۔ معروضی عوامل پر انسانی ردعمل ان گنت جہتوں سے تشکیل پاتا ہے۔ یہی خصوصیت باقی جانداروں پر اسکی سبقت کا باعث ہے۔
 واقعات،حادثات یا پھر روزمرہ زندگی  کے معمولات تک پر' انسانی حرکیات' طے شدہ سے زیادہ' واقعاتی تقاضوں کے مطابق ترتیب پاتی ہیں۔

سادہ واقعات کی تہوں میں جھانکتے' ضرب تقسیم دینا جانچنا،رد کردینا، مختلف زاویوں سے پرکھنا اور موازنہ کرنا' شعور کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
  اگر انسان کی آزادانہ حرکیات کو کسی جبری کیفیت سے محدود نہ کیا گیا ہو یا مخصوص ماحول کا پابند نہ کیا گیا ہو تو اسکے ردعمل کو جانچنا یا پیش بینی کرنا آسان عمل نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

  انسان اس لئے بھی زیادہ پچیدہ ہے کہ وہ ہر ہر لمحے کی تبدیلیوں پر اس سے بھی تیز اندرونی اور بیرونی تجزیاتی حرکیات کو خلق کرتا ہے،  ردعمل کو میکانیت کی بجائے فہم و ادراک سے سجاتا اور لمحے کے ہزارویں حصے میں طے کردہ رد عمل کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

انسانی شعور' حسیاتی اوزاروں سے نہ صرف گردو نواح کو جان پاتا ہے بلکہ موجود مادی اشیاء کی ساختی شناخت کرتے ہوئے اسکے کردار کا جائیزہ بھی لیتا رہتا ہے۔ یوں وہ تحیر اور پراسراریت کی وادی طلسم سے نکل کر مطالعے،مشاہدے،تجربے اور تجزیے سے مادی احوال کی تعبیر کرتا ہے۔  غار اور پتھر کے عہد سے اکسویں صدی تک کے انسان کا' تہذیبی بدلاؤ' اسکے شعور کی پرکھ،فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کی صلاحیت  کا عملی اظہار ہے۔


زور دار کائناتی مظاہر سے مغلوب انسان کا تحیر اور پھر خوف و لاعلمی  کے سبب معرض وجود میں آنے والے 'اظہاریے' تاریخ کا حصہ ہونے کے باوجود اپنی ساکھ کھوچکے ہیں۔ کھوج اور جاننےکی سرشت نے "عہد لا علمی" کے نتائج ابدی ماننے سے انکار کردیا ہے۔ یوں رد کرنے اور نیا جاننے کا وصف آگے ہی آگے کے راستے بناتا گیا۔ (بظاہر)غیر موجود سے موجود اور پھر موجود سے تحلیل کے مشاہدے شعور کے تاریک گوشوں کو جھنجھوڑ کر روشن کرنے کا باعث بنتے گئے۔

اکتفا کو  رد کرتے' نت نئی توجیہیں دریافت کرنا, انسان کا ایسا وطیرہ ہے جو اسکے جاننے اور مزید جاننے کے اشتیاق کو جلا بخشتا اور انگشافات کے نئے چراغ جلاتا جاتا ہے۔
کائنات میں جا بجا بکھرے دیگر مادی وجودوں کے سامنے انسان ہر لحاظ سے بچہ یے۔انسان کا موجودہ جسم اسکی مسلسل محنت کی تراش سے وجود میں آیا ہے۔ اسی عمل سے وہ دیگر ھم عصر جانداروں سے مختلف ہوتا گیا۔

انسانی جسم کے تمام حصے ہی اہم ہیں مگر بالائی حصہ انسان کے لئے اسکی محنت کا سب سے خوبصورت حاصل ہے۔ انسانی کھوپڑی'  تہ در تہ خلیوں سے بنی  بافتوں،خون کی نالیوں اور اعصاب کے نظام کو تشکیل دینے والے نیوران نامی پیغام رساں لشکاروں کے نظام کی محافظ ہوتی ہے۔  یہی وہ مادی اسباب ہیں جو اپنے پانچ حسی مددگاروں کی محسوسات کو معنے بخشتے ہیں۔

گویا مادہ' مادے سے ہم کلام ہوتا ہے اور علم کے خزانے تشکیل دیتا جاتا ہے۔
یوں انسانی سبقت اسکا دماغ ہے، جو معروضی مظاہر کو اپنے حسی اوزاروں سے جانچ کر معنے عطا کرتا ہے۔ اسی کیفیت کو شعور کہا جاتا ہے۔  اپنے عہد بلوغت میں ہی انسان کے شعور کا ارتقاء حیران کن ہے۔ بہت سے عقدے حل کرنے کے باوجود کائناتی سوالوں کا بہت بڑا سوال نامہ انسان کے روزنامچے کا لازمی حصہ ہے۔

جوابات نئے سوالات کو جنم دیتے ہیں، یوں تجسس اور تحقیق نئی دریافتوں کا موجب بن رہے ہیں۔
ابھی انسانوں کی بہت بڑی تعداد سوچ بچار، مشاہدے،تحقیق اور جانکاری کے عمل سے باہر ہے۔ روٹی کا مسئلہ انکی ساری صلاحیتوں کے درمیان رخنہ ڈالے کھڑا ہے۔ یہ مسئلہ ختم ہوگیا تو چند لاکھ کی بجائے اربوں شعور انسانی پیش رفت کو جستیں لگوا کر نئی منزلوں کو آسان بنا دیں گے۔


روٹی کا مسئلہ آسمانی نہیں زمین پر موجود بیمار ذہنوں کا پیدا کردہ ہے۔ یہ مسئلہ کائناتی گتھیوں سے زیادہ گھنمبیر اور اہم ہوچکا ہے۔ یہ فوری حل کا متقاضی ہے۔  دیگر اہم مسائل کی طرح زمین زادے ہی اس مسئلے کو حل کریں گے۔ چند بیمار ذہنوں کی سزا ساری انسانیت کیوں بھگتے ؟ زمین زادوں کو اپنے روزنامچے کی فہرست ازسر نو مرتب کرنا ہوگی۔ کائناتی مطالعہ فطرت کے کردار کے اعلی اوصاف سے یہی سبق حاصل کرتا ہے کہ " سارے اسباب وسائل" کسی ایک یا چند گروہوں کے نہیں بلکہ سب کیلئے ہیں۔

ذاتی ملکیت ایک مکروہ زمینی فعل ہے جو نہ ازل سے تھا اور نہ ہی ابد تک اسکو رہنا ہے۔ ذاتی ملکیت اجتماعی پیش رفت کی راہ میں ہمالیائی رکاوٹ ہے۔اس رکاوٹ کو عبور کرکے ہی نئے جہانوں کی تسخیر کا سفر مہمیز پاسکے گا۔
اکثریت کو اقلیتی قبضہ گیریت ختم کرکے نئے انسان کی تاریخ کا پیش لفظ لکھنا ہوگا تاکہ انسانی تاریخ کی کتاب میں سنہرے باب لکھے جاسکیں۔
زمین زادو! پیش رفت تم پر واجب ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :