مغرب میں اسلامو فوبیا کا بڑھتا رجحان!

ہفتہ 12 جون 2021

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

کینڈا کے صوبے اونٹاریومیں چار پاکستانی نژاد مسلم خاندان کے افرادکو گاڑی تلے روندکر ہلاک کئے جانے کے دلخراش‘المناک واقعے نے مسلم کیمونٹی کو ہلا کر رکھ دیا ہے دنیا بھر میں ویسے تو دہشت گردی کے بھیانک واقعات سامنے آتے رہتے ہیں لیکن مذہبی دہشت گردی جس میں ”اسلامو فوبیا“کا غلیظ سایہ اور عنصر غالب ہو وہ اپنے طریقہ اور نت نئے انداز سے دنیا کو خوفزدہ کر رہی ہے۔

مغرب میں کہیں مساجد میں گھس کر دہشت گرد نمازیوں پر حملے کر کے شہید کرتے ہیں کہیں سڑک پر چلتے راہ گیروں کو مذہب کے نام پر اپنی نفرت کا نشانہ بنا کر گاڑیوں تلے روند دیا جاتا ہے۔اب عام بات ہو گئی ہے امریکہ‘کینڈا اور مغربی ممالک بشمول نیوزی لینڈ اور آسڑیلیا جیسے لبرل ممالک میں ایسی مثالیں مل جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

مغربی ممالک کے حکمران ایسے واقعات پر مذمت بھی کرتے ہیں اور اپنے دفاع کو اپنا حق بھی سمجھتے ہیں کینڈا میں جس طرح درد ناک طریقہ سے ایک مسلم خاندان کو مذہبی نفرت کا نشانہ بنا کر ٹرک نیچے روند دیا گیا ہے اس اندوہناک واقعہ نے سوال کھڑا کر دیا ہے کہ مسلمان کہاں اور کن کن ممالک میں اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ محفوظ ہیں؟ان کی حفاظت کی ضمانت کون فراہم کرے گااور اسلامو فوبیا کا قلع قمع کیسے ممکن ہے۔

حقوق انسانی اور جمہوریت کے علمبردار ممالک کو ادراک ہونا چاہیے کہ مسلمان دنیا کا ایک چوتھائی حصہ ہیں دنیا کے نقشے پر ستاون اسلامی ممالک آباد ہیں آخر غیر مسلم ممالک میں آباد مسلمانوں کی مذہبی اور شخصی آزادی اور حفاظت کی ذمہ داری کس کے سر ہے ۔لندن کے شہر میں سڑک پر چہل قدمی دوران مسلم خاندان کو ایک شخص نے ٹرک چڑھا کر روند دیا ایک ہی خاندان جن میں چار مرد اور ایک عورت شامل تھی ان میں صڑف ایک بچہ زندہ بچ سکا جب کہ چار افراد کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی اس نفرت آمیز حملے میں سات سالہ بچہ زخمی حالت میں اسپتال داخل ہے۔

کینڈین پولیس نے حملہ آور کو گرفتار کر لیا اب گرفتار حملہ آور کے بارے پولیس چھان بین کرے گی کہ اس نے یہ انتہائی اقدام کیوں اور کس کے ایما پر کیا کیا اس کا کسی دہشت گرد گروہ سے تعلق ہے یا نہیں ؟بہر کیف ایک پورا خاندان اس حملہ میں ختم ہو گیا اور تین نسلین اس حملہ کا نشانہ بنی وہ بچہ جس کا ہنستا کھیلتا بچپن لمحوں میں سخت آزمائشوں اور امتحان اور مصیبت بھرے مستقبل کی نذر ہو گیا ہے اگرچہ وہ زندہ بچ گیا تب! بہر کیف کوئی کچھ بھی کہے یہ حملہ سوچی سمجھی مسلم دشمنی کا حصہ ہے اور اسلامو فوبیا کے زہر سے بجھے تیر سے کیا گیا ہے یہ پہلا اور آخری حملہ ملک عزیز پاکستان کے خاندان پر نہیں ہوا اسی طرز کے حملے کسی دوسرے ملک کے افراد کے ساتھ بھی رونما ہو سکتے ہیں۔

اس سے قبل چند ماہ ہی گذرے ہونگے کہ نیوزی لینڈ میں ایک حملہ آور نے جمعتہ المبارک کے دن مسجد کے اندر داخل ہو کر نمازیوں کو اندھا دھند فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا وہ بھی اسلامو فوبیا(اسلام سے خوف) کی ایک بد ترین شکل ابھر کر سامنے آئی اس حملے میں کئی نمازی شہید کر دئیے گئے اس طرز کے حملے کہیں بھی ہوں قابل مذمت ہیں لیکن ایسے حملوں کے تدارک کے لئے کسی بھی مغربی حکمران نے کبھی عملی کوشش نہیں کی کہ ایسے ناقابل بیان اور نفرت کی بنا پر ہونے والے حملے دوبارہ رونما نہ ہوں تا کہ کسی کی مذہبی آزادی کو گزند نہ پہنچ سکے۔

اس میں شک نہیں کہ یہ ایک ناقابل بیان اور نفرت کی بنا پر سرزد ہونے والا واقعہ ہے جو عدم رواداری کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہتیں۔کینڈا تمام مذاہب کے ماننے والے تارکین وطن کا خیر مقدم کرنے والا ملک خیال کیا جاتا ہے لیکن وہ کچھ سالوں سے ایسے حملوں کو گواہ بنا ہوا ہے اس سے پہلے بھی مسلم کیمونٹی کے افراد کو نشانہ بنا کر شہید کرنے کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔

یاد رہے کہ جب 2017ء میں ایک فرانسیسی زبان بولنے والے دائیں بازو کے قوم پرست شخص نے کیوبک شہر کی ایک مسجد میں گھس کر فائرنگ کر دی تھی اس واقعہ میں چھ افراد شہید ہوئے تھے ۔یہ واقعہ کینڈین معاشرے کے لئے ایک امتحان ہے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان کے تدارک کے لئے عملی ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے پانچ مسلمانوں کی شہادت کے بعد ان کا مذمت کرنا اور اظہار تعزیت قابل قدر ہے لیکن ان کو اسلامو فوبیا کے شکار لوگوں کی نشاندہی کرنی چاہیے اور تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پروان چڑھتی اس منحوس سوچ کو بھی ختم کرنے کے لئے عملی کردار ادا کرنا چاہیے۔

اس وقت دنیا بھر کے مسلمان اسلامو فوبیا کا شکار ہیں لیکن دہشت گردی کا طوق اکثر انہی کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے اس حقیر سوچ کو مٹانے کے لئے کچھ بھی عملی طور پر نہیں کیا جا رہا ۔گزشتہ پندرہ سالوں میں جس رفتار کے ساتھ یورپی ممالک میں مسلم دشمنی کے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے وہ تشویشناک ہے ان ممالک میں بھارت‘آسڑیلیا‘جرمنی‘بلغاریہ‘اٹلی‘نیدر لینڈ‘برازیلا و ڈنمارک اور فرانس سر فہرست ہیں۔

بہر کیف کینڈا کا واقعہ شرمناک اور دلدوز ہے اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں اس کے لئے عملی کوششوں کی ضرورت ہے عالمی سطح پر اس واقعہ کی مذمت کی جارہی ہے ایک بڑے جمہوری ملک میں اس طرح کے واقعات کے لئے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے یہ ایک صریح دہشت گردی ہے اور ایک خاص مذہب کے ماننے والوں کے خلاف بہر حال ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے عالمی سطح پر کوششیں ہونا لازم ہیں محض عالمی سطح پر مذمتیں اور اظہار افسوس ایسے درد ناک واقعات کو روکنے میں معاون ثابت نہیں ہو سکتے جہموریت کی علمبردار اور انسانی حقوق کی دعویدار عالمی قوتوں کو اپنے قول و فعل کے تضاد کردار کو بھی پرکھنے کی اشد ضرورت ہے اور اسلامی ممالک کو بھی متحدہ فورم سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے بلند آہنگ آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :