سیاست،نظام اور تبدیلی؟

بدھ 13 مارچ 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

ملک کے سیاسی حالات کے تناظر میں جائزہ لیا جائے تو ملکی سیاست کا محور جاگیردار اور سرمایہ دار طبقہ کو سمجھا جاتا ہے ۔ملک کی سیاست آپ کو اقتدار کے حصول‘جمہوری اقدار کی بالا دستی‘مذہبی اقدار کے تحفظ‘حقوق حاصل کرنے یا اپنے ذاتی مفادات کے حصول کی اقسام میں تقسیم نظر آئیگی۔دیکھا جائے تو سیاست ایک ایسا عمل ہے جس میں عوامی اور سیاسی جماعتیں ریاست کا ایک طریقہ کار وضع کرتی ہیں جس کے ذریعے عوامی حلقوں کے مابین مسائل پر بحث کر کے کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور ریاستی فیصلے رائے عامہ کی روشنی میں لئے جاتے ہیں۔


المیہ یہ ہے کہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود ملک میں جو سیاسی عمل پرورش پا رہا ہے وہ جمہوری اقدار اور روایات کے منافی ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کے گرد مسائل کے انبار میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

موجودہ ماحول میں معاشرہ اپنا بنیادی ڈھانچہ تبدیل کرنے کو تیار نہیں اور ہمارا سماج اجتماعیت سے ٹکر لینے پر تلا نظر آتا ہے۔جمہوریت سے عاری سیاسی عمل کی وجہ سے عوام بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے اس کے باوجود جمہوریت کے پروردہ حکمرانوں کی مفاد عامہ سے عاری جمہوریت ایک ہی سوراخ سے عوام کو بار بار ڈس رہی ہے۔

اشرافیہ اس ملک میں اتنی منہ زور اور مضبوط ہو چکی ہے کہ ریاستی اداروں کو ڈکٹیٹ کراتی نظر آتی ہے موجودہ سیاسی نظام نے زیریں طبقہ کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس بوسیدہ نظام جمہوریت کے جاری عمل کو تبدیلی یا ترقی کا نام دے سکتے ہیں موجودہ حالات غور و فکر کے متقاضی ہیں ایسا ملک جہاں بڑی بڑی موٹر ویز‘اورنج ٹرین‘میٹرو‘بڑے بڑے برج اور میگا پراجیکٹس کی شکل میں ترقی و خوشحالی کے تمغے تو ملکی جھومر میں سجا دئیے ہوں لیکن عوام کے دامن بنیادی حقوق سے عاری اور چہرے خوشحالی کے ضامن نہ ہوں تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس نے آج سے اکہتر برس قبل اسلامی و جمہوری روایات کے اغراض و مقاصدکے حصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا ۔

افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ابھی تک یہ طے نہیں کر پائے کہ نسل نو کے لئے رول ماڈل کب بننا ہے ۔
موجودہ کاروبار سیاست کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ سمجھنے میں دشواری نہیں کہ اس میں عوام کے لئے کچھ بھی نہیں کیونکہ نظریات اور اصولوں کی جگہ سرمایہ نے لے لی ہے۔موجودہ حکومت سٹرکچرل اصلاحات کی بات کر رہی ہے جس کی بنیاد پر خوشحالی کے دعوے بھی کئے جا رہے ہیں لیکن دیکھنا ہو گا جس بوسیدہ نظام کے در پر کھڑے ہو کر دعوؤں میں خوشحالی کے رنگ بھرے جا رہے ہیں اس کا ماضی تو پہلے ہی کاسمیٹک ریفارمز کے تجربات سے جڑا ہوا ہے ۔

نظام کی خرابی ہی دراصل تمام مسائل کی جڑ ہے جب تک نظام کو ٹھیک نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس نظام میں کانٹ چھانٹ کر کے ماضی کی حکومتوں کی طرح وقت تو گذارہ جا سکتا ہے لیکن اس نظام کے ثمرات سے عوام سیراب نہیں ہو سکتی اس لئے حکومت کے سامنے نظام کی درستگی سب سے بڑا چیلنج ہے ۔اگر حکومت کی چھ ماہ کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو ابھی تک حکومت سٹرکچرل اصلاحات لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی جس کی بنیاد پر خوشحالی کے دعوے کئے جا سکیں۔

 اس وقت تک قانون‘ایڈمنسٹریشن‘معیشت‘تعلیم‘صحت اور سماجی بہبود سمیت کسی شعبے میں بھی قابل ذکر پیش رفت سامنے نہیں آئی جس کی بنیاد پر اس دعوے کی سچائی کا ڈھول پیٹا جا سکے کہ حکومت نے اپنی سمت اور رفتار کا تعین کر لیا ہو۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لئے یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ نظام کی درستگی کیساتھ اپنی سمت اور کام کی رفتار کا تعین کرے عوام کے حقیقی مسائل کا حل ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے اس کے بغیر تبدیلی و خوشحالی کے دعوؤں میں بیانات سے حقیقت کا رنگ نہیں بھرا جا سکتا ۔

ماضی کی حکومتوں کی نسبت عوام نے موجودہ حکومت کو ان کے دعوؤں‘وعدوں اور منشور کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک تبدیلی کی بنیاد پر اقتدار دیا ہے اب یہ حکومت کو دیکھنا ہوگا کہ ان کے پاس مسائل کے حل کے لئے کیا روڈ میپ ہے اور اس حکومت کا آگے کا سفر کیسا ہو گا۔وزیر اعظم عمران خان کی نیت اور عزم پر شک نہیں لیکن تکلیف دہ صورتحال یہ ہے کہ صنعتکاری‘ برآمدات اور خدمات کے شعبوں میں شرح نمو کی رفتار انتہائی سست‘بدعنوانی انتہا پر‘کالا دھن سفید کرنے کا چلن عام ‘منی لانڈرنگ کیشز کا نتیجہ صفرجبکہ مسائل عوام کی پشت پر کوڑے کی صورت برس رہے ہیں اعصاب شکن مہنگائی نے عام آدمی پر عرصہ حیات تنگ کر کے رکھ دیا چھ ماہ کی تبدیلی سرکار سے عوام ناامید اور مایوس دکھائی دیتی ہے ۔

ملک کے اندر موجود سیاسی جماعتوں کا جائزہ لے لیں تو کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جو منظم‘بالغ اور اپنے اندر کوئی تربیتی ادارہ رکھتی ہو جس کے پاس بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانے کا کوئی پروگرام ہو کوئی ایسا اس عوام کو لیڈر میسر نہیں آسکا جو کردارکی کاٹ اور گفتار کی مٹھاس سے ان کے دلوں پر راج کر سکے۔نظریہ پاکستان پر اتنی دھول جم چکی ہے کہ اس کی اصل شکل دھندلا کر رہ گئی ہے پتھر کے زمانہ سے لے کر خلاء کی تسخیر تک یہ سب عزم کے خوابوں کی تعبیر ہی تھی جسے خاکی انسان نے مکمل کر دیکھایا۔

خواب مستقبل کے ترجمان ہوتے ہیں فرق صرف نوعیت کا ہوتا ہے ایک خواب اس قوم کی آنکھوں میں تبدیلی کی امید بن کر لو کی طرح ٹمٹما رہا ہے جس کے تعبیر کی دعوے دار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اب یہ وقت ثابت کرے گا کہ اس کی قیادت کی نیت میں کھوٹ ہے یا سچائی اگر موجودہ حکومت اپنے وعدوں‘دعوؤں اور منشور پر عملدرآمد کرتے ہوئے نظام کی درستگی کیساتھ عوام کو صحیح معنوں میں ڈلیور کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہے یا نہیں یہ ضرور آنیوالا وقت طے کریگا۔

موجودہ حالات کی دستک تو بتا رہی ہے کہ حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات بیانات سے آگے کی حد عبور نہیں کرسکے جس سے کم از کم یہ تو واضح ہو چکا ہے کہ اگر حالات اسی نہج پر گامزن رہے تو ایسی تبدیلی سے عوام ہمیشہ کے لئے تائب ہو جائیں گے ۔تحریک انصاف کی حکومت کے لئے میدان کھلا ہے ضرورت ہے کہ سٹرکچرل اصلاحات کے ساتھ معاشی اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے ترقی و خوشحالی کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ بے روزگاری‘ غربت‘ لوڈشیڈنگ‘ رشوت‘ سفارش‘اقرباء پروری‘بدعنوانی‘کرپشن جیسے مہلک مسائل کے سامنے بند باندھا جا سکے معیشت کی ڈوبتی نبض کو روانی دے کر ملک کو معاشی استحکام بخشا جائے تاکہ عام فرد کو یہ طے کرنے میں دشواری نہ ہو پرانا پاکستان نئے پاکستان میں ڈھل کر کیسے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گا لیکن اس کے لئے سمت کے تعین اور رفتار کی حد متعین کرنے کے لئے حکومت کو برق رفتاری کے ساتھ عملی اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :