نظام صحت اور المصطفےٰ ویلفیئر کی خدمات!

منگل 17 نومبر 2020

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا 37واں بڑا ملک ہے پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام نے تعلیم اور صحت کی سہولیات کی حصولیابی کے بعد آگے بڑھنے کے سفر کی سمت کا تعین کیااور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے مفر اختیار کرنا ممکن نہیں۔انسانی بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنانا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے اقوام متحدہ کے چارٹر آئین پاکستان کا آرٹیکل 38ریاست کو یہ ذمہ داری تفویض کرتا ہے کہ عام شہری کو بلا امتیاز انسانی بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات فراہم کی جائیں۔

المیہ ہے کہ ملک کی سیاسی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر نہیں جس نے عام آدمی اور اشرافیہ کے درمیان قائم امتیازی خلیج کے خاتمہ کو ممکن بنایا ہو ہمیشہ کی طرح کل اور آج بھی عوام سے بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات کوسوں دور ہیں ۔

(جاری ہے)

ملک میں رائج نظام صحت کا جائزہ لے لیں ملک میں دو قسم کے سرکاری اور نجی اسپتال موجود ہیں لیکن یہاں بھی ایک عام مریض سرکاری اسپتالوں میں علاج کے لئے در بدر ہے نجی اسپتال میں علاج کروانا عام اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے مریض کے لئے ممکن نہیں کیونکہ بھاری بھر کم فیس کی ادائیگی اس کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

ملک میں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اسپتال‘ڈسپنسریاں‘چائلڈ اینڈ میٹرنٹی کلینک اور لاکھوں ڈاکٹرز ہونے کے باوجود غریب مریضوں کا رش ارباب اقتدار اور ارباب اختیار کے لئے غورو فکر کا متقاضی ہے حکومت اداروں کو تو قائم رکھنا چاہتی ہے لیکن ان کو فعال اور متحرک بنانے کے لئے ایک مئوثر نظام بنا کر اسے حرکت میں لانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔پاکستان میں عوامی صحت کے شعبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں دس ہزار کی آبادی کے لئے صرف آٹھ ڈاکٹرز موجود ہیں جبکہ یہ تناسب ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں چوبیس اور مملکت متحدہ میں پچیس ہے۔

پاکستان میں عوامی نظام صحت کی ابتری کی بڑی وجہ غیر تشفی بخش تنخواہیں‘کیرئیر کی ترقی کے کم مواقع‘بھرتی اور انتخاب میں قابلیت (میرٹ) کا پیمانہ کو نظر انداز کرنا‘ملازمت کے لئے خستہ حال ماحول‘دیر سے بھرتیاں ہونا‘عدم نظام احتساب اور ادارہ جاتی اصلاحات کا نہ ہونا ہے۔ملک میں شعبہ صحت کا شمار ایسے شعبوں میں ہوتا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں صحت کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا میں 188ویں نمبر پر ہے کسی بھی ملک میں صحت کی سہولت بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک تصور کی جاتی ہے یہ ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ وہ شہریوں کو علاج معالجے کی سستی اور معیاری سہولیات فراہم کرے۔

بہر حال لاہور‘اسلام آباد‘کراچی ‘ملتان‘فیصل آباد جیسے شہروں میں اچھے سرکاری اسپتال موجود ہیں لیکن وہ اسپتال وہاں کے رہائش پذیر شہریوں کو بھی معیاری علاج فراہم کرنے کی استعداد نہیں رکھتے حالانکہ ہر سال بجٹ میں ایک بڑا حصہ شعبہ صحت کے لئے مختص کیا جاتا ہے ۔حالات یہ ہیں کہ سرکاری اسپتالوں میں تعینات ڈاکٹرز مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کے مشوروں سے نوازتے ہیں مطلب شعبہ صحت میں شفافیت نہ ہونے کے باعث انسانیت اسپتالوں کی راہداریوں میں سسک رہی ہے۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسانی صحت سے متعلق (UN Millenium Declaration)پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت ہر مہذب ریاست کا فرض ہے کہ وہ عوام کو صحت عامہ کی بہتر سہولیات فراہم کرے شہریوں کو صاف ستھرا ماحول‘صاف پانی ار ملا وٹ سے پاک خوراک فراہم کرنے کے علاؤہ غربت کے خاتمہ کے لئے ٹھوس عملی اقدامات اٹھائے تا کہ شہری کم سے کم بیمار ہوں کیونکہ صحتمند قوم ہی ملکی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔

چند دن قبل گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے صوبائی دارالخافہ لاہور کے وسط میں المصطفےٰ آئی اسپتال کا افتتاح کیا اس اسپتال کو جدید ترین مشینری اور آلات سے آراستہ کیا گیا جہاں ماہرین امراض چشم کے ساتھ ساتھ تجربہ کار‘کوالیفائیڈاور ماہر ترین ڈاکٹرز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اسپتال میں آنکھوں کے معائنہ‘مرض کی تشخیص‘سفید موتیا کے آپریشن‘لینز‘ادویات‘نظر کے چشمہ‘اور فالو اپ کی تمام تر سہولیات اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ مفت فراہم کی جائیں گی۔

افتتاحی تقریب میں محترم نواز کھرل کی خصوصی دعوت پر راقم سمیت ملک کے نامور قلمکار‘دانشوراور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے علاؤہ وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری بھی شریک ہوئے المصطفےٰ ویلفئیر ٹرسٹ کے چئیرمین عبدالرزاق ساجد اور ان کی ٹیم کے متحرک ممبران کی یہ کاوش ان کی عملی جدوجہد سے عبارت ہے یہ ایسے باہمت کرداروں کی لازوال داستان ہے جن کا مشن آج بھی لگن‘محنت اور صادق جذبوں کی گرہ سے بندھا اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔

اس انسانی خدمت کے مشن سے اب تک ایک لاکھ انسانوں کی تاریک آنکھوں کو روشنی مل چکی ہے۔اس ٹرسٹ کے انسانیت کی فلاح کے بہت سے منصوبے آج بھی معاشرے میں انسانی فلاح کے لئے بے بس‘نادار اور سسکتے انسانوں کے دست و بازوہیں۔لاہور کے وسط میں المصطفےٰ آئی اسپتال کا قیام قابل قدر اقدام اور ملک میں بسنے والے صاحب ثروت افراد کے لئے قابل تقلید عمل ہے ۔

اس وقت ملک میں دو کروڑ افراد نظر کی کمزوری یا بینائی کا شکار ہیں ان مریضوں میں اسی فیصد ایسے مریض ہیں جو موتیا کی وجہ سے نابینا پن میں مبتلا ہو چکے ہیں یہ مرض قابل علاج ہے بلکہ ایک معمولی آپریشن کے ذریعے ایک نابینا انسان دیکھنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ملک بھر میں بے شمار رفاعی و فلاحی تنظیمیں معاشرے میں غربت و افلاس کی دلدل میں دھنسی انسانیت کی سانسوں کو دراز کئے مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہیں جو حکومتوں کے اس دعوے کی نفی ہے کہ عام آدمی کا معیار زندگی بہتر بنانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔

بہر حال بات ملک میں رائج نظام صحت سے شروع ہوئی تھی ماضی اور موجودہ حکومت کے دعوؤں اور غیر سنجیدہ اقدامات آج بھی حقائق کے بر عکس ہیں جب تک حکومت سنجیدگی کے ساتھ نظام صحت کو بہتر بنا کر عام آدمی کو صحت کی بہترین سہولیات سے آراستہ نہیں کرتی تب تک وطن عزیزکو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتانظام صحت بہت بڑے آپریشن کا متقاضی ہے ہیلتھ سیکٹر میں اصلاحات اور ایک مئوثر نظام کا ہونا از حد ضروری ہے جس کا ادراک حکومت کو ترجیہی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :