قلم گوید کہ من شاہ ِ جہانم!

ہفتہ 11 اپریل 2020

Razi Uddin Syed

رضی الدین سید

 اگر آپ اپنے 80 سالہ والد یا والدہ ،(یا اوراوپر چلے جائیں تودادا یا نانی )کی کوئی تحریر پڑھیں،بشرطیکہ انہوںنے کوئی تحریر چھوڑی بھی ہو ،اور وہ کم از کم آٹھویں پاس رہے ہوں، توآپ دیکھیں گے/ دیکھیں گی کہ،اس دور کے یہ بزرگ ،عام تحریر یں اور خطوط بھی حیر ت انگیز طور پرعمدہ اور ا دبی طرز کے لکھا کرتے تھے۔ ان کے قلم سے ادا شدہ تین چار جملے پڑھ کر ہی ہمیں اورآپ کو ادبی چاشنی کی جھلک محسوس ہونے لگے گی۔

محسوس ہوگا جیسے وہ گنگا جمنی اردو بول رہے ہوں،جیسے میر تقی میر کی شاعری کررہے ہیں،جیسے عمدہ کتاب کا کوئی ورق پڑھ رہے ہوں!۔
مثلاََ میر ے والدکے ایک خط کی یہ سطور ملاحظہ ہوں۔’’دن کی گرمی نے دماغ کی صلاحیتیں جلاکر ناکارہ کردی ہیں۔بارے اس وقت آنکھ کھلی تو طبعیت کو موزوں پایا اور یہ چند سطور نوکِ قلم سے آپ کی سمع خراشی کے لئے ٹپک پڑیں‘‘۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ والد تقسیم ہند کے پہلے کے میٹر ک پاس تھے ،اگرچہ کہ عمر اور تجربے کے باعث اہم ذمے داریو ں پر فائز رہے۔ اس انداز کی تحریر ی صفت محض اس دور کے مردوں ہی میں نہیں،خواتین میں بھی پائی جاتی تھی۔تحریر یں کیا ہوتی تھیں، چاشنی میں رچی ہوتی تھیں۔ اورمعاملہ صرف تحریر وںہی کانہیں ، ان کی زبانی گفتگوئوں کا بھی یہی تھا۔ بول چال سنیں تو لگےگا جیسے وہ بالکل شائستہ اردو بول رہے( یابو ل رہی) ہیں۔

جبکہ اِدھر َادھیڑ عمر تک کے لوگوں کی بول چال ،تحریر سنیںیا پڑھیں، تو لگتا ہی نہیں ہے کہ وہ اردو سے واقف ہیں،یا اردو ان کے گھر کی زبان ہے!۔
سوسوال پید اہو تا ہے کہ ہمارے مرحوم یا  بقید ِحیا ت بزرگوں کی تحریر وں میں ایسا جادوکیو ں پایا جاتاتھاکہ باتیں یا تحریر سن پڑھ کر لوگ آج بھی بے ساختہ داد دینے پر مجبور ہوتے ہیں ؟۔ ایک ہی وجہ !۔

اس دور تک (جو ہندو پاک میں صدیو ں تک چلتا رہاہے)، تعلیم مشرقی انداز سے دی جاتی تھی،منشی وفاضل کا نصاب پڑھایا جاتا تھا،شیخ سعدی کی گلستان و بوستان مطالعے میں رکھی جاتی تھی ،زبان کی صفائی ستھرائی کواولیت دی جاتی تھی، برے اورگھٹیا الفاظ سے طلبہ کو دور رکھا جاتا تھا، اور’’ اخلاق ِکریمہ  و  صفات ِجمیلہ‘‘ پرہی تمام تر زوردیا جاتا تھا۔

فارسی اورعربی زبانوںکا چلنعام تھا کیونکہ انہی زبانوںمیں ادب و شاعری کی روح بسی ہوئی نظر آتی تھی ۔  نیز مافی الضمیر بیا ن کرنے کی وسعت بھی ان میں بہت زیا دہ پائی جاتی ہے اور وہ اردوزبان کی  ماں بھی گردانی جاتی ہیں۔
ظاہر ہے کہ جب تعلیم و ادب پر اس قدر زیا دہ توجہ دی جا ئے، ایما ن ،اخلاق،اور زبان پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے، توبولنے والوںکی ز بانو ں پر شیر ینی کیو ں نہ از خود گھلنے لگے گااور گفتگو و تحریر میں ادب و غزل کا رنگ کیو ں نہ از خود جھلکنے لگے گا؟ ۔

وہ رنگ جسے سن اوردیکھ کر لوگ بے اختیا ر پکار اٹھیں کہ’’دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا ۔۔۔میں نے جانا کہ گویا وہ بھی میر ے دل میں ہے‘‘ ۔جیسے لکھی ہوئی کوئی کتاب ہو ، طبع  شدہ کوئی غزل ہو،اور دداداا دادی یا نانا نانی کی زبان سے بیان ہورہی ہے۔اگرچہ کہ وہ  لوگ  تب محض آٹھویں جماعت یا میٹرک پاس ہی ہوا کریں!
زمانہ بدلا ،ماحول بدلا، اخلاق و تہذیب کے چولے بدلے،اور تعلیمی نصابات میں ترجیح کے معیا رات تبدیل ہوئے ، تو بات یہا ں تک پہنچی کہ خوبصورت وپرکشش جملوں کا تو سوال ہی کیا  ،کہنے والوںکا خود منہ بھی ٹیڑ ھا ہوا!۔

بقول شاعر کہ ’’خبرلیجے،دہن بگڑا‘‘۔ عمدہ الفاظ تو منہ سے کیا ادا ہوں، سوال بلکہ یہ پیدا ہوگیا کہ ’’ا ٓیا صاحب ِبیا ن ‘‘کواردو بھی صحیح آتی ہے یا نہیں؟۔پھر تو ’س ‘اور’ ش‘ کا تلفظ بھی غلط ہوا اور ’مد ‘و’ ہمزہ ‘کی ادائیگی بھی اجنبی ٹھہری!۔ چنانچہ ایسی صورت میں اب کوئی مضمون کیا لکھے؟ ، لکھے بھی توکیسے  لکھے؟،اور زبان سے پھول جھڑیں بھی تو کیو ں کر جھڑیں ؟
بقول شاعر؎                                                                                                
بنے کیو ں کر کہ ہے سب کار الٹا
ہم الٹے ، بات الٹی ، یا  ر الٹا
مضمون نگاری تو وہ فن ہے جس سے انسان کے درجے بڑھتے ہیں اورجو اسے کچھ کا کچھ بنادیتا ہے! ۔

مگر خودیہ فن کیسے آئے؟یہ بھی ایک سوال ہے ۔سو بہت کچھ تواس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے جرثومے بعض انسان میں قدرتی طور پرڈالے ہیں۔ اور کچھ اس وجہ سے کہ مشق در مشق کرنے سے مضمون نگار انہیں ذہن میں اُس انگریزی محاورے کے مطابق ،کہ    Study and Practice makes a man perfect.  خود ہی جنم دے لیتا ہے ، ۔ جو جتنی مشق کرے گا ، سمند ر کا وہ اتناہی شناور ہوگا۔

مگر مشق کے بھی کچھ خاص پہلو ہوتے ہیں،مطالعہ جن میں سر فہرست ہے۔ مطالعہ زبان وبیا ن میں حسن پید  اکرتاہے ،بولنے والے کی بات کو مدلل بناتاہے، دنیا جہان کی گھر بیٹھے سیر کرواتا ہے،اور لوگوں کوخود پر داد دینے پرآمادہ کرواتا ہے۔وہمضمون نگارجو اپناما فی الضمیر سات آٹھ سطرو ں میں پھیلا کربیا ن کرتا ہے ،منجھا ہوامضمون نگار اسی بیا ن کو محض دو یا تین سطروں میں بحسن و خوبی سمودیتا  ہے ْ۔

حالی کا یہ جملہ کس قدر خوبصور ت ہے کہ (غالب کے بیا  ن و زبان کو سن کر بہت سے لوگ )’’بت بن جاتے تھے جاتے تھے ۔اور بت بننے والے سر ہلانے لگتے تھے‘‘ ۔
کسی پر طنز کرنا ہو یا کسی کی  ستائش مقصود ہو، زبان وبیا ن اسے ادائیگی کا سلیقہ سکھادیتے ہیں!
 کسی صاحب طرز ادیب کایہ قول ِ فیصل کتنی اہمیت رکھتا ہے کہ ’’اگرمیں دو دن مطالعہ نہ کروں توتیسر ے دن میری گفتگو میں پھیکا پن آجاتاہے‘‘ ۔

یہ ہے مطالعے کی وہ قوت جس پر ہم یہا ںزور دینا چاہتے ہیں!۔ لیکن آج ہم جو کچھ یہا ں دیکھ رہے ہیں، وہ اس کے سوااور کیا ہے کہ چھوٹوں اور بڑوںمیںمطالعے کا رجحان افسوس ناک طور پر دم توڑتا جارہا ہے جبکہ اخلاق و تہذیب  کا دامن ہاتھ سے نکلتا جارہاہے ۔ بدزبانی اور گالم گلوچ عام ہورہی ہے،اور پوری قوم بداخلاقی کے مجسمے میں ڈھلی نظر آتی ہے ،اگرچہ کہ لوگ اب پہلے سے بھی کہیں زیادہ ’’عالم‘‘ اور ’’فاضل‘‘  بن چکے ہیں۔

کل کی نسبت بھاری بھاری ڈگریا ں آج ان کے ہاتھوں میں ہیں! ۔گویا ’’گھٹ گئے انساں ،بڑھ گئے  سائے‘‘ ہیں!
مطالعہ کریں آپ قرآن مجید کا!،مطالعہ کریں آپ شعرو شاعر ی کا !۔ گیتو ںاور آپ بیتیو ں کا!۔ سائنس و کائنات کا۔اور بیر ونی سفر ناموں کا! جس قدر بھی آپ اپنے مطالعے کو بڑھائیںگے ، اپنی  تحریر کو اسی قدر ادبی رنگ ،چاشنی ،اور دلائل سے مزیّن کریں گے۔

ایک عام گفتگو جو پھسپسی ہوتی ہے ، بامطالعہ گفتگو اسی میں وزن ڈالتی ہے جس کے آگے لوگ خود کوسر جھکا نے پر مجبور پاتے ہیں۔ مطالعے کی وسعت سے انسان کو اپنی بات موئثر انداز سے کہنے کافن آنے لگتا ہے جس کے بعدوہ  اپنی قدر وقیمت کچھ اوربڑھالیتا ہے۔
یہ سوال کہ مطالعہ کی یہ خصوصیت کیا محض نثر کے ساتھ وابستہ ہے ؟،تو جواب یہ  ہے کہ ’’ نہیں،بلکہ شاعری کی راہ اختیا ر کرنے والے پر بھی اس کا اطلاق لازمی ہے۔

اچھا شعر کیسے کہا جائے ، پر اثرغزل کیو ں کر ادا کی جائے؟،اس کے لئے قدیم اساتذہ کے دیو انوں کا مطالعہ از بس ضروری ہے ۔
مضمون نگاری  کا ایک اور ناگزیرعنصر ادیبو ں اورشاعروں کی صحبت بھی ہے۔ جو فردجس صاحب طرز ادیب و شاعر کے ساتھ اپنی وابستگی طے کرے گا، اپنی تحریر ی صلاحیتو ں کو وہ اسی قدر جِلا دے سکے گا۔ کیو نکہ استاد اسے رہنمائی دے گا، اس کے عام الفاظ کوحسین الفاظ میں تبدیل کرے گا،اور اس کے عین غین کی ادائیگی کو ایک نیا رنگ دے گا۔


مضمون نگار اپنی تحریر سے معاشرے کی اصلاح کا کام لے سکتا ہے، لوگوں کو نئی جہتوں سے روشناس کرسکتا ہے، اخلاقی قدروں کی آبیا ری کرسکتا ہے، حکمرانوں کو درستگی کی جانب متوجہ کرسکتا ہے۔ یاچاہے تو منفی کردار ادا کرکے معاشرے میںبگاڑ پید ا کرسکتا ہے، بغاوت کو جنم دے سکتا ہے،اور لوگوں کوجہالت کے اندھیر وں میں ڈبو سکتاہے۔ مصنف پر بہت بھاری ذمے داری عائدہوتی ہے۔

اس کا مذہب ،اس کا اخلاق ،اس کے  وطن کی مٹی، اس سے بہت کچھ تقاضا کرتی ہے ۔ سب کے سب اس سے اپنا حق مانگتے ، انصاف طلب کرتے ہیں۔
مصنف وہ خوش نصیب فردہے جس کے پاس قلم کی قوت ہے جس سے وہ مثبت و مفید کام لیتا  ہے ۔ بدنصیب ہے وہ شخص جو ان سب تقاضوں سے بغاوت کرتااور باغیا نہ خیا لات کی ترویج کرتا ہے۔ قلم دراصل ہتھیا ر ہے جسے یا تو کوئی اندھادھنداستعمال کرلے یا اس پر مثبت طور پر قابو پالے۔

ہرایک ا ستعمال کا اپنا اثر ہوتاہے۔ فارسی کا معروف مصرعہ ہے کہ’’قلم گوید کہ من شاہِ جہانم‘‘۔قلم کا دعویٰ ہے کہ’’  دنیا کی اصل بادشاہت اسی کے پاس ہے‘‘۔ ہر جگہ اسی کی روانی ہے اورہر جگہ اسی کی سلطنت ہے!۔ کاغذ کے چھوٹے سے پرزے پر کسی کے قلم سے مختصر دستخط بھی کسی حکومت کوزیر و زبر ،اوراشخاص کو پست و بالا کرسکتی ہے۔ تو’’کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ قوت کا‘‘!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :